سنے گا کون؟ مگر احتجاج لازم ہے!

نایاب حسن

اس وقت پورا ملک کئی ایک ایسے بحرانوں میں گھراہواہے،جن کی زدمیں کروڑوں لوگ ہیں ،اسی دوران ہم نے آزادی کا جشن بھی منالیا،مگر کیایہ جشن ہماری حقیقی خوشی کا اظہارتھایامحض ایک رسم کی ادائیگی یا پھر اجتماعی بے حسی ومردہ ضمیری کا نمونہ، اس پر ہمیں غوروفکر کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یومِ آزادی سے ٹھیک چند دن پہلے یوپی کے ایک ہسپتال میں پچاس سے زائد معصوم بچے سرکاری سفاکی کی بھینٹ چڑھ گئے اوراس کے ساتھ ہی فوراً ملک کے ایک بڑے حصے میں قدرتی آفت نے کروڑوں لوگوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا اور سیلاب و بارش کی قہرناکی سے زندگیاں تباہ وبربادہورہی ہیں۔ اس وقت جو خبریں آرہی ہیں ،ان کے مطابق آسام میں 40لوگ مرچکے ہیں، جبکہ 24 اضلاع میں 30؍ لاکھ سے زائد افرادسیلاب کی زدمیں ہیں ،بہار کی حالت نہایت ہی خستہ ہے، صوبے کے 14اضلاع میں ستر لاکھ سے زائد لوگ سیلاب کی تباہی کا شکار ہوئے ہیں ،اب تک ستر سے زائد موتیں ہوچکی ہیں، مغربی بنگال میں 30سے زائد ہلاکتوں کی خبر ہے،جبکہ پورے صوبے میں چودہ لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ۔

اس سے کچھ ہی دن پہلے گجرات میں بھی زبردست سیلاب آیاتھا، جس میں 200سے بھی زائد لوگوں کی جانیں گئیں ،جبکہ کروڑوں کا سرکاری و غیر سرکاری خسارہ ہوا۔یہ صورت حال ایسی تھی کہ حکومت سیلاب کو قومی آفت قراردے کر اپنے تمام تر ذرائع ووسائل کو متاثرین کے تحفظ اور ان کی راحت رسانی کے انتظام میں صرف کرتی، مگر زمینی سطح پر سرکارکی جس طرح کی غیر سنجیدگی کا ہم نے حالیہ دنوں میں مشاہدہ کیا،وہ شرمناک ترین ہے۔مودی نے یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعے سے جو تقریر کی،وہ کہیں سے بھی ایک وزیر اعظم کی تقریر نہیں لگی،ایسا لگا کہ وہ آنے والے الیکشن کی کمپیننگ کررہے ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ مودی کے ذہن و دماغ پر حکومت اور سیاسی غلبے کا بھوت سوار ہوچکاہے ،اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہے،حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے اپنی اس تقریر میں عورتوں کی برابری کے بہانے مسلم عورتوں اور طلاق کا ذکر توچھیڑا،مگر انھیں بہار،بنگال،آسام اور اتر پردیش میں سیلاب کی تباہی پر ایک لفظ بولنے کی توفیق نہ ملی،گزشتہ دنوں بہارمیں انھوں نے اوران کی پارٹی نے جس سیاسی عیاری کامظاہرہ کرتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی حکومت کا تختہ پلٹ کرکرسی پر قبضہ کیا،وہ بادی النظرمیں ایک فلمی واقعہ لگتاہے،مگر کیاکیجیے کہ ہندوستانی جمہوریت میں ایسے ڈرامے بڑی آسانی سے اسٹیج کیے جاسکتے ہیں۔

  یوپی جو ہندوستان کا سب سے بڑی آبادی والا صوبہ ہے ،وہاں یومِ آزادی سے محض چند دن پہلے تاریخ کا نہایت ہی دردناک سانحہ رونماہوا اور گورکھپور کے ایک ہسپتال میں آکسیجن سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے پچاس سے زائد معصوم بچے دم توڑگئے،ان میں بہت سے بچے توایسے تھے،جنھیں آنکھیں کھولے ابھی ایک دودن ہی ہوئے تھے،آکسیجن کی عدم دستیابی میں ساری غلطی حکومت کی تھی کہ اس نے سپلائی کرنے والی کمپنی کا بقایاادانہیں کیاتھا،جس کی وجہ سے کمپنی نے سپلائی روک دی اور یہ سانحہ رونماہوگیا،مگر اس کے بعد یوپی کی یوگی حکومت نے جوکارروائی کی،وہ تواور بھی عجیب و غریب تھی،بجائے اس کے کہ متعلقہ شعبے کے وزیر کو جواب دہ بنایاجاتا؛بلکہ خود وزیراعلیٰ اس دردناک حادثے کی ذمے داری لیتے،ہاسپٹل کے کارکنان پر اس کا ٹھیکرا پھوڑ دیا گیا اوراس کے بہانے ایک ایسے شخص کو سسپنڈکردیاگیا،جس نے اپنی جان پر کھیل کر کئی بچوں کی جانیں بچائی تھیں، پھر یوگی جی پریس کانفرنس میں جذباتیت کا مظاہرہ کرکے لوگوں کوالوبناتے نظرآئے۔ ویسے یوگی کا اسٹائل ہندوستانی سیاست اور یہاں کے لوگوں کے مزاج کے مطابق اورکافی دلچسپ ہے،کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کے بعد یاکسی خاص موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان کی زبان سے یہ لفظ ضرور نکلتاہے کہ کوتاہی کرنے والے افسران کوبخشانہیں جائے گااور جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے، توواقعی اس کا ساراخمیازہ متعلقہ افسران کوہی بھگتنا پڑتا ہے، عوام کوتواتناہی چاہیے، وہ اسی پر خوش ہوجاتے ہیں ۔

