ریپِسٹ کو پھانسی: انصاف نہیں، دکھاوا ہے

پریہ درشن

(پریہ درشن NDTV انڈیا میں سینئر ایڈیٹر ہیں)

کٹھوا کے واقعہ کے بعد مینکا گاندھی  پوکسو ایکٹ میں بچوں کے تحفظ کے تئیں، عصمت دری کے لئے پھانسی کی سزا شامل کرانا چاہتی ہیں. اس سے پہلے بی جے پی حکومت تین ریاستوں: راجستھان، مدھیہ پردیش اور ہریانہ میں نابالغ سے ریپ پر بھانسی کا قانون بنا چکی ہے. بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ریپ کے لئے پھانسی کی سزا ہوگی تو مجرم ڈریں گے. لیکن پھانسی کس طرح ہوگی؟ کیا کسی سماعت کے بغیر آپ کسی کو پھانسی کی سزا سنا دیں گے؟ بہت سے نادان لوگوں کو یہ بھی لگتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بہت سنوائی نہیں ہونی چاہئے، ملزمان کو براہ راست پھانسی پر چڑھا دینا چاہیے یا گولی مار دینی چاہئے. لیکن یہ کام کون کرے گا؟ کیا پولیس کو یہ حق دینا چاہئے؟ یا کوئی علیحدہ ونگ بنائی جانی چاہئے جو ریپِسٹ کو پھانسی پر چڑھائے؟ ویسے جس کسی کو بھی یہ کام ملے گا، وہ کس طرح اس بات کا یقین کرے گا کہ کسی معاملے میں کوئی ریپِسٹ ہے یا نہیں؟ اناؤ کے معاملے میں ریاست کے ڈی جی پی بول رہے ہیں کہ ان کے پاس ملزم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے. تو بغیر کسی ثبوت کے کسی کو آپ پھانسی دے دیں گے؟

دراصل یہ سارے سوال صرف اس حقیقت کی طرف توجہ کھینچنے کے لئے ہیں کہ جب اس ملک میں عصمت دری کے ملزم کی گرفتاری تک نہیں ہوتی تو اسے پھانسی کس طرح ہوگی؟ آپ قانون کے عمل کی پہلی سیڑھی چڑھنے کو تیار نہیں ہیں اور آخر میں کچھ اور سیڑھیاں بنا دینا چاہتے ہیں. آپ کو پہلے ملزم کو گرفتار کرنا ہوگا، اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے ہوں گے، عدالت میں انہیں ثابت کرنا ہوگا اور آخر میں  مجرم کو کسی حتمی سزا تک لے جانا ہوگا. یہ عمل چاہے جتنا بھی پیچیدہ یا طویل لگے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے. کسی بھی جمہوری یا انصاف پسند معاشرے کو انصاف کا اتنا راستہ طے کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے. یہ راستہ لگتا تو بہت طویل ہے، مگراس میں راستے کی رکاوٹیں نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر اناؤ کا معاملہ دیکھیں. متاثرہ کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ جون 2017 میں عصمت دری ہوئی، پہلے ایک ممبر اسمبلی نے کی اور پھر اس کے کارندوں نے اغوا کرکے یہی کام کیا. لیکن تھانے میں اس کی ایف آئی آر تک مناسب طریقے سے درج نہیں ہوئی. جب وہ وزیر اعلی کی رہائش کے سامنے خود کشی کے لئے پہنچ گئی تب میڈیا کی توجہ اس پر گئی. اس کے بعد بھی ممبر اسمبلی کا نام درج نہیں ہوا. الٹی پولیس کی ملی بھگت سے اس کے والد کو پکڑ کر اتنی اذیت دی گئی کہ اس کی موت ہو گئی.

یعنی انصاف مانگنے چلی ایک متاثرہ کے مجرم کو پھانسی کیا ہوتی، اس کے والد کو سزائے موت دے دی گئی. اب وہ لڑکی اپنے لئے انصاف کی توقع کیسے کرے؟ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسے بیش تر معاملات میں متاثرین تھک ہار کر انصاف کی امید چھوڑ دیتے ہیں.

