سرمایہ داروں کی جنگ زر گری اور حکمراں کی ساحری !

عالم نقوی

ہٹلر کی نازی اور فاشی حکومت بھی جمہوری پارلیمانی نظام  کی دین تھی اور 2014 میں قائم ہونے والی مودی سرکار بھی اڈانیوں اور امبانیوں کی جنگ زر گری ہی کے نتیجے میں برسر اقتدار آکے عام آدمی کے سینے پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی وغیرہ  کی مونگ دَل رہی ہے۔ بات وہی  ہے کہ جب  سیاست سے دین کو جدا کر دیا جاتا ہے اور جب  اُس پر ’’با لجبر ‘‘ اصرار کیا جاتا ہے تو چنگیزی کے سوا اور کچھ نہیں باقی رہتا۔ دنیا کے تمام شورش زدہ خطوں میں جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بنام ِجمہوریت فاشزم یا ’جمہوری فاشزم ‘ ہی تو ہے ! جس وقت ہم یہ سطریں لکھ رہے ہیں باندرہ (ممبئی) اسٹیشن کے قریب واقع جھگی جھونپڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھا نے کے لیے دو درجن کے قریب فائر ٹنڈر مصروف ہیں ۔ صرف ممبئی ہی نہیں اس طرح کے  بیشتر معاملوں میں خواہ وہ کسی بھی بڑے اور صنعتی شہر میں ہوں جھوپڑ پٹیوں میں آگ خود سے نہیں لگتی، قیمتی زمینیں خالی کرانے کے لیے لگائی جاتی ہے !

 این ڈی ٹی وی کے آلوک پانڈے نے آج ہی (26 اکتوبر 2017 ) کو خبر دی ہے کہ یوپی کی وزیر جیل جے کمار سنگھ کی درجنوں   کاروں کے  ایک قافلے نے ایک گاؤں میں سرسوں کے ایک کھیت ہی کو رَوند ڈالا کہ انہیں ایک گو شالا کا اُد گھا ٹن کر نے کی جلدی تھی !جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے ان سے سوال کیا تو انہوں  نے کسان کو بطور معاوضہ چار ہزار روپئے دے کر حاتم کی قبر پر لات مار دی۔ کسان دیوندر کا کہنا ہے کہ صرف فصل اُگانے ہی میں اُس کے اَبھی تک  آٹھ ہزار روپئے خرچ ہو چکے ہیں   اور وہ بھی  اس نے قرض لے کے خرچ کیے ہیں !

جمہوری قارونوں کی اس جنگ زر گری میں خسارے میں اگر کوئی رہتا ہے تو وہ صرف عام آدمی ہے۔ حالت یہ ہے کہ وطن عزیز بھارت میں  صرف آلودگی نے سال 2015 میں 25 لاکھ افراد کی جان لی ہے۔  پڑوسی ملک چین میں یہ تعداد اٹھارہ لاکھ تھی۔ پوری دنیا میں آلودگی کی وجہ سے  2015 میں نوے لاکھ افراد کی جان گئی   جن میں سے 65 لاکھ افراد کی موت کا باعث فضائی آلودگی تھی۔ گندے  اور آلودہ پانی نے 2015 میں ۱ٹھارہ لاکھ افراد کی جان لی تھی۔ اور اس قاتل آلودگی کا ذمہ دار کون ہےآ خر ؟   یہی دنیا کے مٹھی بھر قارون اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے بے حس بے غیرت اور منافق حکمراں ! اقبال نے غلط تھوڑی کہا تھا کہ :

مجلس ّئین و اصلاح و رعایات و حقوق۔ ۔طبّ ِ مغرب میں مزے میٹھے، اَثر، خواب آوری !

گرمی گفتارِ اَعضائے مجالس اَلاَ ماں ۔ ۔۔یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زَرگری   !

مجرموں ، قاتلوں ، لٹیروں اور نسل پرستوں کو عام آدمی اور حقوق انسانی  کی قیمت پرحکمراں بنانے والا یہ نظام  اور اس کے  تحت قانون بنانے والے  اداروں اور انسان ساختہ آئین و دستور اور اصلاحات کا شور  کبھی کم نہیں ہوتا۔ آج بھی جاری ہے !

نام نہاد رعایات اور سبسڈیز جو پہلے دی جاتی ہیں محض ووٹوں کی سیاست کے تحت اور پھر بتدریج چھین لی جاتی ہیں قومی اور بین اقوامی قارونوں کے اشارے پر جو آج بھی پوری دنیا کو اپنے اقتصادی اداروں کے مکڑ جال میں پھنسائے  ہوئے ہیں اور حقوق انسانی جن کی بحالی  کا شور بنام جمہوریت خوب مچایا جاتا ہےلیکن فی ا لواقع وہ غصب کر لیے جاتے ہیں ۔ یہ جو جمہوریت وغیرہ میں ایک کشش سی نظر آتی ہے یہ باطل میں حق کی اِسی  ملاوٹ  کا نتیجہ ہے جو عوامی برتری، عوامی حکومت، عوامی فلاح، برابری مساوات، اور  نام نہاد ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ کےنام پر عمل میں آتی ہے لیکن انتخابی  ’جملے بازی ‘ سے زیادہ جس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ حقیقت وہی ہے کہ

 خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا انساں اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری !

مسلسل بڑھتی ہوئی غریبی و امیری کی درمیانی خلیج،  کمی کے بجائے بےروزگاری میں اضافہ، غیر مفید علم کی لائی ہوئی غیر نافع ترقی کے نتیجے میں ہوا، زمین اور پانی کی  قاتل  آلودگی، بھکمری،  سودی قرض کےبوجھ تلے دبے ہوئے کسانوں کی خود کشی، وغیرہ کے حقیقی زمینی انسانی مسائل کی طرف سے عام آدمی کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ باطل قارونی نظام  جو ہتھ کنڈے اپناتا ہے وہی وطن عزیز میں نام نہاد گؤ رکشا اور لو جہاد وغیرہ کے نام پر ہورہا ہے۔ اس میں نیا کچھ نہیں۔ سوا اس کے، کہ یرقانی حکمرانوں کا موجودہ ٹولہ  عالمی قارونوں کی شہ پر آبادی میں کمی کرنے کے ابلیسی طریقہ کار پر عامل ہے۔ شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی غیر  قانونی  تعمیر کے لیے ، کچھ زر خرید اور بے ضمیر منافقین کے ذریعے ملت میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش، تاج محل کو متنازعہ بنانے کی شیطانی سازش اور ٹیپو سلطان شہید کی کردار کشی سب ’’حکمرانوں کی ساحری ‘‘  ہی کے مختلف روپ ہیں !

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