گورکھپورٹریجڈی پر بی جے پی کے صدرامیت شاہ نے تواور بھی سفاکانہ بیان دیاکہ ایسے حادثات توہوتے رہتے ہیں ،گویا اس تعلق سے حکومت کی نہ کوئی ذمے داری اور نہ جواب دہی ۔ابھی مشرقی یوپی کے اضلاع گورکھپور،گونڈہ،بہرائچ وغیر ہ کے بعض حصے بھی سیلاب کی زدمیں آگئے ہیں ،تازہ خبر ہے کہ یوگی جی نے گونڈہ کا دورہ کیااوروہاں کے دوچارسرکاری اہلکاروں کی چھٹی کردی۔یہ طریقۂ کارکسی سنجیدہ اور ذمہ دار حکمراں کانہیں ہوتاہے،آپ کوکام کرنے اور کروانے کاطریقہ ہی نہیں آتا،تواپنی ناکارگی کو چھپانے کے لیے بے چارے افسران کو بلی کا بکرابناتے ہیں ۔حکمرانی گئورکشا،لوجہاد،قومی ترانہ گوانااور بہانے بہانے سے مسلمانوں کوکھدیڑتے رہنے کانام نہیں ہے،بہت جلدہی وہ لوگ بھی اوب گئے ہیں ،جنھوں نے چند ماہ پہلے ہی بے تحاشا ووٹ دے کر بی جے پی کو یوپی میں کامیابی دلوائی تھی۔اصل کرنے کے کام کوچھوڑکرجشنِ آزادی کے موقعے پریوپی کے مدرسوں کو یہ ہدایت جاری کی گئی کہ اپنے یہاں ہونے والے جشن آزادی کے پروگراموں کی ویڈیووفوٹوگرافی کرواکے حکومت کوبھیجیں ،ہوسکتاہے ایسی ہدایات پہلے کی حکومتوں میں بھی دی جاتی رہی ہوں ، مگر چوں کہ اب سرکاریوگی جی کی ہے؛اس لیے میڈیانے بھی اس ایشوکو جی بھرکر اچھالا،حتی کہ گورکھپورہسپتال میں بچوں کی موت کا معاملہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ اب تھانے میں جنم اشٹمی منانے کے جواز پر ان کی زہرآلودزبان کایہ بیان آیاہے کہ ’’جب میں سڑکوں پرعیدکی نماز نہیں روک سکتاتو تھانوں میں جنم اشٹمی منانے سے کیسے روک سکتاہوں ‘‘۔حالاں کہ جو وہ کہنا چاہتے تھے،وہ کسی اور سیدھے طریقے سے بھی کہہ سکتے تھے،مگر ٹیڑھی دم بھلا سیدھی کیسے ہو!

