سرکاری اسپتالوں کے تئیں حکومتی عدم توجہی لمحہ فکریہ!

الطاف حسین جنجوعہ

شعبہ صحت میں نجی کاری سے جموں وکشمیر ریاست بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ہے۔اس اہم ترین شعبہ کو نجی ہاتھوں میں دے دینے سے سرکاری اسپتالوں کی حالت ہر گذرتے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے۔ اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج ومعالجہ کرانے جو مریض جاتاہے ، اس کو صحت یاب ہونے کی امید بہت ہی کم رہتی ہے کیونکہ یہاں پر سرکاری ڈاکٹر ان کا مخلصانہ طور علاج ومعالجہ کرنے کے بجائے ان پر آئے نئے تجربات کرتے ہیں ۔

اگر یہ کہاجائے تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ صورتحال یہ ہے کہ ’’ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں پر تجربے اور پرائیویٹ کلینکوں میں جاکر امیروں کا علاج کیاجاتاہے‘‘۔مریضوں کو پرائیویٹ اداروں میں جانے پر مجبور کرنے کے لئے سرکاری اسپتالوں میں سٹی سکین، الٹراساؤنڈ، ایکسرے یا آپریشن کرنے والی مشینیں اور ونٹی لیٹرز وغیرہ خراب کر دیئے جاتے ہیں ۔ معمولی سے ٹسٹ اور آپریشن کے لئے جان بوجھ کر کئی کئی ماہ کی تاریخ دی جاتی ہے ۔جموں وکشمیر ریاست کے اندر سرکاری سطح پر ہیلتھ سیکٹر کا معیار کیا ہے، اس کی زندہ مثال صوبہ جموں کا کلیدی شفاخانہ ’گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال ہے‘، جہاں پر زیر علاج مریضوں کوفراہم کئے جارہے علاج ومعالجہ اور وہاں دستیاب طبی سہولیات سے بخوب اندازہ لگایاسکتا ہے۔

عام آدمی کے لئے اپنا علاج ومعالجہ کرانا بہت ہی مشکل ترین ثابت ہورہاہے۔نجی کاری کی وجہ ڈاکٹروں وپیرا میڈیکس کا بھی زیادہ رحجان پرائیویٹ کلینکوں کی طرف ہے کیوں کہ اس وقت ڈاکٹروں کو دکھانے میں 80 فیصد اور بھرتی ہونے کے معاملے میں 60 فیصد حصہ پرائیویٹ سیکٹر کا ہے۔ہیلتھ سروسیز خاص طور سے شہری علاقوں تک محدود ہیں ، جہاں ملک کی صرف 28 فیصد آبادی رہتی ہے۔ ایک اسٹڈی کے مطابق 75 فیصد ڈسپنسریا،60 فیصد اسپتال اور 80 فیصد ڈاکٹر شہروں میں ہیں ۔آزادی کے بعد ملک میں نجی اسپتالوں کی تعداد 8 فیصد سے بڑھ کر 93 فیصد ہوگئی ہے۔

آج ملک میں ہیلتھ سروسیز میں سرمایہ کاری کا 75 فیصد حصہ نجی زمرے کا ہے۔ نجی زمرے کے لوگوں کا بنیادی مقصد منافع بٹورنا ہے۔صوبہ جموں کے دور دراز علاقہ جات کی بات کی جائے تو وہاں پر حالت انتہائی خستہ ہے، کئی علاقوں میں یہ صورتحال ہے کہ سردرد کی ٹکی حاصل کرنے کے لئے کئی کلومیٹر دور جانا پڑتاہے، کاغذوں میں ایلوپیتھک ڈسپنسریاں ، سب سینٹرز، پرائمری ہیلتھ سینٹرز قائم ہیں ، جن پر خزانہ عامرہ سے ماہانہ لاکھوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن زمینی سطح پر لوگوں کو ایک مرہم پٹی تک دستیاب نہیں ۔یہاں پر بار ی باری سے ڈاکٹرز یا نیم پیرامیڈیکل عملہ صرف اسپتال کو صرف کھول کر ہوا لگانے آتے ہیں ۔خطہ پیر پنجال کے اضلاع پونچھ وراجوری اور وادی چناب میں کشتواڑ، رام بن، ڈوڈہ کے علاوہ ریاسی، اودھم پور اور کٹھوعہ کے پہاڑی علاقہ جات اور دیہات میں کم وپیش یکساں کی صورتحال ہے۔وادی چناب اور خطہ پیر پنجال کے ضلع اسپتالوں میں کم سے کم سہولیات دستیاب ہونی چاہئے تھیں لیکن افسوس ایسا نہ ہے۔ سٹی سکین جیسی ضروری سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کسی حادثہ کی صورت میں 95فیصد سے زائد افراد کو جموں منتقل کیاجاتاہے، پونچھ میں سٹی سکین مشین تو ہے لیکن اس کو چلانے کے لئے ٹیکنیشن نہیں دیاگیا۔ پونچھ ضلع کے سرنکوٹ ، مینڈھر اور منڈی اسپتالوں کی بھی حالت خراب ہے۔ سرجن، فزیشن، گائناکالوجسٹ، امراض اطفال، ہڈیوں کے ڈاکٹر، دانت ڈاکٹر کی اسامیاں خالی پڑی ہیں ۔

