سیاسی حاشیہ پر کیوں ہیں مسلمان؟

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

ہر پارٹی مسلم ووٹوں کی خواہش مند ہے۔ وہ سرکار بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ میں اقتدار کی کنجی ہے۔ مسلمانوں کی حیثیت کنگ میکر کی ہے۔ ان کی ناراضگی اس پارٹی کو مہنگی پڑتی ہے جس سے وہ ناراض ہوں وغیرہ وغیرہ۔ زمانے تک مسلم رہنما اور عوام اس خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ 2014سیکولر پارٹیوں کے دوغلے رویہ کا نتیجہ تھا۔ اس کو ملک کی سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ مان سکتے ہیں ۔ کیوں کہ اس وقت کئی چہروں سے سیکولرزم کا نقاب ہٹ گیا۔ مسلمان بی جے پی کو ہراتے ہراتے خود ہار گئے۔ یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی بدولت الیکشن کی ہار جیت طے ہوتی ہے۔ ان سیٹوں سے بھی مسلم امیدوار منتخب نہیں ہوسکے جہاں مسلمانوں کی بدولت الیکشن کی ہار جیت طے ہوتی ہے۔ ان سیٹوں سے بھی مسلم امیدوار منتخب نہیں ہوسکے جہاں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد سے بھی زیادہ تھی۔ حد تو یہ ہے جس ریاست میں دینی، ملی، سماجی رہنمائوں اور اداروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، وہاں سے ایک بھی مسلمان کسی بھی پارٹی سے پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکا۔ اب مسلمانوں کو نظر انداز کئے جانے کی شکایت عام ہے۔

سیاست میں مستقل نہ کوئی کسی کا دوست ہوتا ہے نہ دشمن۔ رام منوہر لوہیا کی غیر کانگریس واد کی مہم میں جو سیاسی جماعتیں ساتھ تھیں ، ان میں جن سنگھ بھی شامل تھا۔ جب آٹھ ریاستوں میں غیر کانگریسی سرکاریں بنیں تو ان میں جن سنگھ کی حصہ داری تھی۔ جنتاپارٹی کی سرکار میں جن سنگھ کو وزرات خارجہ سنبھالنے کا موقع ملا۔ اٹل بہاری واجپئی اس کی جانب سے وزیر مقر ر ہوئے۔ سیکولرازم کے علمبردار وی پی سنگھ کی سرکار میں بھی جن سنگھ (جو بی جے پی بن چکا تھا) شامل رہا۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بی جے پی کے بغیر وی پی سنگھ حکومت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ جب ایل کے اڈوانی کا رتھ جنتا دل کی بہار سرکار نے روکا تو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی حمایت واپس لے لی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمان لوہیا کے ساتھ بھی تھے اور جے پرکاش نارائن کے بھی۔ وی پی سنگھ کے ساتھ بھی تھے اور دیوی گوڑا کے بھی لیکن اپنی کسی جماعتی پہنچان کے ساتھ نہیں بلکہ کسی پارٹی کے حصہ کے طورپر۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ’ پچھ لگو ‘بن کر رہ گئے۔

