سلمان حسب سابق ہائی کورٹ سے بری

حفیظ نعمانی
اس وقت بالی وڈ کے سب سے کامیاب سب سے مشہوار ور مقبول اداکار سلمان خان ہیں۔ راجستھان کے جو دھپور میں 18برس پہلے دوکالے ہرن مارنے کے الزام میں اور اس الزام میں کہ ان کے پاس جو لائسنس تھا اس کی مدت ختم ہو چکی تھی انہیں 5سال اور ایک سال کی سزا دی گئی تھی۔ جس کا فیصلہ اگر ہائی کورٹ سے بھی ہونا ہوتا تو وہ 5یا 7سال میں ہوجاناچاہئے تھا ۔ لیکن وہ چونکہ فلمی دنیا کے ایک ابھرتے ہوئے ستارے تھے اس لئے ہر عدالت نے ان کے سامنے دل کھول کر اپنے اختیارات کا مظاہرہ کیا۔ اور وہ اٹھارہ سال کے بعد ہائی کورٹ سے باعزت بری کئے گئے۔
اس سے پہلے بھی وہ اس مقدمہ میں جس میں ان کی کار سے دب کر ایک غریب مزدور کی موت اور کئی مزدور زخمی ہوئے تھے انہیں ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا اور اس الزام پر کہ وہ شراب کے نشہ میں چور تھے اور گاڑی بے قابو ہونے کی وجہ سے ایک فٹ پاتھ پر کچلتے ہوئے ایک بڑی دوکان کا شٹر توڑ کر اس میں گھس گئے تھے۔ انہیں ملزم بنایا گیا تھا۔
اس مقدمہ میں وہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ جس ہوٹل میں دیر رات تک شراب پی کر نکلنے کا الزام تھا وہ غلط تھا سلمان خاں اس ہوٹل میں پانی پیتے رہے تھے۔ اور گاڑی بھی وہ نہیں ان کا ڈرائیور چلا رہا تھا۔ وغیرہ وغیرہ جو دھپور میں کالے ہرن کا شکار کا بھی یہی ہوا کہ سلمان خاں کے وکیل نے بتایا کہ کوئی گواہ نہیں ہے کہ وہ ہرن سلمان نے بندوق سے مارے، اور ہرن ذبح کرنے کے لئے جتنے بڑے چاقو کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بجائے جو چاقو ملا ہے وہ چڑیوں کو ذبح کرنے کے قابل ہے۔ اور جو چھّرے ہرن کے گوشت میں سے نکلے بتائے گئے ہیں وہ ایسے ہی ہیں کہ جن سے ہرن مر ہی نہیں سکتا۔ اور مزید یہ کہ چاقو اتنا چمکدار ہے جس سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ اس سے ابھی تک کوئی بھی چیز نہیں کاٹی گئی ہے۔
ہم اپنے بارے میں عرض کر دیں کہ ہم نے چالیس برس اپنے پریس کا کاروبار کیا ہے۔ کسی ہوٹل کی بل بک یا کیش میمو اگر ہم سے کوئی چھپواتا اور صرف سو ورق ہوتے جس کانمبر بھی مثلاََ 901سے 1000تک ہوتا تو ہم ایک ہی دن میں چھاپ دیتے۔ اس میں سلمان کے پانی کا بھی بل ہوتا ۔ یا جس کسی کو بھی اطمینان دلایاجائے کہ تم اگر کہدو کہ میں ڈرائیور ہوں۔ اور اس دن گاڑی میں چلا رہا تھا تو تمہیں کوئی اس لئے کچھ نہیں کہے گا کہ جو بھی رپورٹ لکھی گئی ہے اس میں تمہارا ذکر نہیں ہے۔ اور اب برسوں کے بعد دوسری رپورٹ نہیں لکھی جا سکتی تو ہرڈرائیور دوچار لاکھ لیکر بیان دے دیگا۔ اور ہوٹل سے جس کیش میمو کو ضبط کیا جائے گا اس میں سلمان خاں کا بھی ایک ورق ہوگا جس میں کافی یا منزّہ پانی لکھا ہوگا۔
ہرن کے مارنے کا جو مقدمہ تھا اس کے بارے میں یہ سمجھ لیاجائے کہ جن پولیس والوں نے چاقو، چھرّے ، کھال ماتحت عدالت کو دی اسے جج صاحب نے سیل کرا کے مال خانے میں جمع کرادیا ہوگا۔ اپنے بریف کیس میں نہیں رکھا ہوگا۔ اور اس مال خانے میں جو دو چار یا دس سپاہی اندراج کرنے اور سامان کو کپڑے میں سی کر لاکھ کی مہر لگاتے ہونگے۔ وہ پورے مال خانے کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے کہ وہ ایک دوسری تھیلی تیار کریں اور اس میں ایک چھوٹا سا نیا قیمتی چاقو خرید کر رکھ دیں اور 4نمبر یا 8نمبر کارتوس کے چھرّے رکھ دیں۔ رہے گواہ تووہ کوئی محکمۂ جنگلات کے افسر نہیں ہوتے گائوں کے کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والے مزدور ہوتے ہیں۔ یا پولیس کے وہ جوناجائز کام کرتے ہیں۔ اور پولیس انہیں اپنا مخبر اور گواہ بناتی ہے۔ ان کی گواہی کی قیمت اگر دس ہزار دے دی جائے تو وہ بدل جائیںگے۔ اور انہیں ایک لاکھ دے دئے جائیں تو وہ علاقہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے۔1966ء میں ہمارے ایک مضمون سے حکومت کے متعصب افسروں کو بہت تکلیف ہوئی انہوں نے مقدمہ قائم کر دیا۔ سرکاری وکیل عدالت کو کسی طرح نہ سمجھا سکے کہ اس مضمون سے دو فرقوں میں نفرت پیدا ہو گی۔ اور فساد پھوٹ پڑے گا سینٹر جو ڈیشئل مجسٹریٹ کسی طرح ماننے پر تیار نہیں تھے کہ اس مضمون سے کوئی نزاع پیدا ہوگا۔ سرکاری وکیل کی یہ کوشش تھی کہ وہ کسی بھی طرح سزا دلا دیں چاہے وہ ’’تابرخاست عدالت‘‘ ہو جو سزا کا سب سے کمتر درجہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ حضور میں ایک گواہ پیش کر نا چاہتا ہوں آپ اس کی بات سن لیجئے۔ جج صاحب فرما رہے تھے کہ حفیظ نعمانی مسلمان ہیں۔ ہم اور آپ ہندو ہیں۔ یہ مضمون سامنے ہے آپ نے پڑھ کر مقدمہ ہاتھ میں لیا ہے۔ میں پڑھ کر یہ کہہ رہاہوں کہ مجھے تو حفیظ نعمانی کے اوپر غصہ نہیں آیاتو پھر گواہ کیوں؟ مگر وہ روہانسے ہوگئے۔ بھٹناگر صاحب نے کہا اچھا لایئے۔
گواہ آئے تو وہ بیان کرنے لگے کہ میں جب جب ندائے ملت پڑھتا ہوں تو میرا خون کھول جاتا ہے ۔ لیکن ہم رفیوجی ہیں خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے وکیل صاحب نے معلوم کیا کہ آپ ندائے ملت کب سے پڑھ رہے ہیں؟ گواہ نے جواب دیا دس بارہ سال سے۔ وکیل عبدالمنان نے اخبار کا پہلا ورق پلٹ کر سی جے ایم کے سامنے رکھ دیا کہ حضور تو واقف ہیں کہ اردو اخبار میں شمارہ یعنی یہ سال کا کونسا پرچہ ہے؟ اور جلد یعنی یہ کس سال کا ہے؟ اس پر چہ پر جلد6لکھا تھا۔ کہ اخبار مارچ 1952سے نکل رہا ہے اور یہ چھٹا سال ہے اور گواہ بارہ برس سے پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد سرکاری وکیل روکر چلے گئے۔ اس لئے کہ گواہ سرکاری جگہ پر غیر قانونی طریقہ سے گنّے کے رس کی مشین لگا کر رس بیچتا تھا۔ اور پولیس کے حکم سے گواہی دیتا تھا۔ اور شاید اس نے ندائے ملت کبھی دیکھا بھی نہ ہو۔
سلمان خان کو ممبئی ہائی کورٹ سے رہائی ملی یا راجستھان ہائی کورٹ سے 18برس میں رہائی ملی۔ اس میں اہم کردار ان ہاتھوں کا ہے جن ہاتھوں میں وہ ثبوت رہے جن سے سزا بھی ہو سکتی تھی اور باعزت رہائی بھی۔
مصر کی جماعت اخوان المسلمین کے بانی شیخ حسن البنّا شہیدؒ لکھ گئے ہیں کہ جو نہیں بکا اس کے بارے میں یہ مت سمجھو کہ وہ بکے گا نہیں۔ بلکہ یہ سمجھو کہ ابھی اس کی مرضی کے مطابق قیمت نہیں لگی۔ پولیس کے چھوٹے موٹے گواہ اور ملک کی پولیس کے چھوٹے بڑے افسر اور اہلکار۔ اور مقدمہ اس سلطان نام کی فلم کے مالک کا جو صرف 2ہفتے میں پانچ سو کروڑ کما چکی ہے۔اور ابھی تنے ہی اور کمائے گی۔ اسے بڑے سے بڑے مخالف کو خرید نا کیا مشکل ہے؟ چاہے یہ خون سے لکھا ہوا ہو کہ گاڑی سلمان ہی چلا رہے تھے شراب میں چور تھے۔ اور ہرن انہوں نے ہی مارے ۔ لیکن۔۔۔۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