سیرت اور مستشرقین

محمد عمیر الصدیق دریا بادی، ندوی

استشراق اور مستشرقین کی تاریخ کیا ہے؟ یہ کون ہیں؟ مقصد کیا ہے ؟ اب ان سوالوں کا جواب زیادہ مشکل نہیں رہا ، ایک صدی پہلے ان سوالوں کی ضرورت زیادہ تھی اسی لیے علامہ شبلیؒ نے جن کو قدرت نے وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سمجھنے کی خاص صلاحیت یا نعمت بخشی تھی ، انہوں نے اردو کے جہان علمی و اسلامی کو غالباً پہلی بار اس تفصیل سے آگاہ کیا کہ مستشرقین تین قسم کے ہیں:
ایک وہ جو عربی زبان اوراسلامی علوم کے اصل مآخذ سے واقف نہیں ، ان لو گوں کا سرمایۂ معلومات ثانوی کتابیں اورترجمے ہیں، یہ لو گ مشتبہ ، ناقص مواد کو قیاس اوراپنی طبیعتوں کے میلان میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔
دوسری قسم میں وہ لو گ ہیں جو عربی زبان، علم و ادب ، تاریخ اور فلسفۂ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں لیکن مذہبی ادب اور سیرت کے فن سے آشنا نہیں ، یہ سیرت یا مذہب پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھتے لیکن عربی دانی کے زعم میں اسلام اور پیغمبراسلا م کے متعلق جو چاہتے ہیں لکھ جاتے ہیں ، شبلی نے مثال کے طور پر جرمنی کے مشہور فاضل ساخو کا نام لیا جس نے طبقات ابن سعد شائع کی ، اس کی وسعت معلومات اور عربی دانی کا انکار کسی نے نہیں کیالیکن شبلی کہتے ہیں کہ جب یہی ساخو اسلامی امور کے متعلق باتیں لکھتا ہے تو پڑھ کر بھول جانا پڑتا ہے کہ یہ وہی محترم شخص ہے یا کوئی اور؟ اسی دوسری قسم کے مستشرقین کی درجہ بندی میں بطور مثال علامہ شبلی نے نولدیکی کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ اس نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا لیکن انسائیکلو پیڈیامیں قرآن پر جواس کا آرٹیکل ہے جا بجا نہ صرف اس کے تعصب بلکہ اس کی جہالت کے رازِپنہاں کی پردہ دری بھی کرتا ہے ۔
تیسری قسم کے مستشرقین وہ ہیں جنہوں نے خاص اسلامی اور مذہبی ادب کا کافی مطالعہ کیاہے یعنی یہ مستشرقین کی سب سے اعلیٰ قسم کے لو گ ہیں ، شبلی نے اس طبقہ میں پامر اور بار گولیوتھ کانام بطور مثال لیاہے ، ایسوں سے بقول شبلی ہم کچھ امید کر سکتے تھے لیکن عربی دانی ، کثرت مطالعہ اور تفحص کتب کے باوجود ان کا یہ حال ہے کہ ع
دیکھتا سب کچھ ہوں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ جب بھی استشراق و مستشرقین پر گفتگو کی جائے گی تو تفصیل و تشریح جو بھی ہو متن یہی ہو گا جوآج سے سو سوا سو سال پہلے شبلی نے پیش کر دیا تھا ۔
تاہم استشراق کی تاریخ کا مطالعہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے کہیں زیادہ اہم ہے اور یہ فطری بھی ہے ، کوئی تحریک ہو یا مکتب فکر ہو اس کے ادب کے مطالعہ میں اس تحریک یا مشن کی تاریخ اگر پیش نظر ہوتو پھر اس کے ادب کے حسن و قبح اور اس کے نتائج و ثمرات کی قیمت کا اندازہ کرنے میں غلطی کا امکان کم رہتا ہے ۔
