سی سی ٹی وی اور اسکیننگ مشین: فقہ اسلامی کی روشنی میں

محمد صابر حسین ندوی

عصر حاضر میں دینی واخلاقی اقدارکا دیوالیہ ہے، عموما انسانوں کے اندر اپنے رب حقیقی کا خوف نہ ہوکر خواہشات کی اتباع اور ہوائے نفس کی پیروی کا دور دورہ ہے، اسی وجہ سے جانی ومالی خطرات دوچند ہوچکے ہیں، آئے دن چوری، قتل کی جاں گسل خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں، خود کی اور اہل و عیال کی حفاظت یا ملکی حفاظت بھی دشوار کن ہوتی جارہی ہے؛ایسے میں سی، سی ٹی وی کیمرہ کی ایجاد ایک گونا رحمت ہے، جس کے ذریعہ بہت سے مجرمین کے جرم اور فساد سے حفاظت یقینی ہوجاتی ہے، اور اگر جرم سرزد ہوبھی جائے تو مجرم کو پکڑنے، اس کی شناخت کرنے میں یہ بہت ہی ممد ومعاون ثابت ہوتا ہے، چانچہ دینی وملی یا دنیاوی ہر دو کام کیلئے اکثر وبیشتر مقامات پر حفاظتی نقطہ نظر سے اس کا استعمال کیا جانا عام بات ہے، جس کے خاطر خواہ نتائج اور فوائد بھی بر آمد ہوتے ہیں، خصوصا ہندوستان کے فرقہ وارانہ ماحول کے درمیان مسلمانوں کیلئے اسے ایک نعمت ہی سمجھا جاتا ہے۔ شرعی اعتبار سے چونکہ تصاویر اور کیمرہ کا استعمال مختلف فیہ ہے، اسی لئے یہ مسئلہ زیر غور ہے کہ سی، سی، ٹی وی کا استعمال درست ہوگا کہ نہیں ؟اور بالخصوص دینی مقامات (مساجد، مدارس)پر اس کے استعمال کا کیا حکم ہوگا؟۔

سی، سی، ٹی، وی کیمرہ کے متعلق غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے؛کہ وہ بھی کیمرہ کی ہی ایک قسم ہے، جس میں قید کی گئی عکس تصویر کے حکم میں ہے، ایسی صورت میں جمہور علماء کے نقطہ نظر کے مطابق اس کا استعمال درست نہ ہوگا؛لیکن عصر حاضر میں مسلمانوں کے ساتھ دوہرہ رویہ، ونا انصافی کے پیش نظر اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے، جس کی وجوہات یہ ہیں :

الف:کیمرہ کی تصویر کے حکم کے متعلق علماء مختلف نقطہائے نظر رکھتے ہیں ؛ایسے میں مالکیہ کے نقطہ نظر سے استفادہ کرتے ہوئے ضرورۃ کیمرہ کی تصاویر کی اجازت دی گئی ہے، آج جبکہ سی، سی، ٹی وی کیمرہ کی ضرورت دوچند ہوگئی ہے، چنانچہ بہتر ہیکہ ’’المشقۃ تجلب التیسیر‘‘ اور ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ جیسے قواعد سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے استعمال کی اجازت ہو۔

ب:یہ بھی فقہ اسلامی میں مسلم ہے؛ کہ انسان کی جان ومال کی حفاظت مقاصد شریعہ میں سے ہے، اور یہ ضرورت انسانی ہیں، چنانچہ عبدالوھاب خلاف لکھتے ہیں :’’الامور الضروریۃ للناس ترجح الی خمسۃ أشیاء:الدین والنفس والعقل والعرض والمال‘‘(علم اصول فقہ:ص-۲۰۰)یعنی لوگوں کے ضروری امور پانچ ہیں :حفظ دین، حفظ نفس، حفظ نسل، حفظ عقل، حفظ مال۔ لہذا جس طرح جان ومال کی حفاظت کیلئے فوٹو کی اجازت دی گئی ہے، اسی طرح سی، سی، ٹی، وی کیمرہ کی بھی اجازت ہوگی ؛کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دعوت و ارشاد کے مراکز پر اثر پڑے گا، ملی جائیداد خطرہ سے دوچار ہوجائیں گی، اور ممکن ہے کہ لٹیرے انہیں غصب کر بیٹھیں۔

