ریزرویشن مخالفت کی تحریک میں ہندستانی سیاست اور سماج کا غیر روادارانہ چہرہ سامنے آگیا

  صفدرامام قادری

سماج میں پسماندگی اور مختلف طبقات کی نفرتوں کے طفیل ذلت و رسوائی پانے کے سبب ہندستانی آئین میں ریزرویشن جیسی شق قائم کی گئی۔ آئین کے معماروں نے ہندستانی سماج کے دکھ درد اور ارتقا کے سلسلے کو سمجھتے ہوئے اس طرف قدم بڑھایا تھا۔ مقصد واضح تھا کہ جو لوگ ہزاروں سال سے زندگی کے ہر موڑ پر پچھڑتے چلے گئے اور جنھیں بعض طبقوں نے مذہب اور ذات برادری کے نام پر حاشیے تک پہنچا دیا؛ انھیں آزادی ملنے کے بعد دوسرے لوگوں کے برابر پہنچنے میں کچھ سہولت دی جانی چاہیے۔ اس بات سے شاید ہی کوئی نااتفاقی درج کرائے کہ سماجی سطح پر ناانصافیوں کا تدارک اگر نہ کیا گیا ہوتا تو ہندستان آزاد تو ہو جاتا مگر کوئی شہری خود کو آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے نہیں محسوس کرسکتا تھا۔

  ہندستانی سماج ورناشرم اور منوسمرتی کے اصولوں سے تشکیل پایا ہوا سماج ہے۔ منوسمرتی میں عورتوں اور شودروں کو مذہبی تعلیم تک سے دور رکھنے کی باضابطہ ہدایت تھی۔ کام کی بنیاد پر جو طبقہ بندی کی گئی؛ وہاں ناانصافیوں اور سازشوں کو مذہبی اصول بناکر پیش کیا گیا تھا۔ ایک برادری کو حکومت کرنے کا حق حاصل تھا مگر وہیں پسماندہ طبقات کو ان کی خدمت اور چاکری کرنا فرض بنایا گیا۔ ایک کو تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا اور دوسرے کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اسے صرف تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہے۔ ایک طبقہ زمین کا مالک ہے اور تمام فصلوں پر اسے مالکانہ حق حاصل ہے۔ ایک طبقے کو کاروبار میں جگہ دی گئی۔  ورناشرم حقیقت میں بے انصافی اور استحصال یا حق تلفی کی بنیاد پر سماج کی تشکیل کے لیے سیاہ قانون کی بنیادیں قائم کرنے والا نظام تھا جس نے ہندستانی سماج میں پسماندہ اور کمزور طبقے کے لوگوں کو وہاں پہنچا دیا جہاں حقیقتاً زندہ رہنے کے حقوق پر بھی لالے پڑ گئے۔ اسی لیے ہندستانی آئین ساز کونسل میں اس بات پر اتفاق قائم ہوا کہ ریزرویشن کی بنیاد سماجی ہوگی اور ذات برادری کو بہانہ بناکر جس طرح ہزاروں سال سے بعض طبقوں کو ترقی کے راستے سے جبراً دور کیا گیا تھا، انھیں عام مواقع فراہم کیے جائیں۔