اب یہی استشراق یا تحریک استشراق کا معاملہ ہے ، کہا گیا کہ اس کا دائرۂ کار اور طریقۂ عمل جدا جدا ہوتا ہے مگر اس کا خاص رخ اور مطمح نظر مخصوص مصالح و مقاصد پر مبنی ہوتا ہے اس لیے اس کا معاملہ کبھی انفرادی اور کبھی اجتماعی ہوتا ہے ، کبھی و ہ حکومت کے زیر سایہ بھی اپنے فرائض انجام دیتاہے لیکن استشراق کے متعلق دور جدید کا یہ نظریہ آمنّا زیادہ مکمل نہیں ہے۔
ہم کو استشراق کی تاریخ کے واقفیت میں یہ بات اچھی لگی اور یہ ایک ایسے عالم کی زبان سے تھی جس نے براہ راست مستشرقین کو دیکھااور پر کھا ، انہوں نے جب اسلام اور مستشرقین پر بحث کی تو کہا کہ اسلام ، اسلامی تاریخ اور امت مسلمہ کی رہبری کا سرچشمہ چونکہ قرآن مجید ہے اس لیے اسلام اور مستشرقین کے مطالعہ میں بھی اسی مصدر کی جانب رجوع کیا جانا چاہیے۔
یہ توظاہر ہے کہ مستشرق کی لغوی تشریح یا باب استفعال کے خواص کی تعیین وغیرہ عام قاری کے لیے افادیت کی سے خالی نہیں لیکن جب قرآن مجید میں وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَاالنَّصٰرٰی(البقرہ:120)، وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْابِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْٓااٰیٰتِیْ وَمَآاُنْذِرُوْا ھُزُوًا وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ(الکہف:56،57) الخ جیسی رہنما آیتیں موجود ہوں تو استشراق کے کار و طریقۂ کار کی پہچان کے لیے کسی اصطلاحی تعریف کی ضرورت نہیں رہتی ۔
یہ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اگر چہ آٹھویں صدی کے جان آف دمشق، نویں صدی کے تھیوسوفین اور پھردسویں گیارہویں صدی میں سینٹ یولوجیس ، قرطبہ کا پوپ اور سان پروڈو پاسکل، یہ بھی مرحوم اندلس کا فیض یافتہ تھا ، ان دونوں نے اسلام کے خلاف بقول ایک محقق کے حیوانی زبان استعمال کی ، تیرہویں صدی میں ان ہی جیسے لوگوں کی بھڑکائی آگ کو ونسنٹ ڈی بیوس نے اور ہوا دی لیکن عربی دانی کے نام پر اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف مغرب کے مسیحیوں کا نقطہ عروج وہ صلیبی جنگیں ہیں جو پندرہویں صدی تک جاری رہیں ،صحیح کہا گیا کہ ان صلیبی جنگوں اور خون آشامیوں کا تعلق مستشرقین سے بڑا گہرا ہے ، اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مستشرقین کے نام سے جو گروہ وجود میں آیا اور جس کے بارے میں علامہ شبلی کے خیالات سامنے آئے وہ دراصل ان جذبات و خیالا ت کا لازمی نتیجہ تھے جن کی ترجمانی پٹیر ، رابرٹ ، ہر من ، والٹر، الکژنڈر ، بشپ سر گیس اور ولیم آف ٹریپولینے کی ، اسی فہرست میں دانتے کا نام ہے جو اٹلی کا مشہور شاعر ہے جس کی ڈیوائن آف کامیڈی نے اسلام دشمنی کو فروغ دینے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ، کہتے ہیں کہ دانتے پر صلیبی جنگوں کی ناکامی و شکست کا ایسا اثر تھا کہ اس نے سارے یورپ کو اپنی شعری قوت سے ہلادیا ، پندرہویں صدی کو مسیحی یورپ کی نشأۃ ثانیہ کا دور کہا جا تا ہے ، اس نشأۃ ثانیہ کے طفیل میں انیسویں صدی کے اوائل تک ایک اور طاقتور تحریک رومانی تحریک کے نام سے برپا ہوئی جس نے یورپ کی روایات کہنہ کو چیلنج کیا اور زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا ، نئے خیالات پر مبنی انقلاب انگیز