 بی جے پی کی حکومت تمام تر ایسی ہی زبانوں کی دین ہے،ترقی یاعوام کی بھلائی و بہبودان کے ایجنڈے میں کبھی نہ تھا،نہ ہے،لال قلعے میں مودی کی تقریر میں صرف اور صرف شیخی بگھاڑی گئی،انھوں نے نوٹ بندی سے لے کر جی ایس ٹی تک اور ملکی سلامتی سے لے کر کشمیر کے معاملے تک جتنے بھی موضوعات پر گفتگوکی،ایک مغرور حکمران کی طرح کی،جسے صرف اپناآپ نظرآتاہے،اپنے منصوبے نظرآتے ہیں ،اپنی ذات نظر آتی ہے اور ملک کے ایک سو پچیس کروڑ کے عوام ان کے اصلی ایجنڈے پر کہیں ہیں ہی نہیں ۔خوشحالی کا جھوٹا سحر طاری کرکے انھوں نے 2014کے عام انتخابات سمیت ملک کے مختلف صوبوں کے الیکشنزمیں محض اس لیے کامیابی حاصل کی کہ ان کے سامنے مضبوط اپوزیشن نہیں تھا،جوبی جے پی کی اصلیت سے پوری قوت و طاقت کے ساتھ پردہ اٹھاتا اور اس کی بدنیتی کو طشت ازبام کرتا،مودی کی تمام اکڑفوں کی واحد وجہ اگر کسی چیز کوقراردے سکتے ہیں ،تووہ اس کے سامنے کسی مدمقابل کانہ ہوناہی ہے، میڈیاکو مینج کرنے کا سبق انھوں نے گجرات فسادات سے سیکھ لیاتھا،سو انھوں نے نے مرکز پر قبضہ کرتے ہی ایک ایک کرکے سارے میڈیاہاؤسزکواپنے زیر نگیں کرنا شروع کردیا،جواطاعت شعاری کے ساتھ دام میں آگئے،وہ آج موج کررہے ہیں اوربحث و مباحثہ کے نئے نئے موضوعات ’’دریافت‘‘کرکے مودی اینڈکمپنی کی ناکارگی کو چھپانے میں پوری چابک دستی کا مظاہرہ کررہے ہیں ،جبکہ کچھ دوسرے میڈیاہاؤسز(جونہ کے برابرہیں )جوحق بیانی پر مصر ہیں ، انھیں وقفے وقفے سے ڈرادھمکاکرلگام لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔مودی کے پرستاراب بھی بہت زیادہ ہیں ،خاص طورپرہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے دماغ میں یہ زہر پوری طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ مودی اپنی حکومت کے دوران اس ملک کوہندوراشٹر بناکر ہی چھوڑیں گے اور یہاں کے سارے مسلمانوں کو یاتوملک بدر کردیں گے یاانھیں ہندوؤں کے تابع رہ کر زندگی گزارنا ہوگا۔

ہمارے نوجوان دوست ،جو سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں ،انھیں اس کا اندازہ ہوگا کہ فیس بک ،ٹوئٹروغیرہ پر پوسٹ کی جانے والی خبروں اور ان پرآنے والے کمینٹس میں اچھے خاصے ’’باشعور‘‘اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ہندوبھی مودی کی آڑلے کرمسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کیسی کیسی بکواں کرتے رہتے ہیں ،بظاہر یہ ایک معمولی بات سمجھی جاتی ہے،مگر درحقیقت یہ ایک منظم ذہن سازی کا نتیجہ ہے۔لیکن دوسری طرف ایسے ہی لوگ جب کسی ایسے سانحے میں پھنستے ہیں ،جب ان کے ’’ہردے سمراٹ‘‘انھیں منہ نہیں لگاتے،تب ان کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں ،خاص طورپر عمومی حادثوں کے موقع پر حکومت کی بے حسی و لاپروائی کی وجہ سے لوگ اپنے نمایندوں سے بری طرح بد ظن ہوجاتے ہیں ، ابھی جس طرح گورکھپور کے حادثے میں حکومت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ سامنے آیایا فی الوقت بہار،بنگال وآسام کے ہلاکت ناک سیلاب کے تئیں حکومت کی سردمہری ہے،اس سے جو معارضانہ ذہن رکھنے والے ہیں ،ان کو توچھوڑیے ، جو حکومت کے خیرخواہ اور مودی کے بھکت ہیں ،ان کا دماغ بھی ٹھکانے لگ رہاہے اور انھیں بتدریج محسوس ہورہاہے کہ مودی جی نے الیکشن میں ترقی و خوشحالی کا نعرہ دے کر ہمارے ساتھ دھوکہ کیاہے ۔

ہندوستان جیسے ملک میں سیاست کا مطلب دھوکہ،فریب دہی اور غنڈہ گردی ہے،یہاں اگر کوئی فردیا خاندان سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرلیتاہے، تویوں سمجھیے کہ وہ ہر قسم کی جواب دہی سے اوپراٹھ جاتا ہے ،اصلی سیاست دانوں کوتوچھوڑیے، ان کے دوردور کے رشتے دار بھی جہاں تہاں اپنی سیاسی وجاہت کا استعمال کرکے جاوبے جاحرکتیں کرتے رہتے ہیں ۔میڈیااگر حق بیانی سے کام لے، وہ اس طرح کی چیزوں کو عوام کے سامنے لاتاہے ،جیساکہ یوپی اے۔2کے زمانے میں کیاگیا اور اگر میڈیاخود اپنی عصمت باختگی کوآمادہ ہو،توپھر وہ حکمرانوں ،سیاست دانوں سے پرسش کرنے کی بجاے اس کی پرستش میں لگ جاتا ہے۔

اب دیکھیے کہ کس طرح کچھ دن پہلے یومِ آزادی کی آمدکی مناسبت سے ٹی وی چینل والے مسلمانوں کی دیش بھگتی کو آزمانے لگے تھے اور اب تازہ معاملہ حلالہ پرایک چینل کے اسٹنگ آپریشن کا سامنے آگیاہے،ہمارے ملک کے سامنے اور یہاں کے عوام کے سامنے اور توکوئی پریشانی اور مشکل ہے نہیں ،سو سب مل کراب اسی پراپنی زبانی و جسمانی توانائی صرف کریں گے۔کمینی حکومت،کمینی سیاست،فروختنی میڈیا،بھولے عوام!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