سادہ سی بات کولمبا کر دیا گیا

پاناما لیکس سامنے آئیں تو پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ کئی ملکوں کے لیڈروں کے نام آئے۔جہاں جمہورتیں مستحکم ہیں وہاں کے حکمرانوں نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر کے اس مسئلہ کو فوراً حل کر دیا گیا۔ اس کے بعد حکومتیں اپنے عوام کی خدمت میں لگ گئیں۔ مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اس سادی سی بات کو لمبا کر دیا۔ وکلا کے مطابق بین الاقوامی قانون ہے کہ اگر کسی پر کرپشن کا الزام لگے تو الزام لگانے والے کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اس نے صحیح الزام لگایا ہے۔ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ فلاں فلاں پراپرٹی میری ہے جیسے کہ وزیر اعظم صاحب کے بیٹے حسین نواز نے مانا ہے ۔ تو اب اس کو ثابت کرنا بھی ان کے ذمے ہے کہ یہ میں نے جائز طریقے کی کمائی سے بنائی ہے ۔ پاناما لیکس میں وزیر اعظم صاحب کے بیٹوں کے نام کچھ پراپرٹیز کا انکشاف ہوا اور اپوزیشن کے لوگوں نے الزام لگایا کہ یہ کرپشن کے پیسے سے بنائی گئیں ہیں ۔ اگرنہیں تو یہ ثابت کیا جائے کہ جائز طریقے سے بنائی گئیں ہیں۔ وزیر اعظم صاحب کے بیٹوں نے میڈیا پر بیان دیا ہے کہ یہ ان کی پراپرٹیز ہیں تو پھر یہ بات ان پر واجب ہو جاتی ہے کہ وہ ثابت کریں کہ انہوں نے یہ پراپرٹیز جائز طریقے سے بنائی ہیں۔ جب اپوزیش نے زور دار طریقے سے اس باست کو اُٹھایا تو وزیر اعظم صاحب نے دو دفعہ پاکستان ٹی وی پر آکر کہا کر اپنے بچوں کا دفاع کیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے پہلے (مرحوم)بھٹو صاحب کی بات کی کہ میرے خاندان کی اتفاق فائنڈری کو حکومت کی تحویل میں لیا ۔ اور باہر سے منگاوائے گئے اسکریپ کے جہاز کو روک کر کروڑوں کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ظلم کی داستان سنائی وغیرہ۔یہ بھی کہا کہ میں ریٹائرڈ جج سے اس کی انکواری کرانے کے لیے تیار ہوں۔مگر اپوزیشن نے کہا کہ نہیں سپریم کورٹ کو اس کیس کی انکواری کرنی چاہیے اور اس دورران اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کومستفیٰ ہو جانا چاہیے اور جب انکواری مکمل ہو جائے اور یہ پتہ لگ جائے کہ کرپشن نہیں ہوئی تو دوبارہ وزرات اعظمیٰ کا منصب سمنبھال لینا چاہیے۔یہ بڑی ماکول بات تھی۔مگر وزیر اعظم صاحب نے
اپوزیشن کے مشورے کے بغیر سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا اور خود ہی ٹی آر او بنا کر کہا کہ اپوزیشن آ جائے اور سپریم کورٹ میں اپنے الزام کو ثابت کرے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ سب کا احتساب ہو گا اور شروع سے ہوگا۔ اپوزیشن نے کہا یہ تو ایسا لگ رہاہے کہ وزیر اعظم صاحب ۱۸۵۷ء سے احتساب کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب نے سات ماہ بعد اپنے قابینہ کا اجلاس بلایا اپنے اتحادیوں سے مشورے گئے اور طبل جنگ بجا دیا ۔کہہ رہے ہیں اپوزیشن ترقی کی رہ میں رکاوٹ ڈال رہی ہے ۔ دہشت گرد ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں اور یہی کام اپوزیشن کر رہی ہے۔ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اس کے بعد جلسے کرنا شروع کر دیے اور اپوزیشن کو کہا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں مجھے لوگوں نے منتخب کیا۔