سیکولراز م کی تباہ کاریاں اور آج کا معاشرہ

سیکولر ازم لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لادینیت اور اور لا مذہبیت کے ہیں ۔یہ لفظ (Religion) کی ضدہے۔ کیمبرج انگلش ڈکشنری میں سیکولرازم کی تعریف یوں کی گئی ہے ’’ سیاسی و معاشرتی معاملات میں مذہب کی عدم مداخلت کا نام سیکولرازم ہے ‘‘۔امریکن ہیری ٹیج ڈکشنری کے مطابق’’مذہبی قانون کے بغیر اجتماعی معاملات کو چلانے کانا سیکولرازم ہے ‘‘۔دیگر معروف ڈکشنریوں میں بھی سیکولرازم کی تعریف مذکورہ تعریفوں سے مختلف نہیں ہے ۔سیکولراز م کی اصطلاح کو باضابطہ پہلی بار 1846 ء میں متعارف کرانے والا پہلا شخص برطانوی مصنف جارج جیک اپ ہولیوک تھا۔جارج نے اپنے ایک لیکچر کے دوران ایک سوال کے جواب میں عیسائی تعلیمات کا تمسخر کیا جسکے نتیجہ میں اسے چھ ماہ کی سخت سزا بھگتنا پڑی ۔اسکے بعد جارج مسلسل عیسائی مذہب کی تعلیمات کے خلاف الگ الگ جگہوں پر اظہار خیال کرتا رہا ۔چونکہ عیسائیت کے خلاف اپنے متشدد اور جارح مزاج کی بنیاد پر وہ معتوب ہوچکا تھا لہذا رہائی کے بعد اس نے سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہوئے عیسائیت کے خلاف ’’ سیکولرازم ‘‘ کی اصطلاح وضع کی جسکا استعمال وہ اپنے ہر لیکچر میں کرتا تھا ۔اس اصطلاح کے عام ہونے کے بعد سیکولرازم کے معنی و مفاہیم کی مختلف تفاسیر پیش کی گئیں ۔مثلا ابتدائی معنی یوں بیان کئے گئے’’ دنیاوی امور کا تعلق مذہب اور خدا سے نہیں ہوتا‘‘۔ اور ’’ حکومتی معاملات میں مذہب کی دخل اندازی غیر منطقی ہے ‘‘۔یعنی مذہب اور خدا کا وجود فقط انفرادی زندگی تک محدود ہے اجتماعی نظام زندگی میں ان دونوں کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔آج بھی سیکولرازم کے جتنے معنی بیان کئے جاتے ہیں وہ اس تعریف سے جدا نہیں ہیں ۔لبرل ازم کے برعکس سیکولرازم ایک نرم اصطلاح ہے جو مفکرین اور عوام کے لئے پرکشش رہی ہے۔
سیکولرازم کی بنیاد و اسباب و علل:
یوروپ میں جس طرح کلیسا نے مذہب کے نام پر تنگ نظری ،تعصب ،تحقیق و جستجو پر قدغن اور آزادی پر پابندی عائد کی اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ مذہب کے مخالف ہوگئے ۔کلیسا نے عوام کو عیسائیت کی اندھی تقلید پر مجبور کیا ،عقل و منطق اور سائنس کی مخالفت کی اور عوام پر اپنے خود ساختہ نظریات کو تھوپنے کی کوشش کی ۔کلیسا خود عیسائیوں کے ذہنوں میں اٹھتے ہوئے سوالات کے جواب دینے سے قاصر تھا اور اس طرح کلیسا یعنی مذہب کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں لاوا ابلنے لگا ۔یہ لا وامختلف غیر مذہبی نظریات کی شکل میں سامنے آیا جن میں سیکولرازم،لبرل ازم،کیپٹل ازم اور کمیونزم جیسے نظریات شامل ہیں۔سیکولرازم کی تحریک یورپ میں اسلام کی بڑھتی مقبولیت اور نوجوان نسل میں اسلامی قانون،تہذیب و تمدن اور نظام حیات کی تاثرپذیری کے نتیجہ میں وجود میں آئی ۔سیکولرازم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے ۔جسکا مقصد حقوق انسانی(Human Rights) مساوات(Equation) آزادی(Freedom) ،اور تعلیم (Education) کے نام پر دین کو تمام شعبہ ہائے حیات سے نکال دینا ہے ۔یہ تحریک انسانی زندگی میں مذہب کی بالادستی کے خلاف ہے ۔مادیت کے فروغ اور روحانیت کے زوال کا نام ہے ۔سیکولر ازم کے بانیان نے ہی یہ فکر دی کہ دین انسان کی آزادی کے خلاف ہے ۔