سیرتِ رسول کی کرنیں (دوسری قسط)

تحریر: حافظ محمد ادریس … ترتیب: عبدالعزیز

  دیانت و امانت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہونے کی حیثیت سے انبیاء علیہم السلام کی پاکیزہ جماعت کے درمیان بہت بلند اور ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ آپؐ کی آمد کے بعد قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا، نہ کتاب نازل ہوگی، نہ شریعت بدلے گی اور نہ ہی اخلاقی اصول و ضوابط میں رد و بدل ہوگا۔ رہن سہن، معاشرت، عمومی ضروریات و معاملات، تدبیر و لائحۂ عمل، حکمت عملی اور منزل تک پہنچنے کیلئے ذرائع و وسائل کا تعین، بدلتے وقت کے مطابق تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی عقائد و اعمال اور اخلاقی اصول و ضوابط اور غیر مبدل ہیں ۔ ان سب امور میں راہ نمائی حاصل کرنے کیلئے دو بنیادی مآخذ ہیں ، اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی سنت، آپؐ نے زندگی کے آخری لمحات میں امت کو اس اہم ترین پہلو کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہٖ‘‘۔ میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، تم کبھی گمراہ نہ ہوگے جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے۔ یہ ہیں اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت‘‘۔ (مؤطا امام مالکؒ)

 ایک امتی کیلئے بلا شبہ یہ بھی اہم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس کیسا پہنا تھا اور کھانے آپؐ کو کون سے پسند تھے مگر ان امور کے بارے میں اس پر کوئی قدغن اور باز پرس نہیں ، البتہ لباس ساتر و شریفانہ اور کھانا حلال و پاکیزہ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح آنحضورؐ نے زندگی کے جو معمولات واضح طور پر متعین کردیئے، ان کی پابندی ہر دور میں ہر امتی کیلئے ضروری ہے۔ آپؐ کے کردار کا ایک نمایاں ترین پہلو دیانت و امانت ہے۔ آپؐ طبعاً اتنے امانت دار تھے کہ کسی دوسری کی چیز ہتھیا لینا آپ کی طبیعت و مزاج سے لگّا ہی نہیں کھاتا تھا۔ اس دیانت و امانت کی وجہ سے آپؐ کو جہاں آپؐ کی قوم الصادق کہتی تھی، وہین الامین کے نام سے بھی ہر چھوٹا بڑا آپؐ سے متعارف تھا۔

  آپؐ نے لوگوں کے ساتھ نبوت سے قبل لین دین اور معاملات بھی کئے، تجارت اور شراکت بھی کی۔ عرب کے اس معاشرے میں جہاں لین دین کے معاملات میں ڈنڈی مارنا، غلط بیانی کرنا اور اپنے مال تجارت کے نقائص کو محاسن بناکر پیش کرنا کاروباری ذہانت و تاجرانہ مہارت شمار ہوتا تھا، آپ آپؐ کا کردار ان عیوب سے بالکل پاک صراف اور مبرا تھا۔ آپؐ جوانی ہی میں الامین کے نام سے سارے جزیرہ نمائے عرب ہیں مشہور ہوگئے تھے۔ جب آپؐ نے شرک و بت پرستی کے اس ماحول میں توحید خداوندی کا کلمہ پیش کیا تو لوگوں کو یہ کلمہ بہت اجنبی معلوم ہوا۔ اس کلمۂ حق نے کفار کو مشتعل کر دیا۔ کیفیت یہ ہوگئی کہ جیسے بھڑوں کے چھتے میں پتھر مار دیا گیا ہو۔ اس شدت کی مخالفت میں بھی آنحضور کے کردار کا سورج کبھی نہیں گہنایا اور سنگ ریزوں کے درمیان یہ چمک دار موتی یوں جگمگاتا رہا کہ کوئی آنکھ اس سے صرف نظر نہ کرسکی۔

 نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفتیں شروع ہوئیں تو قریش مکہ خون کے پیاسے ہوگئے۔ قتل، جلا وطنی اور اور قیدو بند کے منصوبے بننے لگے۔ اس بدترین مخالفانہ ماحول میں بھی آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی برتری یوں قائم تھی کہ خون کے پیاسے اپنی امانتیں آپٔ ہی کے پاس مامون و محفوظ سمجھتے تھے۔ ہجرت کی رات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مانتوں کا مکمل حساب اپنے جانثاراور عم زاد بھائی علیؓ بن ابی طالب کے سپرد کر رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’علی! یہ ان لوگوں کی امانتیں ہیں جو میرے خون کے پیاسے ہیں ۔ میرے پیچھے یہ امانتیں تمہارے سپرد ہیں ۔ تم بلا کم و کاست یہ امنتیں حق داروں تک پہنچانے کیلئے یہیں رکے رہو‘‘۔ کسی شخص کی دیانت کی اس سے بڑی دلیل شاید ہی دنیا میں پیش کی جاسکتی ہو۔ (اس واقعہ کی تفصیل تمام کتب سیر میں محفوظ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سیرت النبی، از شبلی نعمانی، ج 1، ص162، مطبوعہ مکتبہ مدینہ)

