سعودی عرب میں باپ بیٹے کی بادشاہت

عبدالعزیز

  مکہ معظمہ دنیا کا مقدس ترین شہر ہے جہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ مدینہ منورہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر ہے جو مکہ کے بعد سب سے زیادہ قابل احترام اور مقدس ہے۔ دونوں شہر سر زمین عرب کا حصہ ہے جہاں خلافت راشدہ کے بعد بادشاہت یا ملوکیت نے اپنی جگہ بنالی اور آج تک خاندانی بادشاہت قائم ہے جو اسلام کیلئے ذلت اور سوائی کا سبب بنا ہوا ہے۔ بعض لوگ بادشاہت اور ملوکیت کیلئے دلائل پیش کرتے ہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جس طرز پر حکمرانی کی اور اپنے بعد آنے والوں کیلئے جو طریقہ چھوڑا اس میں کسی طرح بھی بادشاہت کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی شخصیت کو حکمرانی کیلئے نامزد نہیں کیا۔ مسجد کی امامت کیلئے البتہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نام نامی پر اصرار کیا اور آپؐ کی زندگی میں انھوں نے امامت کے فرائض ادا کئے مگر انصار اور مہاجرین کے عام مشورے اور رائے سے خلافت کا منصب حضرت ابوبکرؓ کے سپرد کیا گیا۔

ایک طرح سے اہل الرائے نے عوام کی موجودگی میں آپؓ کو خلیفۃ المسلمین منتخب کیا۔ حضرت عمرفاروقؓ نے چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی کی تشکیل کی اور یہ ہدایت کی کہ ان میں سے جو لوگ عوام الناس میں زیادہ مقبول اور قابل قبول ہوں ان کو خلافت کا حقدار سمجھا جائے اور اپنے بیٹے کو کمیٹی میں شامل کرنے کے باوجود اسے خلافت کا منصب سنبھالنے سے منع کیا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے مسجد نبویؐ سے باہر عوام الناس میں بیعت لی۔ جب لوگ آپ کو خلافت کے مسند پر فائز کرنا چاہتے تھے تو آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہاکہ خلافت کیلئے بیعت کھلے عام ہوگی۔ حضرت علیؓ سے جب رائے لی گئی کہ آپ خلافت کے انتخاب کیلئے کیا طریقہ اپنائیں گے تو آپؓ نے فرمایا ، میرے نزدیک دو ہی طریقے ہیں ۔ ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور دوسرا طریقہ شیخین (حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ)کا۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر عمل کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی کو میں نامزد نہیں کروں گا۔ جب حضرت حسنؓ کیلئے پوچھا گیا تو آپؓ نے کہا نہ میں اس سلسلہ میں ہاں کہوں گا اور نہ منع کروں گا۔ اسے عوام الناس کی مرضی پر چھوڑتا ہوں ۔ جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔ اگر یہی دو طریقے تھے؟ اور یقینا یہی دو طریقے تھے جس کی نشاندہی حضرت علیؓ نے کی تھی تو تیسرا طریقہ نہ آنحضرتؐ کا ہوسکتا ہے اورنہ ہی خلفائے راشدین کا۔ لہٰذا ملوکیت یا بادشاہت اسلام کے نزدیک کسی حال میں جائز نہیں رہی۔

 دنیا نے بادشاہت اور ملوکیت کی خرابیوں کو اچھی طرح سے دیکھا ہے اور ساری دنیا نے مل کر اس طریقۂ حکمرانی کو رد کر دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کے خاندان کے ایک چشم و چراغ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز کو جب بادشاہت سونپی گئی تو انھوں نے اس سے دستبردار ہوکر اعلان کیا کہ عوام جسے چاہیں خلافت کا اہل قرار دیں ۔ اسے اپنی مرضی اور رائے سے انتخاب کریں اوربیعت کریں ۔ کسی پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز نے اسی وقت خلافت قبول کی جب لوگوں نے کھلے عام ان کی بیعت کی۔ ان روشن مثالوں سے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے اور جو سمجھنا چاہتے ہیں کہ حکمرانی کا طرز اور طریقہ اسلام میں کسی طرح بادشاہت نہیں ہوسکتی ہے۔

