سبری مالا: حقوق بمقابلہ روایات

اکھلیش شرما

کیرالہ کے سبری مالا مندر میں تمام عمر کی عورتوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کے اپنے فیصلے پر دائر نظرثانی کی درخواستوں پر سپریم کورٹ سماعت کو تیار ہو گیا ہے۔ یہ سماعت بائیس جنوری کو کھلی عدالت میں ہو گی۔ تمام ہی 49 نظرثانی درخواستوں کو منظور کر لیا گیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے اجازت دینے کے بعد، پانچ ججوں کی پیٹھ کے 28 ستمبر کے اپنے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مہینے کی 17 تاریخ کو تمام عمر کی عورتوں کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ جنوری میں اپنے فیصلے کو بدل بھی دیتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوگا جبکہ مندر کی روایات اسی مہینے پلٹی جا سکتی ہیں۔

کیرل میں اس مسئلے پر جم کر سیاست ہو رہی ہے۔ جہاں بی جے پی سبری ملا کو لے کر انتہائی جارحانہ ہے، وہیں کانگریس کی ریاستی یونٹ بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت میں ہے۔ اگرچہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی کہہ چکے ہیں کہ ذاتی طور پر وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی عمر کی عورت کے مندر میں داکلے پر روک نہیں ہونا چاہئے لیکن ریاستی یونٹ کا موقف مختلف ہے۔ وہیں بی جے پی صدر امت شاہ کھل کر کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کو ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہیے جنہیں لاگو نہ کیا جا سکے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سبری مالا مندر میں رجسولا خواتین کے داخلے کو روکنے کے لیے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور بعض خواتین کارکنوں کو رسائی سے روکا گیا ہے۔ تین بار ایسا ہو چکا ہے۔ ریاست میں لیفٹ فرنٹ کی حکومت ہے جو کہتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا حکم نافذ کرانے کے لیے پرعزم ہے۔

اس دوران سبری مالا کو لے کر ایک نئی بحث بھی شروع ہو گئی ہے۔ کیرل ہائی کورٹ میں کیرالہ حکومت نے کہا کہ سبری مالا ایک سیکولر مندر ہے اور یہاں مذہب اور ذات کی بنیاد پر کسی کو داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ یہ بات اس نے بی جے پی نیتا ٹیجی موہن داس کی عرضی کے جواب میں کہی جس میں غیر ہندوؤں کے سبری مالائی مندروں میں داخلے پر روک کی مانگ کی گئی ہے۔ لیکن کیرل حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مندر سیکولر ہے کیونکہ یہاں صوفی سنت واور کے نام پر ان کا مقبرہ واور ناڑا ہے، جو مندر کے ساتھ ہی بنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ واور بھگوان ايپّا کے قریبی تھے۔ ریاستی حکومت کے مطابق مسلم واور ناڑا میں دعا کرتے ہیں اور مندر میں بھی۔ حکومت نے کہا کہ سبری مالا آنے سے پہلے لوگ ساٹھ کلومیٹر دور واور مسجد میں دعا کرتے ہیں اور یہ ایک سیکولر روایت ہے۔

 آنے والے دنوں میں اس مندر کو لے کر تنازعہ تھمنے والا نہیں ہے۔ جس طرح سبری مالا میں مذہب کو لے کر سیاست ہو رہی ہے اس کے بعد کچھ لوگ اسے اب جنوب کا ایودھیا تنازعہ بھی کہنے لگے ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ آنے والے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بی جے پی اسے کیرل جیسی اہم ریاست میں اپنے پاؤں جمانے کے موقع پر دیکھ رہی ہے۔

سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ آخر سپریم کورٹ کو کسی بھی مذہب کی روایات میں کس حد تک دخل دینا چاہیے یا پھر دینا ہی نہیں چاہیے؟ ساتھ ہی سوال یہ بھی ہے کہ آخر روایات کے نام پر کب تک خواتین کو برابری کے حقوق سے محروم کیا جاتا رہے گا؟

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