سبرامنیم سوامی کی ‘سینہ زوری‘

بی جے پی کے نامزد رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے جب سے ایوان بالا میں قدم رکھا ہے، ایوان کے لیے مسلسل درد سر بنے ہوئے ہیں۔ جمعرات کو ایوان کے صدر نشین پی جے کورین نے موصوف کو وارننگ دی کہ وہ اگر اب بھی حزب اختلاف کو مشتعل کرنے والےغیرضروری بیانات دینے سے باز نہ آئے تو تادیبی کارروائی کے لیے تیار رہیں، یہ لگاتار دوسرا دن تھا جب وہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے غیرملکی نژاد ہونے پر نازیباتبصرہ کررہے تھے۔ کہا ں تو صدر نشین کی تنبیہ کو وہ سنجیدگی سے لیتے، اپنے گریبان میں منھ ڈالتے  لیکن وہ سبرامنیم سوامی ہی کیا جو سینہ زوری سے باز آجائے،کہاں اب وہ صدر نشین کے ایوان کی کارروائی سے ان کے نازیبا بیانات کو نکال دینے کے فیصلے کو چیلنج کررہے ہیں۔ جمعہ کوانہیں میڈیا کے سامنے صدرنشین کے فیصلے کو منمانا اور خلاف ضابطہ کہتے ہوئے سنا تو مجھے ملک کی سیاسی تاریخ کےیکے بعد دیگر کئی واقعات یاد آگئے۔

یہ1976 ء کی ایک دوپہرتھی۔ مشی گن شہر میں مقیم ایک ہندوستانی پروفیسر جو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد فرارہوکر امریکہ پہنچ گیاتھا اور اب ایک ہندنژادامریکی تاجر کا مہمان تھا،اچانک ملک کی پارلیمنٹ کے احاطے میں نمودارہوا،اس کے سینہ پرکاغذکی ایک تختی چسپاں تھی جس پر گہری کالی سیاہی سے انگریزی کے تین حروف بہت بولڈ اورنمایاں لکھے  ہوئے تھے’ سی آئی اے ‘۔ملک میں اب بھی ایمرجنسی جاری تھی اوراس کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری ہوچکا تھا۔ راجیہ سبھا کے اس رکن نے پارلیمنٹ کی کارروائی میں حصہ لیا اور پھراسی پراسراراندازمیں امریکہ پہنچ گیا جس اندازمیں وہ گرفتاری سے بچ کرپہلے مشی گن پہنچا تھااورامریکہ میں ہندوستان کی اپوزیشن کا ایک بہت بڑاترجمان بنا پھررہاتھا۔ اخباروں میں اس کی تصویریں چھپیں ، ذرائع ابلاغ نے اس کی اس جرأت کو بڑھ چڑھ کر کوریج دی اور وہ اندراگاندھی کی تاناشاہی اور ایمرجنسی کے خلاف راتوں رات اپوزیشن کا ہیروبن گیا۔یہ سبرامنیم سوامی کی سینہ زوری کا پہلا واقعہ تھا جس نے اس شخص کو ملک کی سیاست میں ایک مرکزی کردار بنا دیا تھا۔