مذہب انسانی زندگی کی بہتری کے لئے کوئی مضبوط لائحۂ عمل پیش نہیں کرتا ہے اور نہ اسکے پاس کوئی ایسا نظام حیات ہے جو انسان کی معاشی ،اقتصادی اور دیگر مشکلات کا حل پیش کرسکے ۔ساتھ ہی انکا نعرہ تھا کہ مذہب کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔کیونکہ مذہب نظام حیات اور قانون کے نام پر فقط انسان کی شخصی و سماجی آزادی پر قدغن لگاتا ہے ۔اسکی ترقی میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے لہذا مذہب کی پیروی اجتماعی نظام میں ضروری نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی افراد کی سیاست میں دخالت پر پابندی عائد کردی گئی ۔گویا سیاست مذہبی حدود و قیدود سے آزاد ہوگئی۔جس وقت یوروپ میں اسلامی تعلیمات کا اثرو رسوخ عام ہوا اور آبادی کا بڑا تناسب مذہب اسلام کی تعلیمات اور علمی و سماجی ترقی کے زیر اثر آیا تو اسلام مخالف طاقتوں کو تشویش ہوئی ۔ اس وقت کلیسا اور پادریوں کے تحکمانہ مزاج،خود پرستانہ رویوں،جذب�ۂ ایثار سے دوری،تعصب ،تنگ نظری ،تحقیق و تعلم کی خلاف ورزی نے عوام کو اسلام کے قریب کیا ۔مگر ماسونیت اور صہیونی و سامراجی طاقتوں نے اس انقلاب کو دوسرا رخ دیدیا۔یعنی عیسائیوں کے اذہان میں یہ راسخ کردیا گیا کہ انکی پسماندگی اور تنزلی کی وجہ عیسائیت ہے ۔اگر وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ترقی چاہتے ہیں تو مذہب کی زنجیروں کو سیکولر ازم کی آگ میں پگھلا دینا ضروری ہے ۔اس طرح جو نسل اسلامی تعلیمات سے قریب ہورہی تھی اسے لادین بنادیا گیا۔لہذا سترہویں صدی میں اہل مغرب نے اپنی آزادی کا نعرہ بلند کردیا ۔یہ آزادی در اصل کلیسا کے دقیانوسی نظام ،اور علمی و تحقیقی پابندیوں ست آزادی کا نعرہ تھا ۔
سیکو لر ازم کی فکری بنیادیں :
سیکولر ازم مذہب کو انسانی زندگی پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دیتا ۔سیکولر ازم خود ایک مکمل نظام حیات کا نظریہ پیش کرتا ہے اور مذہب کی بالادستی کے خلاف ہے ۔سیکولرازم تمام اجتماعی معاملات کو عقل کی بنیاد پر حل کرنے کی بات کرتاہے ۔وہ انفرادی زندگی میں تو خدا کو ماننے کی اجازت دیتاہے مگر اجتماعی معاملات کو خدا ئی نظام کے حوالے کرنے کا مخالف ہے ۔سیکولرازم مذہب کو اپنا تابع دیکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے دنیا کے اکثر مذاہب سیکولرازم کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں جن میں عیسائیت،بد ھ ازم ،ہندو مت،یہودیت جیسے بڑے مذہب شامل ہیں ۔اس خودسپردگی کی دو بڑی وجہیں ہیں ۔ایک تو یہ کہ سیکولر طبقے کے ہاتھوں میں ریاستی قوت کا چلے جانا۔دوسرے یہ کہ ان مذہبوں میں اجتماعی معاملات کی رہنمائی کے لئے کسی مکمل دستو ر کا نہ ہونا۔سیکولر مفکرین کا ماننا ہے کہ مذاہب فقط اخلاقی اصولوں کا مجموعہ ہیں۔ان میں بھی انسانوں نے اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کرلی ہے اور اب بھی ان اصولوں میں ترمیم و تنسیخ کی گنجائش موجود ہے ۔سیکولرازم کے فروغ کی بنیاد پر اشتراکی نظام میں مذہب کو افیون سے تعبیر کیا گیا ۔
