سات مہینے میں  بھی اویسی الزام نہ دھو سکے!

13؍ جولائی2016کا انقلاب ہمارے سامنے ہے۔ اس میں  2015میں  بہار میں  ہونیوالے انتخاب کے موقع کا ایک واقعہ درج ہے کہ عام آدمی پارٹی کے قومی ترجمان آسوتوش نے گجرات میں  ایک میٹنگ میں  کہا ہے کہ بہار میں  الیکشن کے موقع پر 15؍ ستمبر 2015کی صبح تین بجے امت شاہ کے پاس اسد الدین اویسی اور ان کے بھائی اکبر الدین اویسی کو یاتن اوجھا نے بات کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ یاتن اوجھا بی جے پی کا ورکر تھا اور اب وہ عام آدمی پارٹی میں  شامل ہوگیا ہے۔ یاتن اوجھا نے تین صفحات کے خط میں  پورا واقعہ نقل کیا ہے۔ جس وقت اس کی شہرت ہوئی تو ممبر پارلیمنٹ اویسی صاحب نے اس الزام کو سراسر جھوٹ بتایا اورکہا کہ میں  اس کا جواب عدالت میں  دوں گا۔ یاتن اوجھا گجرات کا سابق ایم ایل اے ہے اور اب اروند کجریوال کی پارٹی میں  ہے۔

انقلاب بیورو سے بات کرتے ہوئے اویسی صاحب نے کہا کہ جس نے میرے اوپر یہ الزام لگایا ہے وہ بہت ہی غلط شخص ہے اور میں  اسے سبق سکھائوں گا۔ انھوں  نے کہا کہ میں  اس کے خلاف بہت جلد ایک سخت نوٹس دوں گا۔ اور سپریم کورٹ میں  ہتک عزت کا مقدمہ درج کرانے جارہا ہوں۔  انھوں  نے کہا کہ یہ اس نے بہت اچھا کیا کہ تاریخ اور وقت کا ذکر کیا ہے۔ میں کورٹ میں  بتائوں گا کہ اس تاریخ کو اور اس وقت میں  کہاں  تھا اور کیا کررہا تھا؟ انھوں  نے مزید کہا کہ اب میں  اس کو کسی بھی صورت میں  چھوڑنے والا نہیں  ہوں۔  ا نھوں  نے مزید کہا کہ میں  جو کچھ کرتا ہوں  اسے بی جے پی سے کیوں  جوڑدیا جاتا ہے؟ انھوں  نے کہا کہ کوئی جیت جائے یا ہار جائے الزام ہمارے سر آجاتا ہے اور معلوم کیا ہے کہ کیا میں  سیاست کرنا چھوڑ دوں ؟ کیا میں  خاموش بیٹھ جائوں  کیا میں  ملی مسائل کو نہ اٹھائوں ؟

انھوں  نے انقلاب کے نمائندے سے کہا کہ آپ تو خود وہاں  گئے تھے۔  کشن گنج میں  آپ نے خود وہاں  کا حال دیکھا تھا۔ وہاں  میری پارٹی کو زبردست حمایت حاصل تھی۔ مجھے یہی کرنا ہوتا تو میں  سویا دو سو امیدوار اتارتا۔ میں  نے تجربہ کرنے اور جائزہ لینے کے لیے صرف ۸؍ امیدوار الیکشن میں  اتارے تھے۔ اور آخر میں  انھوں  نے کہا کہ میں  نے حیدرآباد میں  ایک چوٹی کا وکیل کرلیا ہے اور میں  خود سپریم کورٹ جائوں گا اور اسے نہیں  چھوڑوں گا۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کسی ہندو ورکر کو اس سے کیا مطلب کہ کون مسلمان امت شاہ سے مل رہا ہے۔ یاتن اوجھا گجرات کا سابق ایم ایل اے ہے وہ اب گجرات میں  ہی کجریوال کے ٹکٹ پر لڑنا چاہ رہا ہے۔ اویسی صاحب کے بارے میں  ہمیں  یاد نہیں  کہ انھوں  نے گجرات یا دہلی میں  الیکشن لڑنے کے متعلق اشارہ کیا ہو۔ پھر اسے یا آسوتوش یا کجریوال کو اویسی صاحب کی کردار کشی سے کیا تعلق؟ اور کوئی کیوں  تاریخ اور وقت یاد رکھے گا؟ یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ بعد میں  امت شا ہ نے اس پر تبصرہ کیا ہو۔

اویسی صاحب نے کہا ہے کہ میں  عدالت میں  بتائوں  گا کہ اس دن اور اس وقت میں  کہاں  تھا اور کیا کررہا تھا؟ ہوسکتا ہے وہ حیدرآباد کی مکہ مسجد میں  ہوں  اور تہجد پڑھ رہے ہوں۔  لیکن یہ بات وہ عدالت میں  کیوں  بتائیں گے؟

