روڈ شو : سیاسی طاقت کا فاتحانہ اظہار یا طوفانِ بدتمیزی

صفدر امام قادری

        جمہوری نظام میں ووٹ مانگنا اور ووٹ دینا تو ایک حقیقت ہے مگر اس کے انداز ہزاروں ہیں۔ ایک ایک گھر اور دروازے تک پہنچ کر ووٹ مانگنے سے لے کر کھلے میدان میں بڑی بڑی ریلیاں کرنے کا عام رواج رہا ہے۔ بڑے لیڈران اپنے لیے اور اپنی پارٹی کے لیے ووٹ مانگتے پائے جاتے رہے ہیں۔ جواہر لعل نہرو سے لے کر اٹل بہاری واجپئی تک یہ انداز دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ اپنے کام یا اپنے آئندہ کے پروگرام کے سلسلے سے قائدین عوام سے ووٹ طلب کرتے رہے ہیں۔

        پہلے یہ کام اخلاق مروّت کے ساتھ ہوتا تھا۔ زیادہ توجہ اپنے لیے ووٹ مانگنے میں صرف ہوتی تھی۔ حزبِ اختلاف کا آدمی اقتدار کی ناکامیوں کو واضح کرکے عوام کو نئے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت دینے کے لیے گزارش کرتا تھا۔ اس میں غم و غصہ کی گنجائش رہتی تھی مگر ایک شایستہ انداز بہر طور قائم رہتا تھا۔ پنچایت اور وارڈ کانسلر کے انتخابات میں چوں کہ مخالفین ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، اس لیے مقابلے کی زیادہ صورت سامنے آئی۔ اختلاف اور شدت میں بھی اضافہ ہوا۔ موٹر سائیکل کی سواری پہ پہلے شرفا بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے اور یہ مانا جاتا تھا کہ گائوں کے نئے دولت مند یا ٹھیکیدار اور غنڈے بدمعاش اس سواری کا استعمال کرتے تھے۔ گائوں کی سطح پر اپنی طاقت دکھانے کے لیے روڈ شو کا سلسلہ شروع ہوا۔ چار دس موٹر سائیکل اور کچھ سائیکل سوار گائوں کے ایک سِرے سے دوسر ے سِرے تک نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے اور روڈ شو مکمل ہو گیا۔ حالاں کہ اس دوران شریف گھروں کے دروازے جلدی میں بند کر دیے جاتے تھے اور گھر کے چھوٹے بچوں کو پکڑ کر محفوظ جگہوں پر رکھا جاتا تھا۔ اس بھاگ دوڑ میں کہیں نہ کہیں غیر تہذ یبی رویہ سامنے آتا تھا۔

        انتخاب کی روایتیں دیکھتے دیکھتے بدل گئیں۔ پہلے صوبائی انتخابات میں وزیرِ اعظم کی دو چار سے زیادہ ریلیاں کبھی نہیں ہوئیں۔ ضمنی انتخابات میں بھی وزیر اعظم کا انتخابی دورہ مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ پھول پور سے جواہر لعل نہرو کے خلاف جب ڈاکٹر رام منوہر لوہیا انتخابی میدان میں کود پڑے تو لوہیا کے خط کے جوا ب میں جواہر لعل نہرو نے انہیں ایک مشورہ یہ دیا کہ انتخاب میں ذاتیات کو نہ شامل کیا جائے اور اپنی طرف سے یہ وعدہ کیا کہ اس حلقۂ انتخا ب میں وہ نہیں جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم کو بھی اپنے حلقۂ انتخاب میں ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے تویہ کون سی مقبولیت اورکیسی قیادت ہے؟