  آج سعودی عرب جسے آل سعود کے خاندان کی حکمرانی سے پہلے حجاز کے نام سے جانا جاتا تھا وہاں بادشاہت قائم ہے۔ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودیہ کے بعد اپنے بیٹے سلمان کو ولی عہد بنادیا۔ اس وقت سے مغربی دنیا خاص طور سے امریکہ اس ولی عہدی کو پسند کر رہا ہے کیونکہ محمد بن سلمان کی تعلیم و تربیت امریکہ میں ہوئی ہے اور وہ Enlighten Islam   یا Moderate Islam  (روشن خیالی اور جدیدیت کا حامی اسلام) کو پسند کرتے ہیں ؛ یعنی More open brand of Islam کو سعودی عرب کی سر زمین میں لانا چاہتے ہیں ۔ پہلی اصلاح انھوں نے عورتوں کو کار چلانے کی اجازت دی ہے اور مخلوط سوسائٹی (mix society) جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے گھل مل سکیں اور گانے اور موسیقی کی چھوٹ دی ہے۔ سنیما گھر کی چھوٹ دینے کی بات گردش کر رہی ہے۔

 یہ سب مغربی دنیا کو بیحد پسند ہے اور جو مسلمان ایسی چیزوں کا حامی ہے یا پسند کرتا ہے مغربی دنیا اسے روشن خیال مسلمان (Enlighten Muslim) کے خطاب سے نوازتی ہے اور اگر وہ حکمراں ہوتا ہے تو اس کے اقتدار اور حکومت کو مزید مستحکم بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ سلمان  بن عبدالعزیز کے بیٹے محمد بن سلمان کو مغربی میڈیا میں زبردست پذیرائی ہورہی ہے کیونکہ وہ مکہ اور مدینہ کو نیو یارک اور واشنگٹن بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔

 پہلا کام محمد بن سلمان نے اصلاحاتِ جدیدہ کیلئے یہ کیا کہ وہ علماء حق جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ان کی روشن خیالی پر چیں بہ جبیں ہوں گے ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا۔ پھر جو لوگ ان کے خاندان میں ان کی ولی عہدی کے خلاف تھے یا تائید کرنے سے گریز کر رہے تھے ایسے گیارہ شہزادوں کو بھی پابند سلاسل کر دیا اور ان میں سے ایک شہزاد ہ ولید کے بارے میں یہ اعلان کیا کہ وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں تھے اور بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کر دیا گیا۔ سابق بادشاہ عبداللہ کے ایک بیٹے معتیب بن عبداللہ کو جو سعودی عرب میں مقبول تھے ان کو بھی قید خانہ میں بند کر دیا گیا تاکہ وہ عوام و خواص میں چوں و چرا نہ کرسکیں ۔

  ’نیو یارک ٹائمز‘ نے اپنے ایک تازہ شمارہ میں لکھا ہے کہ ایسے علماء جو شاہی خاندان کے کاموں سے مطمئن نہیں تھے ان کے اختیارات و حقوق و سلب کرلئے گئے اور ان کو اصلاحات جدیدہ کو ماننے پر مجبور کیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو امریکن فوج کے داخلہ کو سعودی عرب میں ناپسند کرتے تھے خلیج کی جنگ 1990ء کے دوران امریکی فوج کو کافروں کی فوج قرار دیتے تھے۔

 ایک سرکاری عالم نے جو بریدہ میں رہتے ہیں کہا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط سوسائٹی اور عوام الناس میں موسیقی کا چلن ناقابل قبول ہے جس میں گناہ کا عنصر شامل ہو اور جس چیز یا عمل سے خداوند قدوس ناراض ہوتا ہے۔ آخر ایک سچا پکا مسلمان کیسے پسند کرسکتا ہے۔

 ایک غیر سیاسی تجزیہ نگار نے جو آزادانہ گفتگو کا حامی ہے۔ کیفس (Cafes) میں کہا ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ایسا غلبہ حاصل کیا ہے جو اب تک کسی بادشاہ کو حاصل نہیں ہوا۔

ایک زمانے سے بادشاہت کا پھل سارے شہزادے اور بادشاہ کے بھائی مل جل کر کھاتے تھے اقتدار اور اختیار تقسیم تھا، لیکن اس وقت ولی عہد محمد بن سلمان فوج انٹرنل سیکوریٹی سروسز اور قومی محافظ (National Guard) سب کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔

 امریکہ کے سابق سفیر چیس ڈبلیو فری مین نے کہا ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں سارے اختیارات محمد بن سلمان کے ہاتھ میں آگیا ہے۔ یہ ایک طرح سے پرانے نظام کے خلاف بغاوت (Coup)ہے۔

  مغرب کے اہل الرائے اور حکمراں اپنے ملک میں جمہوریت کو پسند کرتے ہیں مگر مسلم دنیا کیلئے وہ فوجی حکومت، ڈکٹیٹر شپ یا بادشاہت کو پسند کرتے ہیں کیونکہ جس ملک میں بادشاہت ہو یا ایک شخص کے پاس کل اختیارات ہوں گے اس سے مغرب یا امریکہ کے حکمرانوں کو ڈیل کرنے میں آسانی ہوگی۔ اسے ڈرا دھمکا کر آسانی سے اپنی بات منوا سکتے ہیں ۔ ممکن ہے یہ نسخہ جو محمد بن سلمان اپنے ملک میں رائج کر رہے ہیں یہ مسلمانوں کے اس وقت کے سب سے بڑے دشمن ڈونالڈ ٹرمپت کا ہے جسے اس نے محمد بن سلمان کو اپنے ملک میں بلاکر یا اس کے ملک میں جا کر دیا ہے جسے باپ نے بیحد پسند کیا اور بغیر کسی تاخیر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنا دیا۔