 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جن لوگوں نے آغازِ اسلام میں بھر پور تعاون کیا، اپنا سب کچھ اسلام پر نچھاور کیا اور اسلام کے محسن بن کر تاریخ میں زندہ جاوید ہوگئے، ان میں خاتون اسلام سیدۃ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی کے آغاز میں ان کے مالِ تجارت کو شراکت داری میں جس محنت اور دیانت و امانت سے ثمر بار کیا تھا، اسی نے سیدہؓ کا دل موہ لیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقد نکاح میں عہد وفا باندھنے کے وقت وہ انتہائی خوش تھیں کہ عرب کا سب سے زیادہ دیانت دار شخص انھیں اپنی زوجیت میں لے رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے بعد جب اپنے گھر میں آئے اور ساری کیفیت بیان کی تو سیدہؓ نے آپؐ کے جو محاسن بیان کئے ان میں آپؐ کی دیانت و امانت کا خصوصی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہاتھا کہ ایسی اعلیٰ صفات کے حامل بندے کو اللہ ضائع نہیں کرے گا۔

  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بہت ہی معروف اور بلند مقام کے حامل صحابی ہیں ، جو قاری قرآن بھی تھے اور مفسر قرآن بھی۔ اس عظیم صحابی کے بارے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ قیامت کے دن جب لوگوں کے اعمال تولے جارہے ہوں گے تو ایک پلڑے میں احد پہاڑ رکھا جائے گا اور دوسرے پلڑے میں باریک پنڈلیوں والے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی نیکیاں تو احد پہاڑ والا پلڑا اٹھا جائے گا اور ابن مسعودؓ کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا۔

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ مکہ کی ایک وادی میں عقبہ بن ابی مُعَیْط کی بکریاں چرا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ وہاں سے گزرے تو بھوک اور پیاس محسوس کر رہے تھے۔ جب ان سے دودھ مانگا تو انھوں نے کہا: ’’میں آپ کو دودھ نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ بکریاں مالک کی ہیں اور میں تو صرف امین ہوں ‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ایسی بکری ہمیں بتاؤ جو شیر دار نہ ہو۔ چنانچہ انھوں نے ایک بکری پیش کی، آپؐ نے اس کے تھنوں کو سہلایا تو وہ معجزانہ طور پر دودھ سے بھر گئے۔ آپؐ نے دودھ نکال کر خود بھی پیا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ و ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا۔

  یہ درحقیقت ایک معجزہ تھا، جسے دیکھ کر ابن مسعودؓ کے دل کی دنیا بدل گئی۔ ایک تو انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسرے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے بھی اس کلام کی تعلیم سے بہرہ ور فرمائے جو آپؐ کے پاس ہے تو اس پر آپؐ نے شفقت و محبت سے فرمایا: ’’اِنَّکَ غُلَامٌ مُعَلِّمٌ‘‘۔ ’’بلا شبہ تم پہلے ہی پڑھے لکھے نوجوان ہو‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ابن مسعودؓ کی دیانت و امانت کی تعریف کے طور پر تھا۔ (اسد الغابہ، ج1، ص256۔ اس کے علاوہ یہ واقعہ سیرت کی تمام مستند کتب میں موجود ہے)۔

 سیرت نگاروں نے آپؐ کے معجزات میں ایک اور واقعہ بھی بیان کیا ہے، جس کے مطابق آپؐ نے یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر رکھا تھا کہ ایک سیاہ رنگ کا چرواہا اپنی بکریوں کے ساتھ آپؐ کے پاس سے گزرا۔ آپؐ کو دیکھر کر اس نے کہاکہ کیا آپ اللہ کے نبی ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا: ہاں ، پھر اس نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں جاننا چاہا تو آپؐ نے اس کے سامنے اسلام کی مختصر تشریح فرمائی۔ اس چرواہے نے دنیا میں شرکت اور قتل ہوجانے کی صورت میں جنت میں داخلے کے بارے میں سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم شہید ہوجاؤ گے تو جنت میں چلے جاؤگے۔ چرواہے نے آپؐ سے ایک اور سوال کیا، جس سے آپؐ خوش ہوئے اور آپ کی نظر میں اس کی قدر و قیمت اور بڑھ گئی۔ اس نے کہا: یہ بکریاں فلاں یہودی کی ہیں ، ان کا کیا کروں ۔ آپؐ نے فرمایا: ان کو ہانک دو۔ گویا جن کے مقابلے آپؐ نے فوج کشی کر رکھی تھی، ان کے مال کو بھی قبضے میں لے لینا دیانت و امانت کے منافی سمجھا۔