        آج کے انتخابات میں تشہیر کا جو معیار اور انداز ہے ، وہ ہمیں حیرت کے ساتھ ساتھ خوف میں بھی مبتلا کرتا ہے۔ صرف غیر معیاری اور کمزور کردار سامنے نہیں آرہے ہیں بلکہ ان کی گفتگو اور بیان کے ڈھب میں بھی ہزار خرابیاں نظر آتی ہیں۔ کن موضوعات پر گفتگو ہو اور الکشن کے دوران کیسے ایک دوسرے کے اچھے بُرے کا جائزہ لیا جائے، اس کی اخلاقیا ت اب حد درجہ پستی تک پہنچ چکی ہے۔ چور، بے ایمان، لٹیرا اور اس سے بڑھ کر ماں ، باپ اور بھائی، بہن سب کچھ ہو رہا ہے۔ کمال یہ ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دینے میں کوئی آدمی پیچھے نہیں اور اینٹ کا جوا ب پتھر سے دیا جائے ،اس کے لیے پوراکارخانہ ہی کھُلا ہو ا ہے۔ انتخابی تشہیر کا زوال تو اسی وقت سے شروع ہو گیا جب بھاڑے کی رقم دے کر گائوں سے ریلیوں میں لوگ بُلائے جانے لگے۔ ایسے لیڈروں کی کمی ہونے لگی جن کی بات سننے کے لیے دور دراز سے لوگ از خود چلے آئیں۔ ابھی موسم کس قدر گرم ہے، اس میں بھاڑے کے سننے والے بھی دور دراز کے میدان تک نہیں آرہے۔ یہ پریشانی وزیرِ اعظم سے لے کر صوبائی سُورمائوں تک، سب کو جھیلنا پڑ رہا ہے۔ اسی لیے اب روڈ شو کا چلن عام ہو رہا ہے اور سب اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کبھی راہل گاندھی تو کبھی امت شاہ اور کبھی وزیرِ اعظم ؛سب الگ الگ روڈ شو کر رہے ہیں اور اپنی مقبولیت کے دم پر ووٹ مانگ رہے ہیں۔

        ۲۰۱۹کے انتخابات کے آخری مرحلے میں اب محض دس فی صد سیٹوں کا معاملہ ہے مگر اس میں خود وزیرِ اعظم کی سیٹ ہی باقی ہے۔ آخری مرحلہ ہونے کے سبب ملک بھر کے تمام قائدین خالی پڑے ہوئے ہیں اور صرف انھیں حلقہ ہائے انتخابات میں اپنی پوری قوت لگا رہے ہیں۔ اس لیے جہاں ایک روڈ شو سے کام چلتا ،وہاں چار روڈ شو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم اور امت شاہ کی سرگرمیوں کو مرکز میں رکھیں تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اس بار ۵۴۳سیٹوں کے لیے میدان میں نہیں اترے ہیں بلکہ وہ مغر بی بنگال کی صرف ۴۲ سیٹوں کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔ آخری مرحلے کی تشہیر کے دوران کلکتے میں ایک روڈ شو کے دوران امت شاہ کے جلوس کے لوگوں نے ایشور چند ودیا ساگر کی مورتی توڑ دی۔ غصّہ یہ تھا کہ وہاں کے لوگوں نے امت شاہ واپس جائو کے نعر ے لگائے تھے۔ اگلے دن وزیر اعظم نے بیان دیا کہ ممتا بنرجی کے لوگوں نے ہی ودیا ساگر کی مورتی توڑی۔   بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگوں نے گذشتہ برسوں میں مہاتما گاندھی ، امبیدکر ،پیریار ،کبیر داس اور متعدد ایسے لوگوں کی مورتیاں توڑی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے وقت میں سماجی اصلاح کاکا م کیا ہے اور بنیاد پرستی کے خلاف میدان میں اُترے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ ودیا ساگرکی مورتی توڑنا ایک اتفاقی حادثہ ہے ، یہ ہرگز قابلِ تسلیم نہیں۔ ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ۲۰۰۲ میں امت شاہ اور نریندر مودی نے ہماری زبان کے جیالے شاعر ولی دکنی کے مزار کو نیست و نابود کر کے اس کے اوپرسڑک بنا دی۔

        ممتا بنرجی نے جب یہ الزا م لگایا کہ شہر سے باہر سے غنڈے روڈ شو میں خاص طور پر ہنگامہ کرنے کے لیے بلائے گئے تھے۔ ممکن ہے وہ لوگ آر۔ایس۔ایس کے تربیت یافتہ جوان ہوں۔ ایشورچندر ودیا ساگر بنگال میں بنیاد پرستی سے لڑتے ہوئے روادارانہ سماج کی تشکیل کی مثال بنے تھے۔ برہمن وادی سماج کی روایتوں سے مقدور بھر انھوں نے اختلاف کیا۔ آر۔ ایس۔ایس کو ایسے لوگ کیوں پسند آئیں گے۔ مغربی بنگال میں وزیر اعظم اور امت شا ہ نے سب سے کٹّر ہندو وادی انداز میں الکشن کی مہم چلائی۔کاش اس ملک میں ممتا بنر جی جیسے بہت سارے صوبائی لیڈر ہوتے جو بنیاد پرستی کا روادارانہ اور روشن خیال نقطۂ نظر سے مقابلہ کرکے یہ بتا دیتے کہ ملک میں غنڈوں کے انداز سے سیاست کے معاملات اور خاص طور سے سالم اقدارِ حیات کی پامالی ممکن نہیں۔