ج:اصول فقہ کا یہ قاعدہ عام ہے ؛کہ جب دو مفاسد میں تعارض ہوجائے تو دونوں میں معمولی کا ارتکاب کر کے ضرر میں زیادہ بڑے مفسدہ کی رعایت کی جائے گی’’اذا تعارضت مفسدتانروعی اعظمھما ضرارً بارتکاب أخفھما‘‘(اشباہ والنظائر للسیوطی مع شرح الحموی:۱؍۲۸۶)، اس قاعدہ کے تحت یہ بات سمجھ میں آتی ہے؛ کہ صورت مسئلہ میں دو ضرر شامل ہے:اول :یہ کہ کیمرہ کا استعمال۔ دوم:یہ کہ جان ومال کا نقصان۔ ان دونوں میں کیمرہ کے استعمال کی اجازت دینا زیادہ مناسب لگتا ہے ؛کیونکہ یہ مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے’’اخف مفاسد‘‘ کے ارتکاب کے قائم مقام ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں : مثلا حدیث شریف میں آگ کے ذریعہ سزا دینے سے منع کیا گیا:’’فانہ لایعذب بالنار الارب النار‘‘(ابوداود:۲۶۷۳)، اس کے باوجود فقہاء نے اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو جنگ کی حالت میں کفار کو جلاڈالنے کی اجازت دی ہے:’’ونحاربھم بنصب المجانیق وحرقھم وغرقھم-وحرقھم الظاھر:ان المراد حرق ذاتھم‘‘(ردالمحتار والدر المختار: ۳؍۲۴۴)۔

د:فقہاء نے جہاں ضرورت کی وجہ سے وقتی طور پر بعض غیر مباح کی اجازت دی ہے، وہیں یہ قاعدہ بھی نقل کیا ہے کہ؛’’الضرورۃ تقدر بقدرھا‘‘یعنی ضرورت کو بقدر ضرورت ہی رکھا جائے، اسے عمومی رواج یا فیشن بنا دینادرست نہیں، چنانچہ ضروت کے پیش نظر مساجد ومدارس میں اگرچہ سی، سی، ٹی کیمرہ لگانے کی اجازت ہے؛لیکن اسے ضرورت سے زائد توجہ دینامناسب نہیں ہے۔

اسی طرح موجودہ دور میں یہ بات ممکن ہوگئی ہے ؛کہ اسکیننگ مشین کے سامنے سے کوئی شخص گزرے تواس کا پورا جسم مشین پر بیٹھے ہو ئے شخص کو بے لباس نظر آئے گا، بعض مغربی ممالک میں ائیرپورٹوں پر اس طرح کی اسکیننگ مشین استعمال کی جارہی ہیں، یہ بات بعید نہیں ہے ؛کہ آئندہ ہمارے ملک میں بھی اس طرح کی مشینیں استعمال کی جائیں، اور ائیر پورٹ کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی حفاظتی اقدامات کے مقصد سے ان کا استعمال ہو، کیا تحفظ کے نقطہ نظر سے اس کا استعمال جائز ہوگا؟اور کیا مسلمانوں کیلئے درست ہوگاکہ وہ سفر کرنے کی غرض سے ایسی مشینوں سے گزرنے کو قبول کریں۔