اس نے جو بات کہی وہ خط کی شکل میں  ہے اور وہ اپنی تحریر سے بھاگ نہیں  سکتا۔ ا ویسی صاحب نے اپنے اس بیان میں  کیوں  نہیں  بتادیا کہ وہ کہاں  تھے اور کیا کررہے تھے۔ اس طرح کے معاملات اکثر رات کو 2 یا 3 بجے ہی ہوتے ہیں۔  گجرات کی سیاست میں  رہنے والے ایک ہندو کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اس بات کو کجریوال سے کہتا۔ یقینا کوئی اور بھی بات ہوگی جو اس نے سنی ہوگی یا دیکھی ہوگی۔ اس واقعہ کو سات مہینے ہوگئے یاتن اوجھا نام کے کسی ورکر کو کم از کم ہم نے نہ حیدرآباد کی عدالت میں  روتے ہوئے دیکھا اورنہ سپریم کورٹ میں اویسی صاحب سے معافی مانگتے ہوئے دیکھا۔

اویسی صاحب نے جو کہاہے کہ کیا میں  سیاست کرنا بند کردوں  کیا میں  خاموش بیٹھ جائوں  کیا میں  ملی مسائل کو نہ ا ٹھائوں ؟ اس بارے میں  ہمیں  عرض کرنا ہے کہ سیاست صرف الیکشن کا نام نہیں  ہے اور نہ ملی مسائل کے لیے الیکشن میں  حصہ لینا ہوتا ہے۔ ملی مسائل کے لیے پارلیمنٹ ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ ہے۔

اویسی صاحب ان دونوں  جگہ ملت کے مسائل پر بات کرسکتے ہیں  اور اگر سیاست کرنا ہے تو وہ بھی سیاست ہے جو مولانا ارشد میاں  اور مولانا محمود مدنی کررہے ہیں  کہ جو مسلمان حالات کے پھندے میں  پھنس جاتا ہے کروڑوں  روپے خرچ کرکے اسے باعزت بری کراتے ہیں  اور بے گھر مسلمانوں  کو کالونیاں  بنا کر دیتے ہیں۔  اور یہ مسلمان اس گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں  جو انھوں  نے نہیں  کیے ان کے بزرگ نے پاکستان بنا کر گئے تھے۔ لیکن اب پاکستان سے دشمنی اس شکل میں  نکالی جاتی ہے۔

اویسی صاحب جذباتی تقریریں  کرتے ہیں۔  جذباتی تحریر اور تقریر مسلمانوں  کے لیے زہرہے مگر انھیں  اچھی یہی لگتی ہے۔ اور اگر کوئی مسلمان تال ٹھونک کر زمین آسمان کی باتیں  کرتا ہے تو وہ تال بھی بجاتے ہیں  اور شوق سے سنتے بھی ہیں ۔  اویسی صاحب نے بہار کے کشن گنج کا ذکر کیا ہے۔ جس وقت وہ کشن گنج میں  بول رہے تھے اس وقت پٹنہ سے فون آیا تھا کہ اویسی کے جلسہ میں  75 ہزار آدمی ہیں  جن میں  نوجوان زیادہ ہیں۔  اویسی صاحب اپنی مقبولیت یا اپنی تقریر کی مقبولیت کو اپنی پارٹی کی مقبولیت سمجھتے ہیں۔  جبکہ اویسی کی پارٹی کے ہر امیدوار کی بہار میں  ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔

اسدالدین اویسی صاحب کے لیے آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے مسلمانوں  کے مسائل کم نہیں  ہیں۔  وہ الیکشن میں  سیاست کرنے نہیں  عیاشی کرنے آتے ہیں  اور جو مقامی ہندو لیڈر مسلمانوں  کی بات سنتے ہیں  اور ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں  اویسی انہیں  بھی دشمن بنا دیتے ہیں۔  سیاست ایک مستقل کام اور الیکشن ۵ سال میں  لگنے والا میلہ ہے۔ 1964 میں  ملک کے تمام بڑوں  نے مسلم مجلس مشاورت بنائی تھی۔ وہ اس اعلان کے ساتھ بنی تھی کہ خود الیکشن نہیں لڑے گی بلکہ مسلمانوں  کو مشورہ دے گی۔ یوں  تو وہ اس وقت ختم ہوگئی تھی لیکن اس کا کفن اور اس کی قبر کے تختوں  کا نام آج بھی سننے کو ملتا ہے۔ یہ بات 1948میں  مولانا آزاد نے کہی تھی کہ اب مسلمانوں  کو اپنی پارٹی نہیں  بنانی چاہیے بلکہ اپنی پسند کی سیاسی پارٹی میں  شامل ہو کر سیاست کرنا چاہیے اور یہی بات 16سال کے بعد مشاوت کے ذریعہ سب نے مل کر کہی اور یہی آج بھی مسلمانوں  کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پارٹی نہ بنائیں۔  ملک کا ہندو کسی بھی ذات برادری کا ہو وہ ان کے ساتھ نہیں  آئے گا اور آبھی گیا تو رہے گا نہیں۔  اویسی صاحب ہوں  یا کوئی اور جو مسلمانوں  کی الگ پارٹی بنائے گا وہ یا دلاّل ہوگا یا مسلمانوں  کا دشمن۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