سرجیکل اسٹرائیک حقیقت یا فسانہ

یہاں سچ سے زیادہ جھوٹ ہی بکتا ہے

 ایس احمد پیرزادہ

   29ستمبر2016 کو دلی میں موجودہ بھارتی فوج کے ڈی جی ایم اورنبیریر سنگھ نے وزارت خارجہ کے ترجمان وکاسوروپ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر28اور29ستمبر کی درمیانی رات کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں گھس کر سات مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرکے عسکریت پسندوں کے لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے کے علاوہ وہاں موجود جنگجوو¿ں کا کافی جانی نقصان بھی کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی فوجی کمانڈوز نے پاکستانی علاقے کے تین کلو میٹر اندر جاکر کارروائی کی ہے۔ بقول ڈی جی ایم او کے اِن سرجیکل اسٹرائیکس کی اطلاع پہلے ہی پاکستانی ڈی جی ایم اوکو دی گئی تھی۔ بعد میں بھارتی ٹی وی چینلوں نے فوج میں موجود ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی نشر کرنی شروع کردی ہے کہ ان کارروائیوں کی نگرانی دلی میں براہ راست وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے دفاعی صلاح کار اجیت دُول کررہے تھے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس پوری کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی ہے ۔ پورے آپریشن میں چالیس کے قریب عسکریت پسندوں کو مارنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔29 ستمبر کو ہی دن کے چار بجے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے آل پارٹی میٹنگ طلب کرکے تمام پارٹیوں کو پاکستان میں بھارتی فوجیوں کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی تفصیلات سے آگا ہ کیا۔ اس میٹنگ میںفوج کے ڈی جی ایم او نے ہی مختلف جماعتوں کے نمائندوں کو بریف کرتے ہوئے پوری کارروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔یہ بھی بتایا گیا کہ آپریشن میں 70کمانڈوز نے شرکت کی جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے سرحد پر اُتارا گیا ، بعد میں وہ رینگتے ہوئے سرحد کے اندر تین کلو میٹر تک چلے گئے۔ ہیلی کاپٹر سے کمانڈوز اُتارنے کی بات کا بعد میں بھارتی فوج نے انکار کردیا۔اس بات کا بھی خلاصہ کیا گیا کہ یہ70کمانڈوز پاکستانی حدود میں6گھنٹے تک رہے۔ پاکستانی وزیردفاع خواجہ آصف اور آئی ایس پی آر کے ترجمان آصم باجواہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بھارت کے اس دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستانی حدود میں ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے البتہ کنٹرول لائن پر بھارتی فوج نے پاکستانی چوکیوں پر گولہ باری کی ہے جس کا بھرپور جواب دیا گیا۔ پاکستان نے کہا کہ 27اور28ستمبر کی درمیانی رات کو ہونے والی اس گولہ باری میں پاکستان کے دو فوجی جان بحق ہوگئے اور دیگر نو زخمی ہوئے ہیں جبکہ پاکستان کی جوابی کارروائی سے ہندوستان کے چودہ فوجی ہلاک ہوگئے اور ایک بھارتی فوجی کو ہتھیار سمیت زندہ پکڑ لیا گیا۔یکم اکتوبر کو پاکستانی فوج نے ملکی و غیر ملکی میڈیا ہاوسز سے وابستہ نمائندوں کو کنٹرول لائن پر اس جگہ کا دورہ کروایا گیا جہاں سرجیکل اسٹرائیک کیے جانے کا بھارت نے دعویٰ کیا تھا۔ یہاں پاکستانی فوج کے ترجمان نے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہ ہم دنیا بھر کے اخباری نمائندوں اور اقوام متحدہ کے مبصروں کو یہاں آکر تحقیقات کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔بھارت کے اس دعوے کا بین الاقوامی سطح پر کوئی خریدار نہیں ملا ہے، یو این او نے پاکستان میں تعینات اپنے مبصروں کے حوالے سے کہا کہ زمینی سطح پر ایسی کوئی اسٹرائیک نہیں ہوئی ہے۔ معروف جاپانی اخبار ”ڈپلومیٹ“ میں اپنے ایک مضمون میں ایک دفاعی ماہر نے لکھا کہ ہندوستانی فوج کے پاس نہ ہی ایسی صلاحیت ہے اور نہ ہی ایسی ٹیکنالوجی جس کی بنیاد پر سرجیکل اسٹرائیک کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت کا یہ دعویٰ کمزور ہی لگ رہا ہے۔