 حضرت اسود الراعی نے ان بکریوں کو کنکریاں ماریں اور فرمایا کہ جاؤ اپنے باڑے کی طرف چلی جاؤ۔ پھر وہ شامل جہاد ہوگئے۔ قلعے کی سنگ باری اور تیر اندازی کی جارہی تھی۔ یہ نو مسلم صحابیؓ جنھوں نے نہ کوئی نماز پڑھی تھی اور نہ روزہ رکھا تھا، شہید ہوگئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں گواہی دی کہ وجنت میں جاچکے ہیں اور جنت کی حوریں ان کی خدمت میں حاضر ہوچکی ہیں ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ حوریں شہید کے چہرے پر لگے گرد وغبار کو صاف کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں جس نے تیرے چہرے کو غبار آلود کیا ہے، اللہ اس کے چہرے کو خاک آلود کر دے اور جس نے تجھے قتل کیا ہے، اللہ اسے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دے۔ (معجزات سرور عالم،ص88، بحوالہ سنن البیہقی، ج 9، ص143)

  دنیا میں مال و دولت اور مادی اشیاء کے لین دین اور حفاظت کے حوالے سے دیانت و امانت کا تصور ہمیشہ موجود رہا ہے۔ ہر قوم اور ہر ملک میں یہ جوہر کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔ نبی رحمتؐ نے دیانت و امانت کا جو تصور اپنی امت کو دیا ہے وہ اپنی جامعیت کے لحاظ سے اتنا اکمل و کامل ہے کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی اور دل اس کی عظمت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے درہم و دینار، سونے، چاندی، اور مادی اشیاء ہی کی حفاظت تک دیانت و امانت کو محدود نہیں کیا بلکہ آپؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ کسی کا کوئی راز بھی کسی شخص کے پاس ہو تو اس کی حفاظت بھی دینی تقاضا ہے۔ گویا کہ افشائے راز بددیانتی ہے۔ اسی طرح آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص سے مشورہ مانگا جائے وہ بھی امین ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ معاملہ زیر بحث پر پوری سنجیدگی سے غور و خوض کرے اور مکمل خیر خواہی کے ساتھ بہترین مشورہ مانگنے والے کو فائدہ پہنچ سکے اور وہ نقصان سے محفوظ رہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’اَلْمُسْتَشَارُ مُوْتَمَنٌ‘‘ (ابو داؤد: کتاب الادب، ترمذی : ابواب الادب، ابن ماجہ: کتاب الادب، مسند احمد، ج5، ص274)۔ ان فرامین کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اسلام کتنا جامع دین اور ایک مسلم معاشرہ کتنی باریک بینی سے دیانت و امانت کی حفاظت کرتا ہے۔

  حقیقت یہ ہے کہ دیانت و امانت، اللہ کی نصرت و تائید اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’لا ایمان لہٗ، لا امانۃ لہٗ‘‘۔ اس شخص کا ایمان معتبر نہیں جس کے اندر امانت و دیانت نہیں ۔ (شعب الایمان للبیہقی، ج9، ص231، مشکوٰہ، کتاب الایمان، فصل دوم، مسند احمد، ج 3، ص154)۔ اس واضح حکم کے بعد ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر ہم خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو کیا ہم مسلمان کہلانے کے حق دار ہیں ۔ ہم اس نبیؐ کے امتی ہیں ، جس نبی کا کردار یہ ہے کہ خون کے پیاسوں کی امانتیں بھی ان تک پہنچانے کا اس وقت اہتمام کیا، جب ان کی خون آشام تلواریں اس کے گھر کے باہر لہرا رہی تھیں ۔ جس نے عین حالت جنگ میں بھی برسر پیکار دشمن کا مال اس کی طرف لوٹانے کی مثال قائم کی۔ اس نبی کے امتی ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر معاملے میں تمام لوگوں کے ساتھ مکمل دیانت و امانت کا مظاہرہ کریں ۔ ایمان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں اور بددیانتی ایمان کی نفی کرتی ہے۔ آئیے! ہم اللہ سے عہد کریں کہ ہم اپنی بقیہ زندگی کو دیانت و امانت کے نبویؐ تصورات کی روشنی میں اسلام کا نمونہ بنائیں ۔  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