کٹھوا کا معاملہ ایک الگ طرح سے اس سے ملتا جلتا ہے. اتنے سنگین معاملے میں پولیس کے کچھ لوگوں نے ملزمان کے ساتھ مل کر ثبوت مٹانے کی کوشش کی. جموں و کشمیر کرائم برانچ نے جب معاملہ پھر بھی اجاگر کر دیا تو اس کے خلاف جموں میں آندولن چلنے لگے. آندولن کرنے والے کون تھے؟ انہوں نے کوئی انصاف پلیٹ فارم نہیں بنایا، ہندو اتحاد پلیٹ فارم بنایا. عصمت دری کے ایک معاملے کو ہندو مسلم کیس میں تبدیل کرنے کی کوشش کی. اس صورت میں جب عوامی غم وغصہ بہت شدید ہوا تو ملزمان کا ساتھ دینے والوں کے حوصلے کمزور پڑ رہے ہیں. اگرچہ اس بات کی ضمانت اب بھی نہیں ہے کہ 8 سال کی چھوٹی سی بچی کو انصاف ملے گا.

تو معاملہ سخت قوانین کی کمی کا نہیں، قوانین پر عمل کی کمی کا ہے. آپ ملزمان کو فوری گرفتار کریں، ان کے خلاف کارروائی کریں اور قانون کے مطابق عمر قید بھی دلا دیں تو بہت ہے. لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک تو عصمت دری کے بہت کم کیس پولیس تھانوں تک پہنچتے ہیں اور جو پہنچتے ہیں، ان میں بھی انصاف نہیں کے برابر ہوتا ہے. یہی نہیں، تمام رپورٹیں بتاتی ہیں کہ گزشتہ 40 سالوں میں بھارت میں عصمت دری کے مقدمات میں سزا کی شرح گھٹتی گئی ہے. جتنے کیس عدالتوں تک پہنچتے ہیں، ان میں سے صرف ایک چوتھائی میں سزا ہو پاتی ہے.

ایسے میں عصمت دری کی سزا پھانسی طے کر دینے سے کچھ نہیں ہوگا. کیونکہ اس کے بعد سزا کا یہ فیصد اور کم ہو جائے گی. کیونکہ سزا جتنی سخت ہوتی جاتی ہے، اس پر عمل کی كسوٹياں بھی اتنی ہی سخت ہوتی جاتی ہیں. اب جب پولیس، ہسپتال، ڈاکٹر، سماج، تمام عصمت دری کی شکار کے خلاف کھڑے نظر آتے ہیں تو وہ کسے پھانسی دلائیں گی؟

دراصل عصمت دری کے لئے پھانسی کی مانگ صرف ایک بھٹکی ہوئی فکر ہے- ایک نقلی فکر جو نہ عورتوں کی سالمیت کے لیے ہے اور نہ ہی آئین کے وقار کے تئیں. اس میں صرف یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ وہ عورتوں کے احترام کے تئیں بہت حساس ہیں. کوشش سخت قانون بنانے کی نہیں، عصمت دری کے الزامات پر فوری کارروائی کرنے کی ہونی چاہیے.

تجربہ بتاتا ہے کہ سخت قانون سماج کا بھلا نہیں کرتے. الٹے ان کا غلط استعمال شروع ہو جاتا ہے. جہیز کے خلاف ہم نے بہت سخت قانون بنائے. اس سے جہیز نہیں رکا. الٹا بیشتر معاملات میں قانون کا غلط استعمال ہی دیکھنے کو ملا. 2012 میں نربھیا کیس میں چلے آندولن کے بعد خواتین سے جڑے جرائم کو لے کر بھی قانون بہت سخت کیا گیا. الزام کے فوری بعد گرفتاری کا انتظام کیا گیا. لیکن ریاست کے ڈی جی پی کو ایسے قانون کی پرواہ نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں جب ثبوت ملیں گے تب کسی کو گرفتار کریں گے. یعنی وہ قانون کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ عصمت دری کے معاملے میں متاثرہ کا بیان ہی ثبوت ہے. ظاہر ہے، اس کو لے کر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی.

ایسے میں میں کا گاندھی پوكسو میں پھانسی کو لازمی کرانے کا مشورہ دی رہی رہیں۔ ریاستی حکومتیں نابالغ سے عصمت دری کے لئے سزائے موت کا قانون بناتی رہیں گی، عصمت دری کے ملزم بے خوف گھومتے رہیں گے، ان کی متاثرہ اس کی سزا بھگتتی رہیں گی.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