سیرتِ ابنیاء: دروس و اسباق

جمشید عالم عبد السلام سلفی

ویسے تو انبیائے کرام کی پوری زندگی اسوہ و نمونہ ہوتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پل انتہائی قیمتی ہوتا ہے، مگر یہاں ان کی زندگی سے حاصل ہونے والے بعض اہم عبرت و موعظت اور دروس و اسباق کو چند نکات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعہ اپنے آپ کا جائزہ لے سکیں اور اپنی زندگی میں پائی جانے والی خامیوں کی اصلاح و سدھار کرسکیں۔ و باللہ التوفیق:

موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں

انبیاء و رسل نے دنیا میں محدود زندگی گزاری اور پھر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی چند روزہ اور فانی ہے، یہاں کسی کو دوام و ہمیشگی نہیں ہے، سب کو ایک دن جامِ فنا پی کر آخرت کی راہ سدھارنا ہے۔ خواہ عام انسان ہوں یا انبیاء اور رسل ہی کیوں نہ ہوں؟ اس لیے ہمیں بھی ہمیشہ اپنی موت کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہوئے اپنے جاودانی زندگانی کی پروا کرنی چاہیے اور اسی کو بہتر و خوش حال بنانے کی کوشش و فکر کرنی چاہیے۔

ابتلاء و آزمائش بقدر دین و ایمان

انبیاء و رسل کی پوری زندگی ابتلا و آزمائش سے عبارت ہے باوجود کہ وہ اللہ کے مقرب ترین بندے تھے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا ابتلا و آزمائش کی جگہ ہے اور یہاں ہر شخص کو آزمائش اور پریشانی کا سامنا کرنا ہوگا۔ لہٰذا جو کوئی اپنے ایمان میں جتنا پختہ ہوگا اسی اعتبار سے اس کی آزمائش بھی سخت ہوگی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثلُ، یبتلی العبدُ علیٰ حَسب دینہٖ، فإن کان فِیْ دینہٖ صُلباً اشْتدَّ بلاؤُہٗ، وإن کانَ فی دینہٖ رِقةٌ ابتلی علیٰ حسب دینہٖ، فما یَبْرَحُ الْبلاءُ بالعبدِ حتّٰی یَتْرُکَہ یَمْشِیْ عَلیٰ الأرْضِ، ومَا عَلَیْہِ مِنْ خَطِیْئَةٍ‘‘ انبیاء کی، پھر ان کے بعد جو سب سے افضل ہیں پھر جو ان کے بعد افضل ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے اگر وہ اپنے دین میں مضبوط ہو تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوگی اور اگر اس کا دین (وایمان) نرم یعنی کمزور ہو تو اس کے دین کے مطابق ہی آزمائش ہوگی۔ بندے پر مصیبت و آزمائش آتی رہتی ہیں حتّٰی کہ وہ اس زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا یعنی وہ گناہوں سے پاک ہوچکا ہوتا ہے۔[ ابن ماجہ ابواب الفتن باب الصبر علی البلاء رقم الحدیث: ۴۰۲۳، ترمذی ابواب الزھد عن رسول اللہ ﷺ باب ما جاء فی الصبر علی البلاء رقم الحدیث: ۲۳۹۸، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔]

صبر و استقامت

مصائب و تکالیف اور قوم کی جانب سے تکذیب کے باوجود دامنِ صبر کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور زبان سے ناشکری کے کلمات نکالنے کے بجائے شکرِ الٰہی بجالانا اور ہدایت و حق پر ثابت قدمی کی دعا کرنا انبیائے کرام علیہم السلام کا طرۂ امتیاز اور بہترین عمل رہا ہے۔ سیدنا انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بکثرت یہ دعا کیا کرتے تھے:

’’یَا مُقلِّبَ القُلُوْبِ ثبِّتْ قَلْبِی عَلیٰ دِینِکَ‘‘ اے دلوں کو پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھ۔ [ترمذی ابواب القدر عن رسول اللہ ﷺ باب ما جاء ان القلوب بین اُصبُعی الرحمٰن رقم الحدیث: ۲۱۴۰، ابن ماجہ ابواب الدعاء باب دعاء رسول اللہ ﷺ رقم الحدیث: ۳۸۳۴، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔]