سترہویں صدی سے انیسویں صدی کے درمیان مذہب بیزار اسکالرز،فلسفیوں اور سائنسدانوں نے مختلف تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی تاکہ وہ باآسانی اپنے نظریات کی تبلیغ کرسکیں ۔یہی وہ زمانہ تھا کہ جب یوروپ میں علمی و سائنسی ترقی ہوئی ۔مگر مسلم ممالک اپنے حکمران طبقہ کی عیاشیوں،خانہ جنگیوں اور تنگ نظریوں کی بنیاد پر علمی و سائنسی میدان میں پسماندہ رہے۔سائنسی ترقی کی بنیاد پر یوروپ نے پوری دنیا پر اپنی کامیابی اور فتح کا پرچم لہرادیا ۔مفتوحہ ممالک میں تعلیمی ادارے قائم کئے جہاں و ہ آزادی کے ساتھ اپنے نظریات کی ترویج کرسکیں ۔یہ ممالک سائنسی و و تعلیمی میدان میں ترقی نہیں کرسکے مگر سیکولر نظریات کی تبلیغ کا اہم مرکز قرار پائے ۔اس طرح یوروپی نظام فکر ،مذہب و خدابیزاری کے نظریات پوری دنیا میں عام ہوتے رہے ۔
سیکولرازم کی ترویج و ترقی میں کئی اہم مفکر شامل حال رہے جن میں ڈارون جیسا اسکالر بھی ہے ۔ڈاروان نے ’’ نظریۂ ارتقاء‘‘ پیش کیا جو اسلامی تعلیمات اور عقل و منطق کے مخالف نظریہ تھا مگر اس نظریہ کی تشہیر اس طرح کی گئی کہ آج تک ’’ نظریۂ ارتقاء ‘‘ کی تردید کے سائنسی جواز تلاش نہیں کئے جاسکے ۔ڈارون کے بعد فرائڈ نے ’’ نظریۂ جنسیت ‘‘ پیش کیا ۔ڈارکایم نے ’’ نظریۂ عقلیت ‘‘پیش کیا،سارتر نے ’’ نظریۂ وجودیت‘‘ دیاایڈم اسمتھ نے ’’ نظریۂ کیپٹل ازم‘‘ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی تصدید کی ۔کارل مارکس نے ’’ کمیونزام ‘‘ کی بنیاد ڈالی جو گذشتہ تمام مادی افکار کا نظریاتی نچوڑ تھا ۔مشرق میں ان نظریات کی ترویج و اشاعت کا بیڑا کمال اتاترک ،طہ حسین،جمال عبد الناصر،انور سادات ،علی پاشا ،غلام پرویز ،غلام قادیانی اور سرسید جیسے مفکر وں نے اٹھایا ۔مشرق میں ان مفکرین کے خلاف روحانی طبقہ نے آواز احتجاج بلند کی مگر چونکہ سیکولر نظریات کی تخریب کاریوں اور داخلی برائیوں سے عوام با خبر نہیں تھی لہذ ا یہ احتجاج صدا بہ صحرا کی مثال بن گیا۔
سیکولرازم کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ روحانی افراد عوام میں بے اعتبار ہوتے گئے ۔انہیں’’ مذہبی انتہا پسند ‘‘’’ فرسودہ نظام کا حامی ‘‘ روایت پسند‘‘ ’’ تحقیق و سائنس کے مخالف‘‘ اور ’’دقیانوس‘‘ جیسے ناموں کے ذریعہ پکارا جانے لگا ۔در اصل یہ پورا پروپیگنڈہ سیکولر مفکرین کا تیار کردہ تھا کیونکہ اگر روحانی طبقہ پر عوام کا اعتبار اسی طرح قائم رہتا تو انکے نظریات کی ترویج و اشاعت ممکن نہیں تھی ۔لہذا اس تحریک نے پہلا کام یہ کیا کہ عوام میں روحانی طبقہ کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا جسکا شکار آج تک ہمارا سماج ہے ۔آج بھی مختلف شعبوں سے وابستہ مفکرین اور اسکالرز روحانی طبقہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں یہ نظریاتی تخریب کاری سیکولرازم کی سرد جنگ کا اہم حصہ ہیں ۔
سکولرائزیشن: سیکولرائزیشن کے حامیوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کلیسا حکومت سے الگ ہے ۔یعنی روحانی و مذہبی پیشواؤں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔قرون وسطیٰ میں کیونکہ حاکمیت کلیسا کے پاس تھی لہذا نظریہ کی مقبولیت کے بعد نئے نظام میں دونوں کے راستے جدا ہوگئے ۔اس نظریہ کے تحت اگر مذہبی پیشوا حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں یا مذہب کی بالادستی کے لئے جد و جہد کرتے ہیں تو انکی توبیخ سختی کے ساتھ کی جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ روس اور دیگر ممالک میں مذہب کو ماننے والوں پر سخت مظالم ڈھائے گئے ،لاکھوں افراد کا بہیمانہ قتل کیا گیا ،عبادتگاہیں مسمار کی گئیں ،مذہبی تعلیم کو سماج کے لئے خطرہ قرار دیا گیا اور پابندی عائد کی گئی ،کم و بیش یہی حال یوروپی ممالک کا بھی ہے مگر یوروپ میں مذہب کا مکمل طورپر بائیکاٹ نہ ہوسکا۔