 ایک صاحب علم نے 1938ء میں ایک خطبہ میں سعودی عرب کا نقشہ کھینچا تھا اس وقت کی جو حالت تھی وہ کم و بیش وہی حالت آج بھی ہے بلکہ اب خراب کو مزید خراب ہونے کی طرف مائل ہے۔ ان کے خطبہ کا پورا حصہ بعض وجوہ سے نہیں دے رہے ہیں ، صرف نصف سے کم حصہ ملا حظہ فرمائیے:

’’حج کے پورے فائدے حاصل ہونے کیلئے ضروری تھا کہ مرکز اسلام میں کوئی ایسا ہاتھ ہوتا جو اس عالم گیر طاقت سے کام لیتا، کوئی ایسا دل ہوتا جو ہر سال تمام دنیا کے جسم میں خون صالح دوڑاتا رہتا، کوئی ایسا دماغ ہوتا جو ان ہزاروں لاکھوں خداداد قاصدوں کے واسطے سے دنیا بھر میں اسلام کے پیغام پھیلانے کی کوشش کرتا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اتنا ہی ہوتا کہ وہاں خالص اسلامی زندگی کا ایک مکمل نمونہ موجود ہوتا اور ہر سال دنیا کے مسلمان وہاں سے صحیح دینداری کا تازہ سبق لیکر پلٹتے، مگر وائے افسوس کہ وہاں کچھ بھی نہیں ۔ مدت ہائے دراز سے عرب میں جہالت پرورش پارہی ہے۔ عباسیوں کے دور سے لے کر عثمانیوں کے دور تک ہر زمانے کے بادشاہ اپنی سیاسی اغراض کی خاطر عرب کو ترقی دینے کے بجائے صدیوں سے پیہم گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ انھوں نے اہل عرب کو علم، اخلاق، تمدن، ہر چیز کے اعتبار سے پستی کی انتہا تک پہنچا کر چھوڑا ہے۔

 نتیجہ یہ ہے کہ وہ سر زمین جہاں سے کبھی اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا تھا، آج اسی جاہلیت کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں وہ اسلام سے پہلے مبتلا تھی۔ اب نہ وہاں اسلام کا علم ہے، نہ اسلامی اخلاق ہیں ، نہ اسلامی زندگی ہے۔ لوگ دور دور سے بڑی گہری عقیدتیں لئے ہوئے حرم پاک کا سفر کرتے ہیں مگر اس علاقہ میں پہنچ کر جب ہر طرف ان کو جہالت، طمع، بے حیائی، دنیا پرستی، بد اخلاقی، بد انتظامی اور عام باشندوں کی ہر طرح گری ہوئی حالت نظر آتی ہے تو ان کی توقعات کا سارا طلسم پاش پاش ہوکر رہ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگ حج کرکے اپنا ایمان برھانے کے بجائے اور الٹا کچھ کھو آتے ہیں ۔ وہی پرانی مہنت گری جو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کے بعد جاہلیت کے زمانے میں کعبہ پر مسلط ہوگئی تھی اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر ختم کیا تھا، اب پھر تازہ ہوگئی ہے‘‘۔

 آج جو کچھ پورے عرب ممالک میں ہورہا ہے اس سے مسلمانوں کا دل رو رہا ہے اور اب خاص طور سے سعودی عرب میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مزید رونے کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ سعودی عرب ایک طرف اندرون ملک اپنی لڑائی لڑ رہا ہے اور دوسری طرف یمن اور قطر میں برادر کشی کو جائز کر رکھا ہے۔ ایران سے بھی برسوں سے اس کی چپقلش ہے۔

ایسی صورت میں عالم اسلام کا کیا حال ہوگا آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مغرب اور امریکہ کو کسی حال میں وہ اسلام قابل قبول نہیں جو قرآن و حدیث میں ہے۔ وہ اس اسلام کے حامی ہے جو روشن خیالی اور جدت پسندی پر مبنی ہو ، جو ان کے کلچر اور ثقافت کا نمائندہ ہو۔ مسلمانوں کو غور کرنا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام کے حامی ہیں ؟ یا ٹرمپ جیسے بدچلن اور بدقماش کے فلسفہ اور نظریہ کو پسند کرتے ہیں ؟

تبصرے بند ہیں۔