سرجیکل اسٹرائیک مخصوص ٹارگٹ پر حملہ آور ہوکر مقصد حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پوری طرح جنگ چھیڑنے کے بجائے فوج دوسرے ملک میں انٹلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر مخصوص جگہ پر آپریشن کرکے ٹارگٹ کو تباہ کرکے واپس آجاتی ہے۔ اس طرح کے آپریشن میں ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے، نشانہ پہلے سے ہی سیٹ کیا جاتا ہے، سو فیصد صحیح اطلاعات کی ہی بنیاد پر حملہ کیا جاتا ہے اور ہوائی فوج کے علاوہ جنگی جہازوں کابھی ایسی کارروائیوں میں استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ دوسرے ملک میں جاکر اس طرح کے آپریشن میں زیادہ تر کمانڈوز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح کا آپریشن امریکہ نے ابیٹ آباد پاکستان میں القاعدہ سپریمو اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کے لیے کیا تھا۔ابیٹ آباد حملے کے بعد سے ہی بھارت میں بھی یہ آوازیں اُبھرنے شروع ہوگئیں ہیں کہ اُن کا ملک بھی پاکستان میں لشکر طیبہ اور دیگر عسکریت پسندوں کے کیمپوں پر ابیٹ آباد طرز کا آپریشن کرے۔رواں سال کے ابتداءمیں 2جنوری کو پٹھان کوٹ میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ائرفورس کی بیس پر حملہ کیے جانے کے بعد بھارت میں چند حکومتی حلقوں نے بھی پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیکس کرنے کا عندیہ دیا تھالیکن ہزار دھمکیوں کے باوجود ہندوستان ایسا نہ کرسکا۔ ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے 70ویں اجلاس کے موقعے پر جموں وکشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف 70دنوں سے عوامی انتفادہ جاری تھا۔ اس دوران فورسز اہلکاروں کی گولیوں سے 90افراد جان بحق ہوچکے تھے اور 31ہزار کے قریب زخمی ہوچکے تھے۔ ایک ہزار نوجوان ، خواتین ، بچے اور بزرگ ایسے ہیں جن کی آنکھیں پیلٹ گن کے قہر کا شکار ہوکر بصارت سے ہی محروم ہوچکی ہیں۔ کشمیر کی اس عوامی جدوجہد کی پاکستان نے عالمی سطح پر بھرپور وکالت کی اور دنیا بھر میں پاکستانی سفیراءاور نمائندوں نے یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے عالمی انسانیت کا آگاہ کرنے کے لیے رات دن زور دار مہم چلائی۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ اقوام متحدہ میں جاکر زبردستی مسئلہ کشمیر کو بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے، جو کہ اُنہوں نے کہا بھی ہے۔ایسے میں18ستمبر کو اُوڑی میں آرمی بریگیڈ ہیڈ کواٹر پر نامعلوم افراد کی جانب سے حملہ ہوتا ہے جس میں 19کے قریب فوجی ہلاک ہوگئے۔بھارت نے اس حملہ کو پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں چلائی جانے والی عالمی مہم کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کرنا شروع کردیا۔ دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر سے ہٹانے کی خاطر اور پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کے لیے ہندوستان نے اقوام عالم سے اپیل کرنی شروع کردی ہیں۔ اس حملے کی دنیا کے بہت سارے ممالک نے مذمت ضرور کی ہے البتہ کسی بھی ملک نے حتیٰ کے بھارت کے قریبی دوست امریکہ نے بھی حملے کے لیے پاکستان کی جانب اُنگلی نہیں اُٹھائی۔جس پر بھارت تلملا اُٹھا اور اس ملک میں میڈیا کے ذریعے سے پاکستان سے بدلہ لینے کے عوامی سطح پر جنگی جنون پیدا کیا گیا۔ وزیر اعظم نریندرمودی سے لے کر حکومت میں شامل ہر منسٹر نے پاکستان سے بدلہ لینے کا کھلے عام اعلان کردیا۔ایک دم سے جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ فوج کو سرحدوں پر جمع کیا گیا اور پاکستان کو نیست و نابود کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کی گئی۔ اس پر پاکستانی وزیر خواجہ آصف نے ایک بیان میں جب یہ بات کہی کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان اپنے ملکی دفاع کے لیے نیوکلیر بم کا استعمال کرے گااور جب پاکستان نے موٹرویز پر جنگی جنازوں کے اُترنے اور پرواز کرنے کی مشقیں کی تو یہ سب بھارت کے لیے واضح پیغام تھا کہ اُن کا ملک کسی بھی حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت سے فوجی قیادت نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بڑی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان سے زیادہ ہندوستان کا نقصان ہوجائے گا۔ اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے اپنی ایک تقریر میں اپنا پورا لہجہ ہی تبدیل کرکے کہا کہ اگر پاکستان کو جنگ کرنا ہی ہے تو آئیں غریبی کے خلاف جنگ کریں گے پھر دیکھتے ہیں کون پہلے غریبی کا خاتمہ کرتا ہے۔ اس تقریر کے موضوع سے ہی عیاں ہوگیا کہ بھارت کا جنگی جنون ٹھنڈا پڑ گیا۔ البتہ اپنے تیز اور دھمکیانہ بیان بازیوں میں بھارتی لیڈر شب خود ہی پھنس گئی۔ ہر سو جنگی جنون میں مبتلا بھارتی عوام نے اپنی حکومت سے اُوڑی حملے میں مارے جانے والے فوجیوں کا بدلہ لینے کے لیے حکومت پر دباوڈالا ، جس پر فوج، میڈیا اور حکمران جماعت بی جے پی نے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے اس ڈرامہ کا پورا پلاٹ تیار کرلیا۔
سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے سے بھارتی پالیسی ساز اداروں نے ایک تیر سے کئی شکار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک بھارتی عوام میں یہ احساس پیدا کرنا کہ اُن کی فوجیوں سے پاکستان سے اُوڑی کا بدلہ لیا ہے، اس با ت کو اس لیے بھی تقویت حاصل ہوجاتی ہے کہ سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرتے وقت بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او نے یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل میں بھارت کو ایسی کارروائی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ گویا وہ بھارت عوام کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ دبے لفظوں میں پاکستان کو پیغام دے رہے تھے کہ آپ اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیں۔ دوسرا اہم فائدہ اس سے یہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر میں جاری عوامی انتفادہ سے دنیا کی نظریں ہٹ جائے اور بھارت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں بڑھتے دباو¿ کو کم کیا جائے۔سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے سے بی جے پی نے یہ فائدہ بھی سمیٹنے کی کوشش کی کہ اُنہیں آنے والے یوپی اور پنجاب کے انتخابات میں اس سے عوام کو گمراہ کرنے کا موقع نصیب ہوجائے۔کامیابی گنے کے لیے اس جماعت کے پاس کچھ نہیں اس لیے حسب معمول پاکستان اور مسلم دشمنی سے ایک مرتبہ پھر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے گی۔ حکومت ہند اور بی جے پی کو اپنے اس دعوے سے مندرجہ بالا فائدے حاصل ہوتے ہیں یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ اس دعوے کے نتیجے میں جو کچھ اس ملک کو آنے والے وقت میں بھگتنا پڑے گا، اُس کے آثار بھارت کے فوجی ماہرین کو بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔(ر) جنرل عطاءمحمد حسنین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان اس کا بدلہ ضرور لے گا، بدلے کے لیے وہ وقت کا جگہ کا تعین خود کریں گے ۔ شاید اسی لیے خفیہ چینلوں کے ذریعے سے بھارت نے پاکستان سے رابطہ کرکے اُنہیں دونوں ممالک کے درمیان ٹینشن کم کرنے کی بات کی ہے۔سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنا بھارت کی سب سے بڑی غلطی ہے، کیونکہ اس طرح اگر چہ حکومت ہند نے وقتی طور پر اپنے عوام کو تھوڑے دنوں تک دل بہلائی کا سامان فراہم کیاہے لیکن اِس طرح پاکستان کے اندر کس طرح کے جذبات جنم لیں گے اس کا شاید ہندوستانی پالیسی ساز اداروں کو اندازہ نہیں ہے۔ جتنی بھی عسکری تنظیمیں بھارت مخالف سرگرمیاں میں ملوث ہیں اُنہیں یہ جواز حاصل ہوگیا کہ وہ بھارتی حدود میں داخل ہوکر کہیں بھی کارروائی کرسکتے ہیں۔ وہ اب بآسانی پاکستانی فوجی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو قائل کرسکتے ہیں ، ساتھ ہی ساتھ فوج اور خفیہ اداروں میںشامل لوگ بھی اب خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ وہ ضرور چاہیں گے کہ بھارت کو سمجھایا جاسکے کہ پاکستانی کچھ بھی کرسکتے ہیں۔گویا اس طرح کی کارروائی کا دعویٰ کرکے بھارت نے اپنے ملک میں کسی بھی جگہ عسکری کارروائیوں کا جواز فراہم کیا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے اندر بھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے آوازیں اُبھررہی ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی پاکستان میں بھارتی حکومت کے دوست ہونے کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے۔بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے کے بعد یہ طبقہ بھی اب یہ سمجھنے لگا ہے کہ اس ملک کے ساتھ دوستی کی تمام تر کوششیں لاحاصل ہی ثابت ہوں گے اس لیے قوم کے مجموعی سوچ کے ساتھ چلنے میں ہی عافیت ہے۔ امریکہ اور دیگر دوسرے ممالک نے پاکستانی وزیراعظم پر دباو¿ ڈالا تھا کہ وہ اُوڑی حملے کی مذمت کریں، یہ پہلا موقع ہے جب پاکستانی وزیر اعظم نے امریکی دباو¿ کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں اُوڑی حملے کی مذمت کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کشمیر میں بھارتی فورسز اہلکاروں کی جانب سے ہورہے قتل عام کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے۔
ایک تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیریوں کی رواں ایجی ٹیشن کا کچھ حاصل نہیں ہے۔ یہ بات اصل حقیقت کے منافی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ رواں عوامی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں جو کچھ کشمیری قوم نے حاصل کیا ہے گزشتہ تین دہائیوں کی جدوجہد میں کسی اور موقعے پر ایسا نہیں ہوا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کشمیریوں کی عوامی ایجی ٹیشن سے دلی کے پالیسی ساز پوری طرح سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے پے در پے سرجیکل اسٹرائیک طرز کی ایسی حماقتیں کی ہیں جن کے ذریعے سے نہ صرف اندرون کشمیر بلکہ باہری دنیا میں بھی بھارتی جمہوری دعوو¿ں کی اصلیت ظاہر و باہر ہونے لگی ہے۔ہماری جدوجہد نے کشمیر کے تئیں تبدیل ہونے والی پاکستانی پالیسی کو نہ صرف پرانی ڈگر پر لایا ہے بلکہ اُس میں اور شدت پیدا کی ہے۔کشمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر جتنی طاقت آج پاکستان صرف کررہا ہے ، ایسا پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ عسکری جدوجہد یہاں گزشتہ 28برسوں سے جاری ہے۔ آج تک کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان نے عسکریت کی دوٹوک الفاظ میں حمایت کرنے کی جرا¿ت نہیں کی، یہ پہلا موقع ہے جب اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں پوری دنیا کے سامنے پاکستان نے ایک عسکریت پسند برہان مظفر وانی کو نہ صرف کشمیریوں کا لیڈر قرار دیا بلکہ اُسے ہیرو بھی کہا ہے۔یہ گزشتہ تین ماہ کی جدوجہد کا ثمر ہے اور ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ جدوجہد سے جو کچھ تحریک حق خودارادیت جموں وکشمیر کو حاصل کرنا تھا وہ ہوگیا ہے اور ہمیں قومی جدوجہد کی اس کامیابی کا ہر سو چرچہ کرنا چاہیے اور دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی اُن بڑی تبدیلوں کا انتظار کرنا چاہیے جن کے نتیجے میں اس قوم کی دہائیوں پر مبنی جدوجہد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