یہ اپریل 2014ء کی کوئی تاریخ تھی جب وکی لیکس کاایک خفیہ امریکی تارمنظر عام پرآیا توکسی کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی ۔کیونکہ سوامی کواسی وقت سے سی آئی اے کا ایجنٹ کہا جاتارہاہے،جب اس نے ابھی سیاست میں گھٹنوں کے بل چلنابھی شروع نہیں کیاتھااور ہاورڈ کی ملازمت چھوڑ کر ہندوستان میں درس و تدریس کی خدمت اختیار کی تھی۔ پھرامریکہ اور اسرائیل کے لیےاس نے جو خدمات انجام دیں وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں ۔سبرامنیم کی داستان امریکہ ، اسرائیل اور سنگھ پریوار کے مثلث میں الجھی ان کے ایک ایسے خادم کی داستان ہے جس  کے حصے میں رسوائیاں بہت آئیں لیکن اسے کامیابیاں بھی کم نہیں ملتی رہیں۔یہ سبرامنیم سوامی کی ذات ہی تھی جس نے ملک میں اسرائیلی سفارت خانہ کھلوانے کی راہیں ہموار کی تھیں اور ہندوستان کا کوئی سیاسی لیڈر اگر سب سے پہلے علی الاعلان اسرائیل کی یاتراپرگیاتو یہ کوئی اور نہیں سبرامنیم سوامی ہی تھا۔چندرشیکھر اورنرسمہاراؤ کے زمانے میں اس نے ملک کی اقتصادی ، تجارتی اور خارجہ پالیسیوں کوجن راہوں پر لگایا، ان کی مہنگی قیمت اس ملک نے چکائی اور اب بھی چکا رہا ہے لیکن یہی شخص سونیاگاندھی اور ان کے بیٹے راہل کو ان کے غیر ملکی روابط کے لیے نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔حتی کہ ان کو کے جی بی کا ایجنٹ تک کہنے میں تامل نہیں کرتا۔حد تو یہ ہے کہ اسے پارلیمنٹ کی روایات کا بھی کچھ پاس نہیں ہے اور جب سے ایوان کی رکنیت ملی ہے، اپنے اس واحد ایجنڈے پر کاربند ہے۔ یہاں میں نے جن دو واقعات کاذکر کیا آپ ان ہی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہندوستان کی سیاست میں اس شخص کااصل کردارکیا رہا ہے ،اسے راتوں رات ہیروبنانے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرما تھے اوراس کی پشت پر اصل طاقت کونسی تھی۔اسی سے یہ راز بھی طشت ازبام ہوجاتا ہے کہ پہلے جن سنگھ اور اب بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیےاس کی حیثیت کن روابط میں سونے کی کڑی کی ہے اور وشو ہندو پریشد نے ہندوتو کے اس خادم کو کن خدمات کے عوض ہندورتن ایوارڈ سے نوازا۔اب بہت کم لوگوں کو یاد ہوگاکہ سوامی کو پہلی باربھی پارلیمنٹ میں جن سنگھ نے بھیجاتھا۔