اسلامی ممالک میں بھی سیکولر ازم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا مگر وہاں مذہب کی بالادستی ختم نہیں کی جاسکی لیکن سیاست کو مذہب سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک بھی خود کو اسی سیکولرازم کا حصہ سمجھتے ہیں جسکا نعرہ خدا بیزار لا مذہب مفکرین نے پیش کیا تھا۔
سیکولرازم سیاسی: سیکولراز م کو آج اسی معنی میں استعمال کیا جاتاہے ۔اسکا مطلب ہے کہ دین سیاست سے الگ ہے ۔یعنی دین کے پاس سماج کو چلانے کا کوئی معقول نظام نہیں ہے ۔اگر ہم اس بات کے قائل ہوں کہ دین کے پاس سماج کو چلانے کا بہتر نظام موجود ہے تو ہمیں سیکولراز م کا مخالف سمجھا جائیگا ۔جیسا کہ اسلام نے سماج کی بہتری اور حکومت کو چلانے کے لئے نظریہ عدالت پیش کیا،حق تلفی کو منع کیا،اخلاق و اقدار کی پاسداری سکھائی ،مگر اسکے باوجود مفکرین اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام نے سماج اور حکومت کو چلانے کا کوئی مکمل نظام نہیں دیاہے ۔سیکولراز م سیاسی کے نظریہ کو مسلمان مفکرین اس لئے تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس نظریہ کے تحت وہ ہر ملک کی حکومت کے قانون کا احترام کرسکتے ہیں ۔
سیکولرازم فلسفی : یہ لوگ اپنی زندگی میں خدا کے وجود کے قائل نہیں ہیں ۔یا اسکے وجود کو اہمیت نہیں دیتے ہیں۔یہ نظریہ سیاہ رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی طرح رینگتا ہوا شرک ہے ۔موجودہ صدی اسی لئے بحران کا شکار ہے کہ ہم خدا کے وضع کردہ اصولوں کے مطابق کائنات کو چلانے کے خلاف ہیں ۔جس ریاست میں خدا کا تصور ہی نہ ہو واسکے یہاں الہی نظام حیات کا کیا تصور ہوسکتا ہے ۔
سیکولرازم اور اسلام : اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے ۔قرآن نے اپنی ہمہ گیریت اور آفاقیت کا خود اعلان یہ کہکر کیاہے کہ ’’ ہر خشک و تر اس کتاب میں موجودہے ‘‘ ۔قرآن کریم کی آیتوں اور سنت پیغمبرؐ کی روشنی میں فقہاء نے تحقیق و تدبر کے بعد انفرادی و اجتماعی نظام کی منصوبہ بندی کی اور قوانین اسلام کو دنیا کے سامنے منظم صورت میں پیش کیا ۔اسلام سیکولرفکروں کی سختی کے ساتھ نفی کرتا ہے ۔اسکا دعویٰ ہے کہ اس سے بہتر نظام حیات اور دستور کائنات کسی دوسرے کے پاس موجود نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر مذاہب سیکولر ازم کے آگے مغلوب ہوگئے مگر اسلام آج بھی سیکولر ازم کے لئے بڑا خطرہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سیکولر مفکرین جو اسلام سے تصادم نہیں چاہتے ہیں وہ درمیانہ روی اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیکولر ازم مذہب سے متصادم نہیں ہے کیونکہ سیکولر ازم نظام حیات نہیں ہے محض نظام حکومت کانام ہے ۔مولانا وحید الدین خان بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ،وہ ’’ مسائل اجتہاد‘‘ میں لکھتے ہیں’’حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم کوئی مذہبی عقیدہ نہیں،سیکولرازم کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ مذہب کے بار ے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنا ہے ۔