قوم والوں نے نبیوں اور رسولوں کو ہر ممکن طریقے سے زدوکوب کیا اور تکلیفیں پہنچائیں پھر بھی وہ لوگ شکوہ کناں نہیں ہوئے بلکہ تکالیف و مصائب کے باوجود ایک پل کے لیے بھی اپنے مشن سے غافل نہیں ہوئے اور عبادت و بندگی کے ساتھ ساتھ تبلیغِ دین کے لیے ہمہ تن گوش رہے حتّٰی کہ ظالموں سے بدلہ لنیے کے بجائے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے رہے۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:

گویا میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ رہا ہوں آپ نبیوں میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے: انہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور کہتے تھے: ’’ربِّ اغْفرْ لِقومِیْ فَإنَّھُم لَا یَعْلمُون‘‘ اے میرے رب! میری قوم کو معاف کردے وہ جانتے نہیں ہیں (کہ وہ کیا کر رہے ہیں)۔] بخاری کتاب احادیث الأنبیاء صلوات اللہ علیھم باب رقم الحدیث: ۳۴۷۷،۶۹۲۹، مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ احد رقم الحدیث: ۱۷۹۲، ابن ماجہ کتاب الفتن باب الصبر علی البلاء رقم الحدیث: ۴۰۲۵۔]

 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: میں نے تیری قوم سے بہت تکلیف اٹھائی ہے اور سب سے زیادہ تکلیف اس عقبہ والے دن پہنچی جب میں نے اپنے آپ کو (اسلام کی دعوت کے لیے طائف کے سردار)  ابن عبد یا لیل بن عبد کلال پر پیش کیا تھا، اس نے میری دعوت کو جو میں چاہتا تھا، قبول نہیں کیا۔  میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا، قرن الثعالب پر پہنچ کر مجھے کچھ افاقہ محسوس ہوا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے غور سے دیکھا تو اس میں جبریل علیہ السلام تھے، انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا: اللہ تعالیٰ، آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے اور وہ بھی جو انھوں نے آپ کو جواب دیا سن چکا ہے، آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو حکم چاہیں دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کیا اور کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! بےشک اللہ نے آپ کی قوم کی گفتگو جو آپ سے ہوئی سن لی اور میں پہاڑوں پر مقرر فرشتہ ہوں، مجھے میرے رب نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ اپنے معاملے میں مجھے حکم دیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا:  ’’بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللہَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا‘‘ بلکہ مجھے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔[ بخاری کتاب بدء الخلق باب إذا قال احدکم آمین والملائکۃ۔۔۔۔۔رقم الحدیث: ۳۲۳۱، مسلم کتاب الجہاد والسیر باب ما لقی النبی ﷺ من آذی رقم الحدیث: ۱۷۹۵، حدیث کا ترجمہ مسلم کی روایت کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔]

کامیابی کی ضمانت درست ایمان اور عمل صالح

 انبیاء ورسل کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ درست ایمان اور عمل صالح ضروری امر ہے۔ ایمان اور عملِ صالح کے بغیر کسی نیک و صالح شخص کی قربت و ہمنشینی اور انبیاء و رسل کی نسبت و قرابت داری کامیابی کی ضامن نہیں ہو سکتی ہے۔ دراصل رب العالمین کے یہاں حسب و نسب کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے خواہ انبیاء و رسل کا اہل و عیال اور خاندان ہی کیوں نہ ہو؟ بلکہ اللہ کے یہاں ایمان اور عمل صالح ہی اخروی کامیابی کا ضامن ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مَنْ بَطَّأَ بہٖ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بَہٖ نَسَبُہُ‘‘ یعنی جس کے عمل نے اسے خیر کے حصول میں پیچھے رکھا اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔[مسلم کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار باب فضل الاجتماع علیٰ تلاوۃ القرآن رقم الحدیث: ۲٦۹۹۔[ سیدنا نوح علیہ السلام کے چوتھے بیٹے ’’یام‘‘ کنعان نے جب دینِ الٰہی سے منحرف ہوکر شرک کی راہ اپنائی تو اسے عذابِ الٰہی سے باپ کی نبوت و محبت نہ بچا سکی، اللہ رب العالمین نے فرمایا:

 ﴿وَهِيَ تَجۡرِي بِهِمۡ فِي مَوۡجٖ كَٱلۡجِبَالِ وَنَادَىٰ نُوحٌ ٱبۡنَهُۥ وَكَانَ فِي مَعۡزِلٖ يَٰبُنَيَّ ٱرۡكَب مَّعَنَا وَلَا تَكُن مَّعَ ٱلۡكَٰفِرِينَ٤٢ قَالَ سَ‍َٔاوِيٓ إِلَىٰ جَبَلٖ يَعۡصِمُنِي مِنَ ٱلۡمَآءِۚ قَالَ لَا عَاصِمَ ٱلۡيَوۡمَ مِنۡ أَمۡرِ ٱللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَۚ وَحَالَ بَيۡنَهُمَا ٱلۡمَوۡجُ فَكَانَ مِنَ ٱلۡمُغۡرَقِينَ٤٣﴾

ترجمہ: وہ کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لے کر جارہی تھی اور نوح (علیہ السلام) نے اپنے لڑکے کو جو ایک کنارے پر تھا، پکار کر کہا کہ اے میرے پیارے بچے ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ رہ۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لےگا، نوح (علیہ السلام) نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے والا کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا۔ [ھود:۴۲ـ۴۳]

اور فرمایا: ﴿وَنَادَىٰ نُوحٞ رَّبَّهُۥ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ٱبۡنِي  مِنۡ أَهۡلِي وَإِنَّ وَعۡدَكَ ٱلۡحَقُّ وَأَنتَ أَحۡكَمُ ٱلۡحَٰكِمِينَ٤٥قَالَ يَٰنُوحُ إِنَّهُۥ لَيۡسَ مِنۡ أَهۡلِكَۖ إِنَّهُۥ عَمَلٌ غَيۡرُ صَٰلِحٖۖ فَلَا تَسۡ‍َٔلۡنِ مَا لَيۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمٌۖ إِنِّيٓ أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلۡجَٰهِلِينَ٤٦﴾ ترجمہ: نوح (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہتر حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نوح یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے، اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقاً علم نہ ہو، میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہ۔ [ھود:۴۵ـ۴۶]

 سیدنا نوح و لوط علیہما السلام کی بیویوں نے جب کفر و نفاق کی راہ اپنائی تو شوہر کی نبوت ان کے کچھ کام نہ آئی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کا حال کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

﴿ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلٗا لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ ٱمۡرَأَتَ نُوحٖ وَٱمۡرَأَتَ لُوطٖۖ كَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَيۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَٰلِحَيۡنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمۡ يُغۡنِيَا عَنۡهُمَا مِنَ ٱللَّهِ شَيۡ‍ٔٗا وَقِيلَ ٱدۡخُلَا ٱلنَّارَ مَعَ ٱلدَّٰخِلِينَ١٠﴾ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی، یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انھوں نے خیانت کی (یعنی کفر و نفاق میں مبتلا ہوئیں) پس وہ دونوں نیک بندے ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا (اے عورتو!) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ۔[التحریم: ۱۰]

قیامت کے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے سفارش کریں گے جسے اللہ تعالیٰ رد کردے گا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے (والد کے) چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا ۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے۔ ان کے والد کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا ۔ ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ: اے  میرے رب ! تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا، آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے۔ پھر کہا جائے گا: اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے؟ وہ دیکھیں گے کہ نجاست میں لتھڑا ہوا ایک بجو ہو گا، اور پھر اس کا پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔[بخاری کتاب احادیث الأنبیاء صلوات اللہ علیہم باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا رقم الحدیث: ۳۳۵۰.]

چچا ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سب سے بڑے حمایتی تھے آپ سے انتہائی محبت کرتے تھے اور ہر موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیےسینہ سپر رہتے تھے لیکن چچا ہونے اور اس قدر مدد و حمایت کے باوجود جہنم کے عذاب سے ان کی گلوخلاصی نہیں ہوگی۔ سیدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے ۔ اس وقت وہاں ابوجہل بھی بیٹھا ہوا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’چچا! ایک کلمہ ’’لا الہٰ الا اللہ‘‘ کہہ دیں، میں اللہ کی بارگاہ میں آپ (کی بخشش ) کے لیے اس کے ذریعہ حجت پیش کروں گا‘‘  اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جائیں گے؟ یہ دونوں مسلسل یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ ابو طالب نے ان لوگوں سے آخری بات کرتے ہوئے کہا: وہ  عبدالمطلب کے دین پر قائم ہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’میں ان کے لیے اس وقت تک مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے گا۔ چناں چہ یہ آیت نازل ہوئی: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن يَسۡتَغۡفِرُواْ لِلۡمُشۡرِكِينَ وَلَوۡ كَانُوٓاْ أُوْلِي قُرۡبَىٰ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ أَنَّهُمۡ أَصۡحَٰبُ ٱلۡجَحِيمِ١١٣‏﴾ ”پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔“ [التوبۃ: ۱۱۳] اور یہ آیت نازل ہوئی: ﴿إِنَّكَ لَا تَهۡدِي مَنۡ أَحۡبَبۡتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهۡدِي مَن يَشَآءُۚ وَهُوَ أَعۡلَمُ بِٱلۡمُهۡتَدِينَ٥٦﴾ ”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب واقف ہے۔“ [القصص: ۵۶] [بخاری کتاب مناقب الانصار باب قصۃ ابی طالب رقم الحدیث: ۳۳۸۴ وغیرہ، مسلم کتاب الإیمان باب صحۃ إسلام من حضرہ الموت۔۔۔۔۔رقم الحدیث: ۲۴، نسائی کتاب الجنائز باب النھی عن الاستغفار للمشرکین رقم الحدیث: ۲۰۳۵۔]