 غور کرنے کی بات ہے کہ آخر مسلمان کیوں پیچھے رہ گئے۔ یہ سوال اپنے رہنمائوں سے، اپنے سماج سے اور خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ کیوں کہ مسلمانوں نے کبھی ایمرجنسی (نس بندی) کے خلاف ووٹ کیا تو کبھی فسادات سے بچانے کے نام پر۔ کبھی پرسنل لاء کی حفاظت کا تو کبھی بابری مسجد کا مسئلہ پیش نظر رہا۔ کبھی فرقہ واریت کے خلاف تو کبھی سیکولرازم کو بچانے کیلئے کھڑے دکھے مسلمان۔ ہر انتخاب سے پہلے مسلمانوں کو مصنوعی دشمن کے خلاف لام بند کیاگیا۔ اس سے مقابلہ کرنے کیلئے کبھی انہوں نے کسی سیاسی جماعت کو ہرایا کبھی کسی کو جتایا۔ بڑی چالاکی سے مسلمانوں کے درمیان ایسے لوگوں کوآگے لایاگیاجنہوں نے ماحول کو جذباتی بنانے کا کام کیا۔ پوری قوم بغیر سوچے سمجھے ان کے پیچھے چل پڑی۔ ان کی دولت اور طاقت میں اضافہ ہوتا گیا لیکن عام مسلمان کو کسی بھی معاملہ میں کوئی راحت نہیں ملی۔ اس کے برخلاف مسلم رہنمائوں پر سے اس کا بھروسہ اٹھ گیا۔ کیوں کہ عام مسلمانوں نے جس پر بھی بھروسہ کیا اسی نے دھوکہ دیا۔ اس قوائد نے مسلمانوں کو ووٹ بینک بناکر رکھ دیا۔ اہل وطن کی نظر میں مسلمان عقل کے بجائے فتویٰ پر بھروسہ کرنے والی قوم بن کر رہ گئے۔

مسلمانوں کی اس حالت کیلئے سیاسی جماعتوں کے علاوہ خود مسلمان اوریہاں کے احوال کوذمہ دارقراردیاجاسکتاہے۔ ملک آزاد ہونے کے ساتھ تقسیم بھی ہوگیا۔ اس وقت عام آدمی کاکوئی پرسان حال نہ تھا۔ جو صاحب علم اور صاحب حیثیت مسلمان بھارت میں رہے، خاص طور پر شمالی ہند میں ، انہوں نے اپنی جائیداد اور وقار کو باقی رکھنے کیلئے کانگریس کا دامن تھام لیا کیوں کہ شمال میں سوشلسٹ اور کمیونسٹوں کی نہ پکڑ تھی نہ کیڈر۔ دوسرے دولت مندوں کو ان کے خیالوں سے اتفاق نہ تھا کیوں کہ انہیں کمزور و پسماندہ طبقہ کے استحصال کی عادت تھی۔ اس لئے کانگریس انہیں راس آگئی۔ کانگریس میں ایک طبقہ ہمیشہ ایسا رہا جو ہندتوا کا حامی تھا۔ وہ تقسیم ِملک کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار مانتا تھا، مگر کانگریس نے کبھی ایسے لوگوں کی تنبیہ نہیں کی۔ مسلمانوں کا لمبا وقت اپنے آپ کو ملک کا وفادار ثابت کرنے کی کوششوں میں گزرگیا۔ کانگریس نے ٹوپی، داڑھی والوں کو اپنے ساتھ ضرور رکھا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہی ہندووادیوں کو پھلنے پھولنے کابھی پورا موقع دیا۔ زیادہ تر فرقہ وارانہ فسادات کانگریس کے زمانے میں اس کی حکومت والی ریاستوں میں ہوئے، لیکن کسی ایک فساد کے مجرموں کو بھی سزا نہیں ملی۔لٹنے پٹنے کے باوجود بھی مسلمانوں کو ہی جیلوں میں ڈالا گیا۔ پھر بھی مسلم رہنما فرقہ پرستوں کو ہرانے کیلئے کانگریس کو ہی ووٹ دینے کی اپیل کرتے رہے۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس سے ناراضگی ظاہر کرکے غیر دانشمندی کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کانگریسی حکومت اس سانحہ کی بھرپائی کرنا چاہتی تھی۔ یہ بات مسلمان نہیں سمجھ پائے کیوں کہ ان کے سیاسی فیصلے عقلی کم، جذباتی زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس وقت قدم اٹھایاگیا، اسی کے نتیجہ میں مرکز میں بی جے پی کی سرکار آئی اور گجرات کا زخم کھانا پڑا۔اس وقت بھی مسلمانوں کو سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے کاموقع ملا تھا لیکن ایک بار پھر قوم چوک گئی۔ مسلمان ہزاروں تکلیفیں اٹھاکر ایک بار پھر کانگریس کے بہکاوے میں آگئے۔ اس نے سچر کمیٹی کا جھنجھونا تھما دیا۔ مسلمان دس سال تک اسے بجاتے رہے جبکہ کانگریس نے اس رپورٹ کے ذریعہ ملک کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ ہم نے اگر مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچایا ہوتا توآج ان کی حالت دلتوں سے بدتر نہیں ہوتی۔ ہم نے انہیں دلتوں سے بھی بدتر بنا دیا ہے، اس لئے ہمیں حکومت کا موقع دیں ۔ اسی رپورٹ نے کانگریس کو مرکز میں دوسری بار سرکار بنانے کا موقع دیا۔ کانگریس نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے ملک کی فرقہ وارانہ طاقتیں کمزور ہوتیں ۔ مسلمان اس بات کو نہیں سمجھے۔ انہوں نے پھر وہی غلطی کی جو 1996اور 2004 میں کی تھی۔ نعرہ دیا گیاکہ فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہرانا ہے اور وہ ہراتے ہراتے خود ہار گئے۔