یہ ایک عملی تدبیر ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ مذہبی نزاع سے بچتے ہوئے سیاسی و اقتصادی امور میں مشترک بنیاد پر ملک کا نظام چلایا جائے ‘‘۔اگر وحید الدین خان کے نظریہ کو وقتی طور پر تسلیم کرلیا جائے تب بھی سوال اپنی جگہ قائم رہتاہے کہ آخر کس سیکولر حکومت میں مذہبی نظام کے اشتراک کے ساتھ اجتماعی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔وہیں بڑا سوال یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی اختیار کرنے کا مطلب کیاہے ؟کیا مذہب بجائے خود غیر جانبدای کی دعوت نہیں دیتاہے ۔اسلام کا فلفسۂ عدالت اور احکام حقوق اسی مسئلے کا حل پیش کرتے ہیں تو پھر سیکولر ازم کے نام پر ایک الگ نظام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ۔آیا سیکولر نظام کے نفاذ کے بعد مذہبی انتہا پسندی کو عروج نہیں ملا ہے ۔یہ مذہبی انتہا پسندی اور ہر مذہب کے افراد کا اپنے حقوق کے لئے آواز احتجاج بلند کرنا سیکولر ازم کی ناکامی کی دلیل نہیں ہے ۔ریاست کوئی بھی ہو اور کسی بھی زمانے میں قائم رہی ہو کیا اسکا دستور اور نظام سیکولر نہیں تھا ۔اسلام کے آغاز کے ساتھ ہی جس ریاست کا تصور پیش کیا گیا اس ریاست میں بھی مذہب کی بنیاد پر حقوق کی تقسیم نہیں رکھی گئی تھی ۔لہذا سیکولر از م کا جو تصور پیش کیا جارہا ہے وہ در اصل لا مذہبیت کا تصور ہے ۔
بعض اسلامی مفکرین کا خیال ہے کہ سیکولرازم ایسی حکومت کا تصور پیش کرتاہے جسکا ریاستی سطح پر کوئی مذہب نہ ہو ۔جہاں کسی ایک مذہب کی ترقی اور اسکے ماننے والوں کی خدمت حکومت کی ذمہ داری نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر مذہب اور ہر نظریے کے افراد کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرتی ہو۔بظاہر یہ نظریہ معتدل ہے مگر یہاں بھی وہی خرابی لازم آتی ہے کہ مذہب ہر شخص کا انفرادی مسئلہ ہے اسکا اجتماعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ نظریہ اکثر اسلامی و غیر اسلامی مفکرین کے نزدیک قابل قبول ہے ۔اس نظریہ کے تحت ہر شخص کو انفرادی سطح پر مذہبی آزادی حاصل ہے مگر وہ کسی دوسرے کے عقیدہ کے سلسلے میں بیجا اظہار خیال نہیں کرسکتاہے ۔اس نظریہ کے حامیوں کے نزدیک ہر فساد کی جڑ کسی دوسرے کے عقیدہ کو درست کرنے کی کوشش رہی ہے ۔انکے نزدیک مذہب کا تعلق عقیدہ سے ہوتاہے اور عقیدہ عقل و منطق کا محتاج نہیں ہوتاہے ۔
آجکی ترقی یافتہ دنیا سیکولر ازم کی بنیاد پر مذہبی افکار و نظریات کے سلسلے میں آج بھی کشمکش کا شکار ہے ۔یعنی وہ خدا کے وجود،حیات بعد الموت کا تصور،اسلام کا نظام حیات اور اجتماعی زندگی کے لئے اسلامی دستورالعمل کے سلسلے میں شک و شبہ کا شکار ہے ۔اس تشکیک کا شکار اسلامی ملک بھی ہیں کیونکہ سیکولر مفکرین اور سیاستمداروں کی اندھی تقلید انہیں بھی گمراہ کررہی ہے ۔خدا پر اعتقاد کی کمزور ی اور حیات بعد الموت کے تصور کے خاتمہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوتا گیا۔جزاو سزا کا تصور ختم ہونے کی بنیاد پر سماج غیر مہذب اقدار،مادہ پرستی،لذت کوشی،حرص وہو س کی تغلیب،ہم جنس پرستی ،عریانیت و فحاشیت کا عروج،صارفیت زدہ مزاج ،قتل و تشدد اور بد امنی کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔ان حالات میں اسلامی تعلیمات کی صحیح تبلیغ ضروری ہے تاکہ مفکرین کی ذہنی کشمکش دور ہوسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