جب ایمان و عمل صالح کے بغیر انبیاء و رسل کی قرابت داری اور طالحین کے حق میں ان کی سفارش سود مند نہیں ہو سکتی ہے تو پھر ناشائستہ و بدقماش قسم کے بزعم خویش اولیاء و صلحاء کی قرابت و ہمنشینی یا ان کی سفارش و دعائے مغفرت کیوں کر نفع بخش ہو سکتی ہے؟ حکم و اذنِ الٰہی کے بغیر تو انبیاء و رسل کو بھی شفاعت و سفارش کا اختیار نہیں ہوگا اور اور اجازت کے بعد بھی صرف انھیں لوگوں کی سفارش کریں گے جن کے سفارش کی رب تعالیٰ اجازت مرحمت فرمائے گا اور پھر انھیں لوگوں کے لیے شفاعت و سفارش کی اجازت ملے گی جن کا دامن شرک کی آلودگیوں سے پاک و صاف ہوگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ:

  اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کون حاصل کرے گا؟  تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس کے بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرے گا، کیوں کہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص دیکھ لی تھی۔ (سنو!) قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی جس نے سچے دل سے یا سچے جی سے ’’لَا إلٰہ إلّا اللہ‘‘ کہا ہوگا۔[ بخاری کتاب العلم باب الحرص علیٰ الحدیث رقم الحدیث:۹۹ و کتاب الرقاق باب صفۃ الجنۃ و النار رقم: ٦۵۷۰، مسند احمد رقم الحدیث: ۸۸۵۸۔]

مذکورہ حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

  ’’اس حدیث پر غور کیجیے! کہ اللہ تعالیٰ نے صرف توحید کو شفاعت کے حصول کا سبب قرار دیا ہے اور مشرکین کے اس عقیدہ کی تردید فرمائی ہے کہ وہ غیر اللہ سے محبت اور ان کی عبادت کی بنا پر اور ان کو سفارشی سمجھ کر شفاعت کے مستحق قرار پائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشرکین کے اس زُعمِ باطل کے برعکس فرمایا کہ شفاعت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے توحید میں تجرید و اخلاص کا پایا جانا۔ جب اخلاص پیدا ہوجائے گا تو پھر اس کے لیے شفاعت کی اجازت مل جائے گی۔ مشرکین کی جہالت یہ ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جن کو انھوں نے اپنا ولی، دوست، اور سفارشی سمجھ رکھا ہے وہ اللہ کے یہاں ان کی سفارش کریں گے اور اس کی بارگاہ میں ان کے لیے نفع رساں ثابت ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ بادشاہوں کے مقربین اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں، مشرکین اس بات کو بھول گیے ہیں کہ اللہ کے یہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش کرنے کی جرأت نہ کرسکے گا اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اُسی شخص کی سفارش ممکن ہے جس کے اعمال و افعال اور کردار پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا‘‘ [مختصر ھدایۃ المستفید  اردو ترجمہ  فتح المجید شرح کتاب التوحید ص: ۱۰۵۔]