ان ریاستوں میں مسلمان بہتر حالت میں ہیں جہاں یاتوانہوں نے اپنی طاقت بنائی یا پھرسوشلسٹ یا کمیونسٹوں کے ساتھ شریک رہے یا پھر اپنی ریاستی پارٹیوں کے ساتھ معاملات طے کئے۔ عام نعرے بازی سے پرہیز کیا، کیرالہ، آندھرا، تلنگانہ، کرناٹک اور مغربی بنگال کو اس لحاظ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جس بی جے پی کو ہرانے کیلئے مسلمانوں نے دن رات ایک کیا، اسے جہاں جہاں موقع ملا اس نے مسلم ووٹوں کو بے اثر کردیا۔ اس شکایت کے کوئی معنی نہیں کہ بی جے پی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیتی۔ اگر اس نے کسی مسلمان کو ٹکٹ دیا ہوتا تو کیا آپ اپنا ووٹ اسے دیتے؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر ٹھنڈے دماغ سوچنے کی ضرورت ہے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ سیاسی جماعت کو سیاسی بات سمجھ میں آتی ہے۔ کانگریس یا دوسری چھوٹی پارٹیوں کی محبت میں بی جے پی کو آپ نے اپنا دشمن مان لیا ہے۔ جبکہ ان چھوٹی پارٹیوں کو بی جے پی سے ملنے یا اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی گریز نہیں ۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے ٹارگیٹ ووٹوں کیلئے کام کرتی ہے۔ اگر آپ نے کسی پارٹی کو اپنا دشمن مان لیا ہے تووہ آپ کی دشمنی کو اپنے ووٹ اکٹھے کرنے کیلئے ہتھیار کے طورپر استعمال کرتی ہے توآپ کو اعتراض کیوں ؟ سیکڑوں بتوں کی پوجا کرنے والے سیاسی مفاد کیلئے ایک ساتھ آسکتے ہیں تو آپ ایک خدا کی عبادت کرنے والے کیوں نہیں ؟ آپ میں اتنا بکھرائو کیوں ہے؟

کیا آپ ایک سیٹ پر کسی ایک کوجتانے کافیصلہ نہیں کرسکتے۔ سیاسی جماعتیں اسی کواہمیت دیتی ہیں جو ان کیلئے ضروری ہوتا ہے یا پھر جس سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اگر سیاسی فیصلوں کیلئے وقت درکار ہے توکسی ایک ریاست میں یہ تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان ووٹ دینے کا فیصل کریں کسی سیٹ پر امیدوارنہ بنیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ ہر پارٹی آپ سے رابطہ قائم کرے گی اور شاید دشمنی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت آپ اپنی اگلی سیاسی حکمت عملی طے کرسکتے ہیں ۔ حاشیہ کی سیاست سے اوپر اٹھنے کا کوئی طریقہ تو اختیار کرنا ہی ہوگا۔ آئیے اس پر مل کر سوچیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