تحریکیں اس طرح سامنے آئیں کہ رومی اور یونانی تہذیب سے آزادی حاصل کرکے خود مغربی تہذیب کی ایک نئی داغ بیل رکھی گئی ، سب کچھ ہوا مگر اسلام کے متعلق مغرب کے رویہ میں کوئی فرق نہیں آیا ، یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ سترہویں صدی سے وہ دور شروع ہوا جب مغربی قوتوں نے عالم اسلام پر قبضہ و تسلط کی مہم شروع کی ، قبضے ہوتے رہے او ر سیاسی و معاشی لوٹ مار کے ساتھ اسلامی علوم و فنون جو مسودات و مخطوطا ت کی شکل میں تھے اسی لو ٹ مار کا شکار بنے اور یہ مغرب کے کتب خانوں اور میوزیم کی زینت بن گئے ، ان مصادر اسلامی نے مغربیوں کو از سر نو عربی پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک دی ، بڈول ، اینڈری ، بیکاک، ہمفرے ، ریلان اسی تحریک کی پیدا وار تھے مگر انقلاب کے اس دور میں بھی یہ سب اسی طرز پر قائم رہے جو صدیوں کی روایت یعنی اسلام دشمنی سے عبارت تھی ، اٹھارہویں صدی میں جارج سیل ، راڈول بولین و لیرالڈ ورڈگبن ، والٹری ، رینان یہ سب مستشرقین کے دور اول کے نمائندوں کی شکل میں آئے اور جب انیسویں صدی کا آغا ز ہوا تو پتہ چلا کہ خلف اپنے سلف سے زیادہ متعصب اور زہر آلوود ثابت ہوئے ، کار لائل ، گسٹاویل ، ثوری ، روزنتھال ، ولیم میور ، اسیرتگر ، گولڈز بہر ، کیتالی ، ٹوائن بی ، بلدشیر ، گب مانٹ گوری واٹ یعنی بیسویں صدی تک نام بدلتے رہے لیکن روح میں کہیں تبدیلی نہیں آئی۔
یہ روح کیا تھی ؟ اس کا مختصر ترین جواب یہی ہے کہ اسلام ،پیغمبر اسلام اوراہل اسلام کے لیے شدید نفرت و تعصب ، اس عموم میں خصوص یہ ہے کہ ان چودہ صدیوں میں ان مسیحی مفکروں ، دانشوروں اور اہل قلم کے حملوں کانشانہ خاص طور پرقرآن مجید اورحامل قرآن یعنی رسول اللہؐ کی ذات مبارکہ رہی ، جان آف دمشق نے جو آگ بھڑکائی تھی اس کا سب سے بڑا ایندھن یہی پیغمبر دشمنی تھی جس نے نعوذ باللہ رسول اللہؐ کو بے دین ، جھوٹا ، خود ساختہ معبود قرار دیا ، یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر کیا کچھ نہیں ہو ا ، حضورؐ کے نام ، نسب تک کو انتہائی بے شرمی سے مطعون کیا گیا ، ہم تو وہ الفاظ بھی نقل نہیں کر سکتے جو ان ظالموں نے دشمنی کے جوش میں ادا کیے ، نبوت و رسالت کے متعلق بھی کہا گیا کہ یہ طویل خو د خیالی تھی ، وحی محض ایک ڈھونگ تھی ، اعصابی امراض اور فریب حسی کا شکار تھے ، مسیحی تعلیمات کو اسلام بنا کر پیش کیا ، کارہائے نبوت کو یوں لکھا کہ یہ دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئی تھی ، اسلام کو یہودیت سے بدلنے کی کوشش کی ، خود کی پرستش کی دعوت دی ، غزوات محض لوٹ مار اور عر بوں کی غربت و تنگ دستی دور کرنے کا ذریعہ تھے ، قیصر عرب تھے ، محض سیاسی لیڈر تھے ، مجذوب تھے ، قزاقوں کے سردار تھے ، موقع پرست تھے ، تہذیب و تمدن ، حریت و آزادی اور سچائی کے بدترین مخالف تھے ، ضدی و سر کش تھے وغیرہ وغیرہ ، ان دعووں کے لیے کوئی ثبوت نہیں ، کوئی معروضی تجزیہ نہیں ، بس ایک نشہ تھا جو مغرب کے ان مسیحیوں اور بعد میں ان سے مل جانے والے یہودیوں کے سر میں تھا۔
