سلطنت خداداد اور مذہبی رواداری

حافظ عبدالسلام ندوی

شیر میسورسلطان ٹیپو کی یوم پیدائش پر پھر سے زعفرانی لیڈروں نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کردیاہے، اور سلطنت خداداد کے خلاف بے بنیاد الزامات کا کوہ پیکر گٹھر لگانے لگے ہیں، دراصل شہر میسور میں ٹیپو سلطان کا یوم پیدائش ۱۰نومبر کو گزشتہ چار سالوں سے سرکاری سطح پر منایا جارہاہے، اس سے قبل عوام کئی سالوں سے ٹیپو جینتی منعقد کرتے آئے ہیں، لیکن بی جے پی جن متعصب نظریات کی حامل ہے ان  میں ملک کی مایہ ناز اور اہم شخصیات کے خلاف بہتان اور جھوٹے الزامات تراشنا اور انکی امیج کو عوامی سطح پر مجروح وداغدار کرنابھی شامل ہے، چنانچہ اسی نظریہ پر عمل پیرا ہوکر گزشتہ کئی سالوں سے سلطان ٹیپو پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس ٹیپو کو ہندتوا نظریہ کے مطابق ۱۹ویں صدی کا کٹر مذہبی حکمراں اور ہندووں کا قاتل بتایاجارہاہے، اسکی بے تعصبی اور مذہبی ورواداری کاحال یہ تھا کہ بسا اوقات اس  دور کے علماء ہندووں پراسکی الطاف وعنایات سے نالاں ہوجاتے تھے، لیکن شیر میسور اپنی لطف عام کو تنگ نہ کرتا، تاریخی حقائق اسکا بین ثبوت ہیں پر افسوس یہ ہے کہ متعصب مورخین نے ان حقائق پر اس قدر حاشیہ آرائیاں کی ہیںکہ اصل حقائق کوچھان بین کرکے جمع کرنا دراصل چیونٹیوں کے منھ سے شکر کے دانے جمع کرنے کے مرادف ہوگیاہے، پران تحریف شدہ تاریخی کتابوں سے ہٹ کر اگر کوئی شخص مشاہدتی طور پر سلطان کی مذہبی رواداری کے نمونے دیکھنا چاہے تو وہ ریاست میسور کا سفر کرے۔

اس ریاست میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے جو عمارتیں ہر چگہ نمایاں نظر آتی ہیں  وہ ہندووں کے قدیم معابد ومنادر ہیں جن میں بعض کی تعمیر ہزار سال سے پیشتر کی ہے، سلطان اگر متعصب ہوتا تو ان مندروں کانام ونشان آج باقی نہ رہتا، بخلاف اسکے ان مندروں میں سلطان کی دی ہوئی جاگیرات کے فرامین موجود ہیں جن سے آج بھی فائدہ اٹھایاجاتاہے، خود سلطان کے پایہ تخت سرنگا پٹم ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہی سب سے پہلے زائر کی نگاہ ان دو بڑے مندروں پر پڑتی ہے جو سلطان کے محل سے بالکل قریب ہے، محل سے متصل ایک اور بڑا مندر ہے، اسکے علاوہ میسور کے علاقہ میں شری نگری، بیلور، پنجن گڑھ اور بنگلور وغیرہ میں ایسے منادر موجود ہیںجنکی تعمیر صدیوں پیشتر کی ہے، ان میں چامندیشوری اور سومیسورہ دو مندریں کافی شہرت رکھتے ہیں، یہ دونوں مندر بارہویں اور تیرہویں صدی کی تعمیر شدہ ہیں، لیکن سلطان نے ان مندروں سے کوئی تعرض نہیں کیا، جسکا ثبوت میسور کے محکمہ آثار قدیمہ کے آرکولاجیکل رپورٹوں سے بخوبی ملتاہے۔

سلطان کی بے تعصبی اور رواداری کے متعلق گاندھی جی نے اپنے ہفتہ واری جریدہ ینگ انڈیا(young india)میں جو کچھ لکھا ہے اس سے بھی ٹیپوں کے مخالفین کے زعم وبیاں اور دریدہ دہنی کی قلعی کھلتی ہے، گاندھی جی نے اپنے آرٹیکل میں لکھاہے کہ’’ ا س عظیم المرتبت سلطان کا وزیر اعظم ایک ہندو تھا، جس نے، نہایت شرم سے یہ کہنا پڑتاہے کہ اس فدائے آزادی کو دغا دے کر دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا، وہ ایک خودمختار حکمراں تھا لیکن کبھی ہندو ساہوکاروں کو اس پر مجبور نہیں کیا کہ وہ اپنا حساب وکتاب عربی حروف میں رکھیں، اس ہندو مندروں کیلئے نہایت فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں‘‘گاندھی جی کے علاوہ کرناٹک کے سابق وزیر اعلی سدارمیا نے گزشتہ سال ٹیپو سلطان کو ہندو مخالف قرار دئے جانے والے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے سوال کیا تھاکہ اگر وہ ہندو مخالف تھے تو ۱۵۶ ہندو مندروں کی امداد کیوں کرتے اور مرہٹیوں کے حملے میں تباہ شدہ شرنگیری مٹھ کی بازآبادکاری کیوں انجام دیتے۔

بہرکیف حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو کی مذہبی رواداری اور بے تعصبی کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جسکا احاطہ اس عجالہ نافعہ میں کافی دشوار ہے بلکہ اسکے لئے ایک علیحدہ تصنیف کی ضرورت ہے، افسوس ہے کہ جولوگ خود امن وامان کے سب سے بڑے دشمن ہیں جنہوں نے خود خون بہابہا کر وطن عزیز کے چہرے کو رنگین کردیا ہے وہ آزادی کے مجاہد اول پر ایسے الزامات عاید کررہے ہیں جسکی فرد جرم خود ان پر لگنی چاہئے، ظاہر ہے اسکے پس پردہ سیاسی اغراض کے علاوہ کوئی دوسرا محرک کارفرما نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