 ہندستان کی ترقی کے مختلف مدارج پر نظر رکھیں اور جنگِ آزادی کی تحریک میں لاکھوں لوگوں کی جان قربان ہونے کے باوجود کم و بیش اب بھی یہ ایک جاگیردارانہ اور سامنتی سماج ہی ہے ورنہ ہر دن کے اخبار میں ملک کے طول و عرض سے ایسی خبریں ملتی ہیں جن میں کہیں کسی دلت کو مندر میں جانے سے روکے جانے یا کسی لڑکے اور لڑکی کو بین الذات شادی یا محبت کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارنے کی تکلیف دہ اطلاعات موجود ہوتی ہیں۔  ایسی خبروں سے ایک دن کا بھی اخبار محفوظ نہیں ہوتا۔ مطلب واضح ہے کہ سماج میں آزادی کے اکہتر برس بعد بھی وہ ذہن پیدا نہیں ہوا جسے انصاف اور برابری کے اصولوں پر اعتماد ہو۔ پرانی طاقت اور کمزوروں کے حقوق غصب کرنے والے لوگوں کے اخلاف اب بھی اپنے بزرگوں کے نشے میں ہی مست ہیں اور وہ آئین ہی نہیں، انسانی سماج کے عام اصولوں کی روزانہ دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔  اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندستانی سماج میں جمہوریت کی جڑیں اس قدر مستحکم نہیں ہوئی ہیں جس قدر عدم مساوات کی بنیادیں ہیں۔  اسی لیے بار بار کمزوروں کے خلاف مستحکم افراد کا جبر دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔

 ۶؍ ستمبر ۲۰۱۸ء کو حکومتِ ہند کے قانون بنانے کے خلاف پورے ملک میں جس انداز کی ہنگامہ آرائیاں ہوئیں، ان سے یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ اب بھی جنگل کا قانون اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا زمانہ قائم ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کا جہاں جہاں زیادہ اثر تھا وہاں یہ بند اور بند کے نام پر ہنگامہ آرائیوں کا زیادہ بول بالا رہا۔ بہار اور اترپردیش، راجستھان، جھارکھنڈسے جو ابتدائی رپورٹیں آئیں، ان کے مطابق عوامی جان مال کا اچھا خاصا نقصان ہوا اور دن بھر لوگ پریشان رہے، اپنی جان بچاتے کاروبارِ حیات کی معطلی کا تماشا دیکھتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومتِ ہند نے جب قانون بنایا تو کم از کم این۔ڈی۔اے۔ کی جہاں جہاں حکومتیں ہیں، وہاں بھارت بند کو کم سے کم حکومت یا اس کی مشنری کو اس سے الگ ہونا چاہیے تھا۔ یہیں بھارتیہ جنتا پارٹی یا ہندووادی تنظیموں کے اندر بیٹھے برہمن واد کو پہچاناجاسکتا ہے۔ ان کا بس چلے تو ہندستان کے کسی کمزور آدمی، برادری، خواتین او راقلیت آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں یا ہر حال میں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے انھیں رکھنے کی مہم کا حصہ بن جائیں۔  آنے والے انتخاب میں یہ سوال رفتہ رفتہ اہمیت حاصل کرتا جائے گا کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اگر دلتوں اور کمزور طبقے کے لوگوں کے حقوق کی طرف دار ہے تو صرف قانون بنانے تک اس کی ذمے داری تھی یا سڑکوں پر چند لوگوں کو ننگا ناچ کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ آخر یہ دو رنگی کیوں ؟

  ریزرویشن کے مسئلوں میں ہمیشہ چھوٹی سے بڑی عدالتوں کا ایک خاص ذہن ہوتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آزادی کی سات دہائیاں گزار لینے کے باوجود اب تک عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں ریزرویشن نافذ نہیں ہوسکا۔ مرحوم صحافی پربھات کمار شانڈلیہ نے ایک زمانے میں مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا: ’’پھانسی میں صد فی صد ریزرویشن‘‘۔  انھوں نے بہار میں چند برسوں میں پھانسی کے سزایافتہ افراد کی فہرست پیش کی تھی جس میں صرف اور صرف دلت اور پچھڑے طبقے کے لوگو شامل تھے۔ اس وقت بہار کے دانش وروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔  اب بھی پورے ملک سے یہ آواز بار بار اٹھتی ہے کہ اعلا عدالتوں میں نامزدگی کے بجاے کل ہند مقابلہ جاتی امتحان کی بنیاد پر انتخاب کا عمل مکمل ہو مگر اس کے لیے ہماری عدالتیں تیار نہیں ہیں۔  یہ اپنے آپ میں جمہوری تقاضوں اور آئینِ ہند کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔

 اکثر ریزرویشن کے خلاف عدالتوں کی طرف سے کچھ نہ کچھ اختلافی اشارے وقفے وقفے سے سامنے آتے رہے۔ منڈل کمیشن کے نفاذ کے بعد نرسمہا رائو کے زمانے میں ایک مخصوص سازشی انداز میں کریمی لیئر کے معاملات عدالت اور ججوں کے مشورے سے جوڑا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ریزرویشن کی بنیاد جب سماجی ہے تو اس میں اس کی روح سے الگ کرتے ہوئے معاشی شق کا اضافہ کیوں کیا گیا؟ عدالتوں کے حکم نامے کا ہی اثر ہے کہ ریزرویشن کی حد پچاس فی صد سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ایک اندازے کے مطابق ہندستان میں ریزرویشن کے دائرے میں آنے والے افراد کی تعداد ساٹھ فی صد سے زیادہ ہے۔ ایسے میں پچاس فی صد ریزرویشن طے کرنے اور بار بار عدالت یا کسی کسی حکومت کی طرف سے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ جو افراد میرٹ میں آرہے ہوں، اگرچہ وہ ریزرو حلقے سے آتے ہوں مگر انھیں عام حلقے میں نہ رکھا جائے، یہ صریحاً ناانصافی ہے یا ریزرویشن کی روح اور آئین کے معماروں کے جذبے کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

  ہندستان کو اگر ایک ترقی یافتہ معاشرہ بننا ہے تو اسے انصاف اور مساوات کے راستے سے ہی آگے بڑھنا ہوگا۔ کسی سازش، کھیل تماشے اور بے انصافی سے دوچار قدم تو چلا جاسکتا ہے مگر منزل تک نہیں پہنچا جاسکتا۔ ایک اعلا سماج کی تشکیل میں کمزور لوگوں کے ساتھ مکمل انصاف اور تعاون کیے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ ریزرویشن کے سوالات جیسے ہی ہمارے سامنے آتے ہیں، بڑی آسانی سے ہمارے بیچ اونچ نیچ کی پہچان ہونے لگتی ہے اور دیکھتے دیکھتے تقسیم کی لکیر قائم ہوجاتی ہے۔ یہ ہندستان کے برہمن وادی سماج کی وہ زنجیر ہے جسے توڑے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

مساوات صرف کتابوں میں لکھا لفظ نہیں ہے، اسے زندگی میں اتارنا ہوگا اور جو اپنے انسانی حقوق سے محروم رہے افراد ہیں، ان کی طرف داری اور ان کی ترقی کے وسائل پیدا کیے بغیر ہم بربریت اور ظالم سماج سے اپنے کو الگ نہیں کر سکتے۔بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر۔ایس۔ایس۔ کو ہمیشہ سے ایک برہمن وادی ادارے کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس لیے یا تو اسے خبردار ہوجانا چاہیے یا دیوار پر لکھی ان عبارتوں کو بہ غور پڑھنا چاہیے جن کی رو سے وہ ایک بے انصافی کے ماحول کے پیدا کرنے والے تسلیم کیے جارہے ہیں۔  اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہندستان کا کمزور طبقہ اور دلت آبادی اپنے حقوق کے لیے زیادہ سنجیدگی سے غور و فکر کرے اور ووٹ دیتے وقت یہ سمجھے کہ اسے نئی حکومت سازی میں وہ کام کرنا ہے جس سے ہمارا ملک اور زیادہ خوب صورت اور امن کا گہوارہ بن سکے۔ جو سماج اپنے کمزور طبقے کی طرف داری میں سامنے نہیں آتا، اس سماج کو تاریخ میں قدرت نے بار بار مٹایا ہے، اس بات کو موجودہ مرکزی حکومت، صوبائی حکومت اور سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کرنے والے افراد کو سمجھ لینا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