کتاب و سنت کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت وسفارش کی اجازت اور قبولیت کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے،مگر شفاعت کے سلسلے میں بدعتیوں نے اتنی وسعت پیدا کرلی ہے کہ ہر کس و ناکس کو اللہ تعالیٰ کا حمایتی و سفارشی بنالیا ہے۔ اور انبیاء و اولیاء نیز شہداء اور نام نہاد پیر و مرشد کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ لوگ مختارِ کل ہیں، جب اور جسے چاہیں اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے چھٹکارا دلادیں گے اور اللہ تعالیٰ سے سفارش کرکے جس کو چاہیں گے بخشوا لیں گے اور اللہ ان کی سفارش کو رد بھی نہیں کرے گا، اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں اور ان کی پہنچ اللہ کی بارگاہ میں ہے اس لیے اللہ نے انھیں شفاعت و سفارش کا اختیار دے رکھا ہے کہ جب اور جس کو چاہیں سفارش کے ذریعہ بچالیں، لہٰذا قیامت کے روز یہ لوگ ہمیں بھی اللہ کی پکڑ سے بچالیں گے اس لیے ہم ان کی شفاعت کے طلب گار ہیں۔ حالاں کہ یہ تمام باتیں مشرکانہ ہیں اور اس طرح کے عقیدہ رکھنے والوں کے لیے شفاعت ہوگی ہی نہیں، شفاعت تو ایمان و توحید کی بنیاد پر ہوگی۔ اس طرح کا باطل عقیدۂ شفاعت رکھنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 ﴿وَلَقَدۡ جِئۡتُمُونَا فُرَٰدَىٰ كَمَا خَلَقۡنَٰكُمۡ أَوَّلَ مَرَّةٖ وَتَرَكۡتُم مَّا خَوَّلۡنَٰكُمۡ وَرَآءَ ظُهُورِكُمۡۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمۡ شُفَعَآءَكُمُ ٱلَّذِينَ زَعَمۡتُمۡ أَنَّهُمۡ فِيكُمۡ شُرَكَٰٓؤُاْۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيۡنَكُمۡ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمۡ تَزۡعُمُونَ ٩٤﴾

ترجمہ: اور اگر تم ہمارے پاس تنہا تنہا آگئے جس طرح ہم نے اول بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے اور ہم تو تمھارے ہمراہ تمھارے ان شفاعت کرنے والوں کو نہیں دیکھتے جن کی نسبت تم دعویٰ رکھتے تھے کہ وہ تمھارے معاملہ میں شریک ہیں۔ واقعی تمھارے آپس میں تو قطع تعلق ہوگیا اور وہ تمھارا دعویٰ سب تم سے گیا گزرا ہوا۔ [الانعام: ۹۴]

سفارش صرف اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہوگی، کافر و مشرک، اللہ کے باغی اور بدعقیدہ لوگوں کے لیے نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿قُلِ ٱدۡعُواْ ٱلَّذِينَ زَعَمۡتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ لَا يَمۡلِكُونَ مِثۡقَالَ ذَرَّةٖ فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِي ٱلۡأَرۡضِ وَمَا لَهُمۡ فِيهِمَا مِن شِرۡكٖ وَمَا لَهُۥ مِنۡهُم مِّن ظَهِيرٖ ٢٢ وَلَا تَنفَعُ ٱلشَّفَٰعَةُ عِندَهُۥٓ إِلَّا لِمَنۡ أَذِنَ لَهُۥۚ حَتَّىٰٓ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمۡ قَالُواْ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمۡۖ قَالُواْ ٱلۡحَقَّۖ وَهُوَ ٱلۡعَلِيُّ ٱلۡكَبِيرُ ٢٣﴾

ترجمہ: کہہ دیجیے! کہ اللہ کے سوا جن جن کا تمھیں گمان ہے (سب) کو پکار لو، نہ ان میں سے کسی کو آسمانوں اور زمین میں سے ایک ذرہ کا اختیار ہے نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ شفاعت (سفارش) بھی اس کے پاس کچھ نفع نہیں دیتی بجز ان کے جن کے لیے اجازت ہوجائے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کردی جاتی ہے تو پوچھتے ہیں کہ تمھارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق فرمایا، اور وہ بلند و بالا اور بہت بڑا ہے۔ [سبا: ۲۲،۲۳[

  اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ: بارِ الٰہا! ہمیں رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی عظمت و بلندی کو سمجھنے اور ان کی سیرت و کردار کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرما۔  اے اللہ! ہمیں آخری نبی کی لائی ہوئی شریعت وکتاب اور دینِ اسلام پر کما حقہ چلنے کی توفیق دے۔اور ہمیں پیارے رسول محمدﷺ کی شفاعت نصیب فرما۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