        پتا نہیں کیوں سیاسی پارٹیوں کو روڈ شو کی یہ تہذیب بری نہیں لگتی۔ چھوٹے سیاست دا ن بڑے میدانوں میں بھیڑ جمع کرنے کی لیاقت نہیں رکھتے تو ان کے لیے یہ آسان با ت ہوگی کہ بھاڑے کے ٹٹوئوں کو سڑکوں پر اتار دیں۔ بھیڑ بھری سڑکوں پر ہر وقت یوں بھی ہزاروں لوگ موجود ہوتے ہیں۔ سو دو سو اور پانچ سو بائیک سوار اس بھیڑ میں اپنے قاید کے پیچھے پیچھے ہولیں تو وہ لاکھوں کا معلوم ہوگا۔ مگر اس بھیڑ میں سماج کا کوئی پڑھا لکھا ، دانشور ،اچھے پیشے سے متعلق کوئی انسان نظر نہیں آتا۔ عام شہریوں کو گھنٹوں وہاں بھیڑ میں الجھے رہنا ہوتا ہے ، یہ الگ عذاب ہے۔ اکثر جگہوں سے یہ شکایتیں ملتی ہیں کہ روڈ شو کے بہانے کبھی دکانوں کو لوٹ لیا گیا یا کبھی کسی نے چھیڑ خانی کر دی یا کچھ ایسے الفاظ مائیک سے ادا کیے گئے جو نا مناسب ہیں۔ یہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ روڈ شو میں عام اور عزت دار شہری غائب رہتا ہے اور ٹھیکیدار ، پیسے پر خریدے ہوئے اور جرائم پیشہ افراد کی بھیڑ ہوتی ہے۔ روڈ شو اپنے مخالف رائے دہندگان کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے بھی منعقد کیا جا رہا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سب سے پہلے یہ بات سمجھ میں آئی۔ مرکز اور ریاستوں میں حکومت بھی اسی کی سب سے زیادہ ہے، اسی لے اس کے غنڈے بھی زیادہ ہوں گے۔ مسئلہ صرف مغربی بنگال میں پے چیدہ ہو تے جارہا ہے کیوں کہ جمہوری طاقت کی بنیاد پر  سی پی ایم نے مختلف قسم کی کیڈر بیسڈ غنڈہ گردی مچا رکھی تھی۔ ممتا بنرجی نے ان سے لڑنا سیکھا اور پھر ان کے دانت کھٹّے کیے۔ اب وہ اسی زبان میں جواب دینے کی پختہ اہلیت رکھتی ہیں۔ یہ بھی فائدہ ہے کہ مغربی بنگال میں ان کی اقتدار کا بھی سورج نصف النہار پرہے۔ امت شاہ اور نریندر مودی کھرے ہندو کارڈ کھیلنے کے باوجود ممتا کو اس کی ماندمیں جاکر زیر کرنے میں ہلکان ہوئے۔ غنڈہ گردی کے کتنے کرتب ہوئے مگر مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اتنی اچھی خبر نہیں ہے جتنی وہاں مشقت ہو رہی ہے۔

        خدا کرے آخری مرحلہ قتل و خون اور کسی بڑے تنازعے کو پیدا کیے بغیر انجام کو پہنچے۔ بھاجپا سے اس رسّہ کشی میں ممتا بنرجی کی شناخت بڑھی ہے اور اگر تیسرے محاذ میں غیر کانگریسی قیادت کامعاملہ سامنے آیا تو ممکن ہے ممتا بنرجی مایاوتی پر بھاری پڑ جائیں۔ اتوار کو آخری مرحلے کے انتخاب کے بعد سیاست داں بھی ذرا سانس لیں اور تازہ دم ہوکر۲۳مئی سے ایک نئی جوڑ تو ڑ کی سیاست کے لیے خود کو تیار کریں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