ادھر متحدہ اپوزیشن نے اپنے ٹی او آر بنائے ہیں اور کہا ہے کہ جس پر الزام ہے اس کو ٹی او آر بنانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔مگر حکومت نے اپوزیشن کے بنائے گئے ٹی او آر کو مسترد کر دیا ہے اور اپنے ٹی او آر پر زور دے رہے ہیں۔اپوزشن کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے اس سادہ سے معاملے کو اتنا لمبا کر دیا ہے وہ احتساب سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔وزیر اعظم صاحب اپنے اتجاجی جلسوں میں کہ رہے ہیں کہ میں استفٰا کیوں دوں یہ منہ اور مسور کی دال۔ دوسری طرف اپوزیشن کی فعال جماعت تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے بھی جلسے کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں جب تک وزیر اعظم صاحب اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے احتجاج جاری رہے گا۔ متحدہ اپزیشن نے وزیر اعظم صاحب سے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم صاحب کو پارلیمنٹ میں آکر اپنی پوزیشن صاف کرنے چاہیے مگر وزیر اعظم صاحب اس کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ صاحبو! جمہوری نظام میں پارلیمنٹ ہی ایک ایسا اداراہ ہے جس میں منتخب ارکان اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں نہ جانے وزیر اعظم صاحب اس جمہوری عمل سے اپنے آپ کو پارلیمنٹ سے کیوں دور رکھ رہے ہیں۔ اب پاناما لیکس کی دوسری قسط میں وزیر اعظم کی بیٹی مریم صفدر صاحبہ کا بھی نام آ گیا ہے۔جو کہتی رہیں ہیں کہ میرے نام کچھ بھی نہیں میں تو خاندان کے ساتھ رہ رہی ہوں۔ ان حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن آپس میں معاملات کو حل نہیں کرتے ۔تو اس سے قبل ایسے موقعوں پر تیسری قوت کو مداخلت پر مجبور کیا جاتا ہے جیسے کاکڑ فارمولے ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اختلافات کو جمہوری طریقے سے آپس میں مل بیٹھ کر پارلیمنٹ میں حل کرنا چاہیے اور جمہوریت کو مزید مستحکم کرناچاہیے۔ عوام کے مسائل حل کرنے پر وقت لگانا چاہیے۔کسی بھی ملک میں کرپشن کو برداشت نہیں کیا جا سکتا لہٰذا وزیر اعظم صاحب کو اپوزیشن سے مل کر ٹی او آر ترتیب دیکر سپریم کورٹ کے یوڈیشنل کمیشن بنانا چاہیے تاکہ کرپشن کا مسئلہ حل ہو سکے۔ پاکستان اس وقت مشکل سے گزر رہا ہے ملک میں ضرب عضب جاری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خلاف ہماری فوج لگی ہوئی ہے۔ ملک میں مہنگائی ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔افغانستان، بنگلہ دیش اور ایران سے ہمارے تعلوقات درست سمت میں نہیں چل رہے ۔امریکہ نے ایف سولہ دینے سے انکار کر دیا ہے اس لیے اندرونی جھگڑے جلد از جلد جلدختم کر کے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کودرست سمت میں تشکیل دینا ہے۔ صاحبو! اگر حکومت اور اپوزیشن نے اس وقت صحیح فیصلہ نہ کیا تو وقت نکل جائے گا۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اس لیے کرپشن کو ملک سے ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہییں۔ وزیر اعظم صاحب کو اس سادی سی بات کولمبا نہیں کرنا چاہیے اور اپنے آپ کو پارلیمنٹ میں آکر احتساب کے لیے پیش کر دینا چاہیے۔ اپنے احتساب کے بعد پھر سب کا احتساب کرنا چاہیے۔ یہی بات اپوزیشن کے ٹی اور آر میں بھی ہے۔ اللہ ہمارے ملک سے کرپشن ختم کرے آمین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