شاذیہ علمی کی شخصیت کا تانا بانا

کسی شاعر نے سچ کہا ہے کہ ’’پہنچی وہیں  پہ خاک جہاں  کا خمیر تھا‘‘۔ شاذیہ علمی سے پہلے مختار عباس نقوی، شہنواز اور ایم جے اکبر  جیسے نام نہاد مسلمان بی جے پی کے حاشیہ بردار بن چکے۔ محترمہ شاذیہ علمی ’عام آدمی پارٹی‘ سے نکل کر بی جے پی کی اس وقت زینت بنی ہوئی ہیں  ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے شاذیہ کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ اسلام، قرآن اور مسلمانوں  پر نکتہ چینی کریں  اور سنگھ پریوار کے کفر و الحاد میں  چار چاند لگائیں ۔ یہ کام شاذیہ علمی نے خوشی سے قبول کرلیا۔ اس کی وجہ سے انھیں  بی جے پی دہلی کی صدارت کی نیابت کا درجہ عطا کیا ہے۔ جب سے شاذیہ علمی پھولے نہیں  سما رہی ہیں ۔ وہ مسلمانوں  کیلئے تسلیمہ نسرین بن چکی ہیں ۔

بی جے پی اور آر ایس ایس والے طارق فتح جیسے مسلم دشمن کو کئی ماہ سے دہلی میں  پناہ دیئے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو پاکستانی نژاد کہتے ہیں  مگر وہ برآمد کئے گئے ہیں  کناڈا سے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ وہ نہ صرف آر ایس ایس کے چشم چراغ بنے ہوئے ہیں  بلکہ ان سارے نیوز چینلوں  کی آنکھوں  کے تارے بنے ہوئے ہیں  جو اسلام دشمن ہیں ۔ وہ اسلام اور مسلمانوں  کے بارے میں  ایسی بے تکی باتیں  کرتے ہیں  جو نہ زمین میں  سماسکے اور نہ آسمان میں ۔ کچھ دنوں  سے محترمہ شاذیہ علمی طارق فتح کی بہن کا رول ادا کر رہی ہیں  جیسے سلمان رشدی کا رول کئی سالوں  سے تسلیمہ نسرین ادا کر رہی تھیں ۔ رشدی اورتسلیمہ سنگھ پریوار کے پرانے مہرے ہوگئے ہیں ۔ نئے مہرے کے طور پر اب شاذیہ اور فتح کو Introduce کیا جارہا ہے۔

  شاذیہ علمی جب بھی ٹی وی چینلوں  پر آتی ہیں  بن سنور کر آتی ہیں  تاکہ سامعین کیلئے پرکشش ہوں ۔ جب دہلی ریاست کی اسمبلی کا الیکشن ہو رہا تھا تو جسٹس کاٹجو نے چٹکی لیتے ہوئے کہا تھا کہ کرن بیدی کی جگہ اگر بی جے پی والے شاذیہ کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر کھڑا کرتے تو زیادہ کامیاب ہوتے۔ شاید کاٹجو صاحب کو اس حقیقت کا علم نہیں  کہ آر ایس ایس والے مسلمانوں  سے ہی نفرت نہیں  کرتے ہیں  بلکہ ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں  جس میں  ذرا سی بھی اسلام یا مسلمانیت کی بو باس ہو، یہاں  تک کہ انھیں  مسلم نام سے بھی نہ صرف گریز ہے بلکہ نفرت اور دشمنی ہے۔ کسی نے آر ایس ایس کے ایک ذمہ دار سے سوال کیا تھا کہ ’’آپ لوگ بھگت سنگھ کا نام اپنی شاکھاؤں  میں  لیتے ہیں  مگر اشفاق اللہ خان کا نام نہیں  لیتے، حالانکہ اشفاق اللہ خان بھی مجاہدین آزادی میں  سے ہیں ‘‘۔ اس پر ذمہ دار نے جواب میں  کہاکہ’’آپ عجیب بیوقوف معلوم ہوتے ہیں ، اشفاق اللہ خان کا نام مسلمانوں  جیسا ہے پھر کیسے ان کی مالا جپی جاسکتی ہے۔ بھگت سنگھ لاکھ کمیونسٹ سہی مگر ان کا نام ہندوانہ ہے‘‘۔ بی جے پی والے نقوی، شہنواز، اکبر یا شاذیہ کو مسلمانوں  جیسا نام رکھنے پر اعتراض غالباً اس نہیں  کرتے کہ سنگھ پریوار والے ان ناموں  سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ جو لوگ بی جے میں  نام لکھاتے ہیں ، خواہ ان کا نام کچھ بھی ہو۔ مسلمان ان کو باطل پرستوں  اور طاغوت کے حامی سمجھتے ہیں ۔

 اس وقت شاذیہ علمی بی جے پی کے ترجمانوں  میں  سے ایک ہیں ۔ وہ اکثر و بیشتر میک اپ میں  نیوز چینلوں  کی زینت بنتی ہیں  اور اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف یلغار کرنے میں  کوئی کسر باقی نہیں  رکھتیں ۔’’سیاست جدید‘‘ کے نام سے کانپور سے ایک اخبار اسحاق علمی نکالا کرتے تھے۔ محترمہ اسحاق علمی کی پوتی ہیں ۔ عارف محمد خان بدنام زمانہ اسحاق علمی کے داماد ہیں  ۔ اس خاندان کے اکثر و بیشتر افراد بولہبی کے شکار ہوئے ہیں ۔

 اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے حوالے سے نیوز چینلوں  اور اخبارات میں  یہ خبر نمایاں  طور پر تشہیر ہوئی ہے کہ محترمہ تین طلاق کے موضوع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک سمینار میں  حصہ لینے کیلئے مدعو کی گئی تھیں  مگر ان کا تعلق بی جے پی سے ہے اس لئے ان کو شریک اجلاس سے روکا گیا۔ محترمہ شاذیہ علمی کا کہنا ہے کہ یہ چیز یونیورسٹی کی انتظامیہ اور وائس چانسلر کے اشارے پر کی گئی ہے۔ عمر فاطمی جو جامعہ ملیہ کے طلبہ ہیں  ان کا بیان ہے کہ سنگھ پریوار کی طلبہ تنظیم ’اے بی وی پی‘ نے توقع کی تھی کہ شاذیہ کی شرکت کے خلاف کوئی مظاہرہ ہوگا مگر ایسا کچھ ہوا نہیں ، صرف شاذیہ کو ہیروئن بنانے کیلئے ایک افواہ پھیلائی گئی ہے۔

 شاذیہ علمی نے اپنے ایک بیان میں  کہاہے کہ منتظمین میں  سے ایک صاحب سیلش واٹس نے انھیں  اطلاع دی کہ وہ نہ آئیں  کیونکہ جامعہ ملیہ کے سامنے ان کے خلاف مظاہرہ ہورہا ہے۔ شاذیہ نے مزید کہاکہ ان کا نام مقررین کی فہرست سے ڈراپ کیا گیا کیونکہ ان کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ جب واٹس سے اخباری نامہ نگاروں  نے دریافت کیا تو واٹس نے کہاکہ انھوں  نے شاذیہ کونہ فون کیا اور نہ ہی اس قسم کی کوئی اطلاع دی کہ مظاہرہ ہورہا ہے یا مظاہرہ ہونے والا ہے۔ جامعہ ملیہ کی ایک خاتون ترجمان پروفیسر صائمہ سعید نے کہاکہ یونیورسٹی نے نہ تو موضوع میں  کوئی تبدیلی کی ہدایت کی اور نہ ہی کسی کی شرکت پر روک لگانے کی بات کی۔ اس قسم کی جو باتیں  آرہی ہیں  کہ روک لگائی گئی اور شاذیہ کا نام ڈراپ کیا گیا یہ سب من گھڑت باتیں  ہیں ۔ یونیورسٹی کا ان باتوں  سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

 جامعہ نگر پولس اسٹیشن کے انسپکٹر آنند یادو سے جب پوچھا گیا تو انھوں  نے کہاکہ وہ جہاں  سیمینار ہورہا تھا موجود تھے، وہاں  کسی قسم کا نہ ہنگامہ ہوا اور نہ مظاہرہ۔ سیمینار کے بعد طلبہ اور حصہ لینے والوں  کی چائے اور ناشتہ سے تواضع کی گئی۔ انسپکٹر مذکور کا بیان انگریزی اخباروں  میں  شائع ہوا ہے۔ 2مارچ کے ’دی ٹیلیگراف‘ کے صفحہ 4 پر یہ بیان پڑھا جاسکتا ہے۔

 در اصل یہ سب باتیں  محض اس لئے گھڑی گئیں  کہ رامجس کالج دہلی میں  عمر خالد کا نہ صرف سیمینار نام ڈراپ کیا گیا بلکہ سیمینار پر سنگھ پریوار کے طلبہ نے حملہ کرکے کئی طلبا و طالبات کو زخمی کردیا جس کی ملک کے کونے کونے سے مذمت ہورہی ہے۔ اس کو کاؤنٹر کرنے کیلئے سنگھ پریوار نے چال چلی تھی اور شاذیہ علمی کو اس کیلئے تیار کیا تھا مگر چال کامیاب نہیں  ہوئی۔ صرف شاذیہ کو تھوڑی بہت شہرت مل گئی اور Lime Light میں  آگئیں ۔ شاذیہ کو جو چاہئے تھا مل گیا۔ کہا گیا ہے کہ بدنام ہوئے تو کیا نام نہ ہوگا۔ اس طرح آزاد خیال عورتیں  اور مرد نام کے پیچھے بھاگتے ہیں  تاکہ مارکیٹ میں  ان کی قیمت بڑھے اور وہ اخبارات اور نیوز چینلوں  کی زینت بنیں  اور پارٹی انھیں  کم سے کم راجیہ سبھا یا لوک سبھا کا ٹکٹ دے تاکہ ان کے اسٹاٹس (Status) میں  اضافہ ہو۔ بس یہی ہے شاذیہ جیسی عورتوں  اور مردوں  کا منزل مقصود جو بی جے پی یا نریندر مودی کے نو رتنوں  میں  نام لکھوا رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