اسکیننگ مشین کو عربی میں ’’الآلۃ الماسح الضوئی‘‘ کہا جاتا ہے، ماسح ضوئی کی تعریف کرتے ہوئے ویکیپیڈیا میں منقول ہے کہ سکینگ کمپیوٹر پر تصاویر اور گرافکس متعارف کرانے والی مشین ہے’’الماسح الضوئی آلۃ تستعمل فی ادخال صور ورسومات الی الحاسوب، حیث یحولھا من طبیعتھا الرسومۃ الی صورۃ رقمیۃ لکی تناسب طبیعۃ الحاسوب وحتی یسھل تخزینھا داخلہ فی ملف واستدعائھا وقت الحاجۃ الیھا‘‘، اس کے ایجاد نے بہت سے خطرات کم کر دئے ہیں، اور ملکی وبیرونی حفاظتی نظام میں بہت معاون ثابت ہوا ہے؛یہی وجہ ہے کہ آئندہ اس کے استعمال کی شرح دوچند ہونے کی امید ہے؛ایسے میں اس پراسلامی نقطہ نظر سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ؛فقہ اسلامی میں ایک جزئیہ ایسا ہے جو اس سے بہت حد تک مطابقت رکھتا ہے، اور  وہ ہے’’صور خیالی‘‘۔

 صور خیالی :جس کا تعارف کراتے ہوئے ’’موسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ‘‘ میں یہ درج کیا گیا ہے:’’فانھم کانوا یقطعون من الورق صور اللأشخاس ثم یمسکونھا بعصی صغیرۃ ویحرکونھا أمام السراج فتنطبع ظلالھا علی شاشۃ بیضائیقف خلفھا المتفرجون فیرون ماھو فی الحقیقۃ صورۃ الصورۃ‘‘(تصویر:۲؍۹۳)اس کا مطلب یہ ہے کہ :گزشتہ زمانے میں لوگ دو ورق سے اشخاص کی تصویر کاٹ لیا کرتے تھے، پھر اس کو چھوٹے ڈنڈے کے ذریعہ روک لیتے تھے اور چراغ کے سامنے اس کو حرکت دیتے تھے، تو اس کا سایہ سفید پردہ پر ڈھل جاتا تھا، جس کے پیچھے تماشائی کھڑے ہوتے تھے، اور وہ چیز دیکھتے تھے جو درحقیقت تصویر کی تصویر تھی، تقریبا یہی صورت حال اسکیننگ مشین وغیرہ کی ہے، بس فرق اتنا ہے ؛کہ جدید ٹکنالاجی نے اس چیز کو صرف ایک ہی پردہ میں دکھا دیا ہے ؛جسے وہ دو پردوں میں دکھایا کرتے تھے، جس کے اندر خاص شعاعوں اور ٹکنیک کا کمال ہوتا ہے۔

صور خیالی کے متعلق فقہاء نے ناجائز لکھاہے، اور اسے تصویر ہی کے زمرے میں رکھا ہے، علامہ شامی فرماتے ہیں ؛ کہ جیسے خیال کی وہ تصویریں جن سے کھیلا جاتا ہے، اس لئے کہ اس کے ساتھ مکمل تصویر باقی رہتی ہے(لہذا ناجائز ہے)، ’’کمثل صور الخیال التی یلعب بھا، لأنھا تبقی معہ صورۃ تامۃ‘‘ (ردالمحتار: ۱؍۴۸۰۔ نیز دیکھئے:امداد الفتاوی:۴؍۲۵۷، جواہر الفقہ:۵؍۱۴۸)۔

تاہم حفاظتی نقطہ نظر اور وقت کی ضرورت کا تقاضہ ہے؛کہ اس مسئلہ میں گنجائش ہو اور فقہائے مالکیہ کے نقطہ نظر سے استفادہ کیا جائے، حالانکہ یہ خود فقہ اسلامی کا بھی مزاج ہے: جب معاملہ تنگ ہوجائے تو آسانی پیدا کردی جاتی ہے، نیز ’’الحالۃ تبیح المحظورات‘‘ کا قاعدہ تو معروف ہی ہے، ساتھ ہی دو اور ایسی وجوہات ہیں، جن سے اسکینگ مشین کے استعمال کا جواز ہوسکتا ہے:

الف:تصاویر کا ستعمال اگر حقارت کے ساتھ ہو، اسے اعزاز ی طور پر نہ استعمال کیا جائے تو اس کی اجازت ہوتی ہے؛اسکیننگ مشین بھی ایسی کوئی مشین نہیں جس کا استعمال اعزازی ہو؛بلکہ ضرورت اور خطرہ کے پیش نظر ہوتا ہے۔

ب:فقہاء نے ایسی تصاویر کی بھی اجازت دی ہے جو مشتبہ ہو، اس کی ہیئت صاف معلوم نہ ہوتی ہو، اسکیننگ مشین بھی ایسی ہی ایک مشین ہے، جس کے ذریعہ صرف تصویر کی جھلک دکھتی ہے نہ کہ صاف تصویر؛بلکہ اس پر سوار کا تعارف نہ ہوتو اسے پہچاننا مشکل ہے۔ علامہ شامی کی عبارت ملحوظ ہو:

’’ولایکرہ لوکانت تحت قدمیہ أو محل جلوسہ لانھا مھانۃ(قال)أو علی خاتمہ نقش غیر مستبیین (قال)أو کانت صغیرۃ لاتبیین تفاصیل اعضائھا للناظر قائما وھی علی الارض أو مقطوعۃ الرأس أو الوجہ أو محوۃ عضو لاتعیش بدونہ أو لغیر ذی روح یکرہ‘‘(الدرالختارعلی ہامش ردالمحتار:۱؍۴۷۰، ۴۸۰)۔

=رہی یہ بات کہ کیا ایسی مشینوں کے سامنے سے اپنے کو گزارنے کی اجازت دی جائے یا نہیں ؟اس سلسلہ میں یہ بات واضح رہے کہ ایک شریف النفس شخص کاکسی کے سامنے بے لباس ہونا جائز نہیں ہے، ستر کا خیال رکھنا فرض ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احفط عورتک الا من زوجتک أو ماملکت یمینک‘‘(سنن ترمذی:۲۷۶۹)؛لیکن اس صورت میں بعض وجوہات کی بنا پر کہا جاسکتا ہے؛ کہ اس مشین سے گزرنے کی اجازت ہے:-

الف:سب سے پہلی بات یہ کہ اسکیننگ مشین کے سامنے بے لباس ہونے کا مطلب یہ ہے؛ کہ انسانی ساخت کا اظہار ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الحقیقہ کسی کو عریاں کردیا جائے، ایسے میں حفاظتی نقطہ نظر سے، اصول فقہ ’’دفع المفاسد مقدم علی جلب المصالح‘‘ (البحرالمحیط:۷؍۲۸۰)کا خیال کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کی اجازت زیادہ بہتر ہے۔

ب:بعض صورتوں میں عریاں ہونے کی اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ روایت میں ’’ الا من زوجتک أو ماملکت یمینک‘‘ ذکر ہے، اورقرآن کریم میں اسی لئے بچوں کو دوپہر میں اجازت لے کر گھر میں جانے کا حکم دیاہے؛کیونکہ اس وقت آرام کرنے کیلئے کپڑے اتار دئے جاتے تھے’’وحین تضعون فی الظھیرۃ‘‘(نور:۵۸)؛البتہ یہ بات قابل غور ضرور ہے کہ عریاں ہونے کی اجازت زوجہ یا باندی کے پاس ہی ہے؛ایسے میں کسی اور کے سامنے ا سکی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟اس سلسلہ میں اتنا کہنا کافی ہے کہ شق الف مد نظر رہے اور یہ بھی خیال رہے ؛کہ اسے ضرورت کے پیش نظر جائز سمجھا جائے۔

ج:چونکہ عریانیت شرافت کے خلاف ہے، اس لئے اول درجہ میں یہ کوشش ہونی چاہئے؛ کہ اسکینگ مشین سے پرہیز کرے اور کسی دوسرے طریقہ سے حفاظتی مہم انجاد دے، اسی پر عمل عزیمت سمجھا جائے گا۔ واللہ وعلم

تبصرے بند ہیں۔