جب تک یہ نشہ اور اس کے اثرات یورپ میں رہے وہ متعدی نہیں ہوئے تھے لیکن جب عالم اسلام ان مسیحیوں کے زیر تصرف آیا تو پھر گالیوں کو علمی انداز میں بدل کر دینے کا نیا فن ایجا د ہوا ، عرب او ر ہندوستان میں یہ فتنہ خاص طور سے بر پا کیا گیا ، ظاہر ہے کہ اس ساری تدلیس و تلبیس کا مقصد صر ف یہی تھا کہ مسلمانوں کو اسلام سے بر گشتہ کرکے عیسائی دنیا بنا یا جائے ، عیسائیوں کی تبلیغی مساعی مشنری کی صورت میں جب ظاہر ہوئیں تو اول او ل اس مقابلہ کے لیے مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا محمد علی مونگیری ، ڈاکٹر وزیر خاں ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی مناظروں اور بحثوں کے ساتھ سامنے آئے لیکن علمی انداز میں مسیحی مبلغوں کا جوہراول دستہ مستشرقین کی صورت میں سامنے آیا اس کے جواب کے لیے سر سید احمد خاں کی حیثیت پیشر و کی ہے ، ولیم میور کی کتاب لائف آف محمد آئی تواس کا جواب لکھنے کے لیے سر سید جس طرح بے چین رہے اس کا ایک اندازہ حیات جاوید سے کیا جاسکتا ہے ، ایک خط میں محسن الملک کو انگلستان سے لکھا اور یہ بر طانیہ کا سفر بھی اسی کتاب کے جواب کے لیے تھا ، لکھا کہ ۔۔۔ولیم صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں اس لیے دل کو جلادیا اور اس کی ناانصافی اور تعصبات کو دیکھ کر دل کباب ہو گیا ، مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرتؐ کی سیرت میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا ، کتاب لکھ دی جائے ، اگر تمام روپیہ خر چ ہو جائے اور میں فقیر اور بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے ، سر سید کی آرزو پوری ہوئی اورانہوں نے خطبات احمدیہ کے نام سے یہ کتاب لکھی ، یقیناًیہ کتاب مستشرقین کے حملوں کے جواب میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے ، اس کتاب کی اہمیت کیا ہے اس کا اندازہ اس کے پڑھنے سے ہوتا ہے لیکن ایک مسیحی نے جو کہا وہ خود وہی فضل ہے اور اصل فضل ہے جو دشمن کی زبان سے ادا ہو ا کہ ’’جو کام سید احمد خاں نے اسلام کی حمایت کا کیا ہے وہ آج تک کسی مسلمان سے بن نہیں آیا ۔‘‘
لیکن معاملہ صرف ولیم میور کی ایک کتاب کا نہیں تھا ، استشراق کے پورے فتنہ کی سرکوبی کا تھا اور اس کام کے لیے قدرت نے علامہ شبلی کا انتخاب کیا ، کہا گیا ہے کہ علامہ شبلی کو یہ تقدم بھی حاصل ہے کہ انہوں نے محض چند مستشرقین کی انفرادی کوششوں کو ہی نشانۂ تنقید نہیں بنا یا بلکہ انہوں نے پورے گروہ مستشرقین کو اپنے سامنے رکھا جو اسلام اور علوم اسلامیہ پر بالعموم اور سیرت رسولؐپر بالخصوص طبع آزمائی کر رہا تھا ، مولانا سید سلیمان ندویؒ کا یہ جملہ تو ضرب المثل بن گیا کہ ایسے یعنی مستشرقین جیسے ہوش مند حریفوں کے مقابلہ کے لیے ساری دنیا ئے اسلام سے جو شیر دل اسلام کی صف میں سب سے پہلے نکلا وہ مولانا شبلیؒ ہی تھے جنہوں نے ان ہی کے طریقے پر ، ان ہی کے اسلوب پر ان کو جواب دینا شروع کیا اور بتایا کہ اسلا م کے فیض و بر کت کی فرح بخش ہواؤں نے دنیا کے علم و تمدن کی بہاروں کو کیسے دوبا لاکردیا۔

تبصرے بند ہیں۔