ضلع اسپتال راجوری کا بھی یہی حال ہے، جہاں ڈاکٹروں کی لاپرواہی ، عدم فرض شناسی اور غیرسنجیدہ پن کا یہ عالم ہے کہ اوسطاًہر ہفتہ ایک حاملہ خاتون کی موت واقع ہوتی ہے۔جموں وکشمیر میں نجی سطح پر علاج ومعالجہ کرانے والے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ لوگ بہت غریب ہیں ۔انسرٹ اینڈینگ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 80 فیصد شہری اور قریب 90 فیصد دیہی آبادی سالانہ گھریلو خرچ کا آدھے سے زیادہ حصہ صحت کی سہولیات پر خرچ کردیتی ہے۔ اس وجہ سے ہر سال چار فیصد آبادی غریبی کی سطح سے نیچے چلی جاتی ہے۔ اگر سرکاری اسپتالوں میں آرام سے علاج ہوگا تو مریض نجی اسپتالوں کی من مانی کیوں سہیں گے؟ نجی اسپتالوں میں بھی غریبوں کو علاج کی چھوٹ ملے گی تو کیا امیر غریب ایک جیسی سہولیات پائیں گے؟ تب نجی اسپتالوں ، کلینکوں میں مرض کی طرح پسری کمیشن خوری کا کیا ہوگا۔ جن میں بنا ضرورت ڈاکٹر طرح طرح کی جانچ کراتے ہیں ، آپریشن کرتے ہیں اور لمبے چوڑے بل اینٹھتے ہیں ۔ ان میں دوا کمپنیوں ، جانچ لیب، ڈاکٹراور دلالوں سب کا حصہ مقرر ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں نجی بیمہ کمپنیاں صحت بیمہ کرنے میں سرگرم ہوتی ہیں ۔ بنا ضرورت لوگ اپنا اور اپنے خاندان کا بیمہ کراتے ہیں ، سالانہ رقم بھرتے ہیں تاکہ جب ضرورت ہو تواسے علاج کیلئے پیسے کی تنگی نہ ہو۔

ہندوستان صحت کے معاملے میں عالمی صحت انڈیکس میں شامل 188ملکوں میں 143ویں مقام پر ہے۔ ساتھ ہی ہم صحت پر سب سے کم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں بہت اوپر ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کی سفارشوں کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا کم از کم پانچ فیصد حصہ صحت پر خرچ کرنا چاہئے۔ لیکن بھارت میں پچھلی کئی دہائیوں سے یہ ایک فیصد کے آس پاس بناہوا ہے، جموں وکشمیر میں بھی ہیلتھ پر بہت کم خرچ کیاجاتاہے۔ اس وقت ہم محض 1.04 فیصد صحت پر خرچ کررہے ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق ہر ایک ہزار کی آبادی پرایک ڈاکٹر ہونا چاہئے لیکن اس وقت 1674 لوگوں پر ایک ڈاکٹر ہے۔ دیہی و دشوار گزار علاقوں میں ڈاکٹروں کی82فیصد تک کمی ہے یہ کمی کتنی جان لیوا ثابت ہوتی ہے اس کااندازہ ہر سال گرمی، برسات یا سردی میں آنے والی خبروں سے ہوتا ہے۔

حکومت جموں وکشمیر سے گذارش ہے کہ کم سے کم سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ میں سدھار لایاجائے۔اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ تمام ترمشینری کارگرہو، طبی ونیم طبی عملہ کو فرض شناس بنایاجائے اوراس اہم شعبہ کا کنٹرول پرائیویٹ سیکٹر میں دیکر عام آدمی کے لئے صحت مند زندگی جینے کا حق نہ چھینا جائے۔

تبصرے بند ہیں۔