سیرتِ پاک کا مطالعہ کس مقصد اور کس نقطہ نظر سے ہونا چاہئے؟

ترتیب: عبدالعزیز

(ممتاز اور مشہور ادیب اور سیرت نگار مولانا نعیم صدیقیؒ کی سیرتِ رسولؐ پر شہرہ آفاق کتاب ’’محسن انسانیتؐ‘‘ پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے صاحب کتاب کی گزارش پر ایک مختصر سا دیباچہ لکھا جو اپنے اندر معنی کا ایک سمندر رکھتا ہے۔ مولانا نے اس میں ایک قاری کو جو روح دین تک پہنچنا چاہتا ہے اسے قرآن مجید اور سیرتِ رسولؐ کے مطالعہ پر یکساں زور دیا ہے اور لکھا ہے کہ قرآن کو سیرتِ رسول ؐ اور سیرت کو قرآن سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک کو چھوڑ دینے سے مطالعہ ناقص اور نامکمل ہوگا۔ اس لئے دین کو پورے طور پر سمجھنے کیلئے دونوں کا مطالعہ لازم و ملزوم ہے۔ ع -ع)

’’اسلام کی نعمت ہر زمانے میں انسان کو دو ہی ذرائع سے پہنچی ہے۔ ایک اللہ کا کلام دوسرے انبیاء علیہم السلام کی شخصیتیں جن کو اللہ نے نہ صرف اپنے کلام کی تبلیغ و تعلیم اور تفہیم کا واسطہ بنایا بلکہ اس کے ساتھ عملی قیادت و رہنمائی کے منصب پر بھی مامور کیا تاکہ وہ کلام اللہ کا ٹھیک ٹھیک منشا پورا کرنے کیلئے انسانی افراد اور معاشرے کا تزکیہ کریں اور انسانی زندگی کے بگڑے ہوئے نظام کو سنوار کر اس کی تعمیر صالح کر دکھائیں۔

یہ دونوں چیزیں ہمیشہ سے ایسی لازم و ملزوم رہی ہیں کہ ان میں سے کسی کو کسی سے الگ کرکے نہ انسان کو کبھی دین کا صحیح فہم نصیب ہوسکا اور نہ وہ ہدایت سے بہرہ یاب ہوسکا۔ کتاب کو نبیؐ سے الگ کر دیجئے تو وہ ایک کشتی ہے ناخدا کے بغیر جسے لے کر اناڑی مسافر زندگی کے سمندر میں خواہ کتنے ہی بھٹکتے پھریں منزلِ مقصود پر کبھی نہیں پہنچ سکتے اور نبی کو کتاب سے الگ کر دیجئے تو خدا کا راستہ پانے کی بجائے آدمی ناخدا ہی کو خدا بنا بیٹھنے سے کبھی نہیں بچ سکتا۔ یہ دونوں ہی نتیجے پچھلی قومیں دیکھ چکی ہیں۔ ہندوؤں نے اپنے انبیاء کی سیرتوں کو گم کیا اور صرف کتابیں لے کر بیٹھ گئے۔ انجام یہ ہوا کہ کتابیں ان کیلئے لفظی گورکھ دھندوں سے بڑھ کر کچھ نہ رہیں، حتیٰ کہ آخر کار خود انھیں بھی وہ گم کر بیٹھے۔ عیسائیوں نے کتاب کو نظر انداز کرکے نبی کا دامن پکڑا اور اس کی شخصیت کے گرد گھومنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی چیز انھیں نبی اللہ کو ابن اللہ بلکہ عین اللہ بنانے سے باز نہ رکھ سکی۔
پرانے ادوار کی طرح اس نئے دور میں بھی انسان کو نعمت اسلام میسر آنے کے وہی دو ذرائع ہیں جو ازل سے چلے آرہے ہیں۔ ایک خدا کا کلام جو اب صرف قرآن پاک کی صورت ہی میں مل سکتا ہے۔ دوسرے اسوۂ نبوت جو اب صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک ہی میں محفوظ ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اسلام کا صحیح فہم انسان کو اگر حاصل ہوسکتا ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ قرآن مجید کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید سے سمجھے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی مدد سے جس نے سمجھ لیا، اس نے اسلام کو سمجھا؛ ورنہ فہم دین سے بھی محروم رہا اور نتیجتاً ہدایت سے بھی۔
پھر قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں چونکہ ایک مشن رکھتے ہیں۔ ایک مقصد و مدعا کو لئے ہوئے آئے ہیں، اس لئے ان کو سمجھنے کو انحصار اس پر ہے کہ ہم ان کے مشن اور مقصد و مدعا کو کس حد تک سمجھتے ہیں۔ اس چیز کو نظر انداز رکرکے دیکھئے تو قرآن عبارتوں کا ایک ذخیرہ اور سیرت پاک واقعات و حوادث کا ایک مجموعہ ہے۔ آپ لغت اور روایات اور علمی تحقیق و کاوش کی مدد سے تفسیروں کے انبار لگا سکتے ہیں اور تاریخی تحقیق کا کمال دکھاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپؐ کے عہد کے متعلق صحیح ترین اور وسیع ترین معلومات کے ڈھیر لگا سکتے ہیں مگر روح دین تک نہیں پہنچ سکتے؛ کیونکہ وہ عبارات اور واقعات سے نہیں بلکہ اس مقصد سے وابستہ ہے جس کیلئے قرآن اتارا گیا اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی علمبرداری کیلئے کھڑا کیا گیا۔ اس مقصد کا تصور جتنا صحیح ہوگا اتنا ہی قرآن اور سیرت کا فہم صحیح اور جتنا وہ ناقص ہوگا اتنا ہی ان دونوں کا فہم ناقص رہے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید اور سیرت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام، دونوں ہی بحر ناپیدا کنار ہیں۔کوئی انسان یہ چاہے کہ ان کے تمام معانی اور فوائد و برکات کا احاطہ کرلے تو اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ جس چیز کی کوشش کی جاسکتی ہے وہ بس یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو آدمی ان کا زیادہ سے زیادہ صحیح فہم حاصل کرے اور ان کی مدد سے روحِ دین تک رسائی پائے۔
ان سطور سے میرا مقصد نعیم صدیقی صاحب کی کتاب پر کوئی تقریظ یا تنقید لکھنا نہیں ہے، وہ جتنی اور جیسی داد کی مستحق ہے، انشاء اللہ ناظرین خود دیں گے اور اس کے عیب و صواب سے بھی علم و بصیرت والے ناواقف نہ رہیں گے۔ میرے پیش نظر صرف یہ ہے کہ نعیم صاحب نے ایک طویل مدت تک محنت شاقہ برداشت کرکے سیرت پاک کے چشمۂ صافی سے خلق خدا کو سیراب کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس میں کچھ تھوڑا سا حصہ لے کر میں بھی کسی حد تک سعادت کا مستحق بن سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کی کتاب پڑھنے سے پہلے ہر ناظر اچھی طرح سمجھ لے کہ سیرتِ پاک کا مطالعہ اس کو کس مقصد کیلئے اور کس نقطۂ نظر سے کرنا چاہئے۔ اس کے بعد مجھے امید ہے کہ نعیم صاحؓ کی محنت سے لوگ زیادہ بہتر طریقہ سے مستفید ہوسکیں گے۔

تبصرے بند ہیں۔