تمل ناڈو کے مائی لاپور میں1939ء میں جنم لینے والے سبرامنیم سوامی کی نشوونما نئی دہلی میں ہوئی۔اس کے والد انڈین اسٹیٹسٹکل سروس کے ایک اعلی افسر تھے۔ سوامی نے دہلی کے ہندوکالج سے ریاضی میں گریجویشن کیا۔ انڈین اسٹیٹکس انسٹی ٹیوٹ سے ماسٹر ڈگری لی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ کی ڈگری لینے کے بعد ہاورڈ میں ہی درس و تدریس کی خدمات شروع کیں۔وہ گیسٹ ٹیوٹر کی حیثیت سے2011ء تک ہاورڈ کے لوویل ہاؤس کو اپنی خدمات پیش کر رہاتھا جو اس وقت ختم کر دی گئیں جب  اس کا بدنام زمانہ متنازعہ مضمون منظر عام پر آیا جس میں اس نے وکالت کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے حق رائے دہی چھین لیا جانا چاہیے۔ سوامی نے1969ء میں پروفیسر کی حیثیت سے دہلی اسکول آف اکونومکس جوائن کیا تھا لیکن جلد ہی اس کی تقرری نامعلوم وجوہ کی بناپرمنسوخ کردی گئی تھی جوہنوز ایک سربستہ رازہے۔عین ممکن ہے کہ اس کاسی آئی اے کے لیے کام کرنا،حکومت کے علم میں آیا ہو۔کہاجاتاہے کہ وہ ہندوستان کی جوہری صلاحیت کے حصول کی کوششوں کے خلاف تھا جبکہ ملک ان دنوں جوہری صلاحیت کے حصول کی جدوجہدمیں مصروف تھا اور اس کی بازار وسرمایہ نوازی بھی حکومت کے لیے اس وقت تک ناقابل ہضم تھی۔بعد میں اس نےآئی آئی ٹی (دہلی )میںمیتھ میٹکل اکونومکس (ریاضیاتی معاشیات )کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات دیں جو 1991ء تک کسی نہ کسی صورت جاری رہیں۔اوائل 1970ء میں اسے انڈین انسٹی ٹیوٹ ا ٓف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی ) کے بورڈ ا ٓف گورنرزنے بھی عہدے سے برطرف کردیاتھا،ملک وقوم کے تئیں اس کی وفاداری مشکوک تھی اور وزیراعظم اندراگاندھی نے اس شخص کو سی ا ٓئی اے کا ایجنٹ کہا تھا،وکی لیکس نے جو امریکی کیبل لیک کیا ،وہ 1977ء میں بھیجا گیاتھا۔ امریکہ کے ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ (وزارت خارجہ )نے یہ تار نئی دہلی بھیجاتھاجس میں کانگریس کی صدر اندراگاندھی کے تعلق سے اہم اطلاعات ہیں، یہ کیبل سابق رکن پارلیمنٹ(راجیہ سبھا) کواپنا سورس بتاتاہے جس نے اطلاع دی تھی کہ اندرا گاندھی مارچ میں انتخابات کا اعلان کردے گی۔سوامی نے سی آئی اے کے افسر سے کہاتھاکہ اندراگاندھی تھکی تھکی سی نظر آتی ہیں اور ان کی صحت گر رہی ہے،اور وہ اپنی گرتی صحت کے پیش نظرکچھ چیزیں دور کرنا چاہتی ہیں۔سوامی ملک کی وزیر اعظم کی نقل و حرکت پر کتنی گہری نگاہ رکھ رہا تھا اوریہ اطلاعات کتنی مستعدی کے ساتھ سی آئی اے کو مہیاکرارہاتھا، یہ کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں اور یقیناً  اس کی ان سرگرمیوں سے وزیراعظم اندراگاندھی اور حکومت غافل نہیں تھی۔آئی آئی ٹی سے برطرفی کوبھی اس سے جوڑ کر دیکھاجاتا لیکن اس قسم کی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوت مجرم کب چھوڑتے ہیں، وہ آئی آئی ٹی کے بورڈ آف گورنرز کے اس فیصلہ کے خلاف عدالت چلاگیا اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد سپریم کورٹ نے 1990ء کے اواخر میں اسے بحال کردیا، یہاں تک کہ 1991ء میں استعفی دے کر اس نے کیبنٹ منسٹر کا عہدہ سنبھالا۔یہ سبرامنیم سوامی ہی تھاجس نے چندرشیکھرکے دور حکومت میں وزیر تجارت کی حیثیت سے نئی اقتصادی پالیسی متعارف کرائی جس کو نرسمہاراؤ نے آگے بھی جاری رکھی اور وزیر مالیات کی حیثیت سے منموہن سنگھ نے پروان چڑھایا۔راؤ کے زمانے میں سوامی کوکمیشن برائے معیارات محنت وبین الاقوامی تجارت کاچیرمین مقررکیا گیاتھا اوریہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ حکمراں جماعت نے اپوزیشن پارٹی کے کسی رکن کوکیبنٹ رینک کا کوئی عہدہ پیش کیا تھا۔

سبرامنیم سوامی کا مکھوٹہ گرچہ2011ء میں ہی اتر چکا تھا لیکن اس نے جنتا پارٹی کو 2013ء میں دفن کیااور باضابطہ بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے جنتاپارٹی کے بی جے پی میں انضمام کا اعلان پارٹی کے سینئر لیڈروں اوراس وقت کےصدرراجناتھ سنگھ کی موجودگی میں کیاتھا۔اسے امید تھی کہ مودی کی کابینہ میں اسے کوئی کلیدی کردار سونپاجائےگا لیکن سنگھ پریوار کو اس کایہی کردار زیادہ عزیزومفیدہے جو اس نے کانگریس کی قیادت کے خلاف اختیار کررکھاہے۔ لہذالاٹری نہیں نکلنی تھی نہ نکلی، اب بڑی جدوجہد اور وزیراعظم کے خصوصی اختیار سے سوامی ایک بار پھر پارلیمنٹ میں ہے اور سینہ زوری کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے تو مجھے1976 ء کےوہ دن یادآرہےہیں جب وہ سینے پر سی آئی اے لکھ کرایوان میںوارد ہواتھا ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