شام  کیوں جل رہا ہے؟ دنیاکیوں سورہی ہے؟

مغیبات و بشارتوں کے ملک سیریا میں جب سےبشارالاسدکے ہاتھ میں زمام اقتدارآیا ہےاس نےتاتاریوں کےطرز پر سنیوں کاقتل عام،ان کی آبادیوں کوتاراج کرکےان  کے بچوں وعورتوں پرنیوکلیائی ہتھیاروں کااستعمال کرکےپورےسیریا میں سنیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے،کئی لاکھ لوگ ہجرت کرگئے،جو رہ رہے ہیں وہ درختوں کے پتےاور کتے بلی کھانے پر مجبور ہیں،مؤرخ جب تاریخ لکھے گا تو اس میں یہ ضرور لکھے گا کہ ملک شام کی عوام پر بشار نے وہ ظلم ڈھائے جو آج تک کسی کافر نےبھی مسلمانوں پرنہیں ڈھائے لیکن افسوس اس بات پر ھیکہ امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔ کوئی ان مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے والا تو دور ان کے لئے آواز بلند کرنے والا بھی موجود نہیں۔سب زندہ لاشیں ہیں،عالم اسلام کا سب سے بڑے ڈکٹیٹربشار نےاسلام کو بھی نہیں چھوڑا قرآن کریم میں تحریف کرمحرف شدہ قرآن شائع کروایا،احادیث رسول میں کتربیونت کی اوریہ سب مسلمانوں وعرب کے ازلی دشمن ایران واسرائیل کے ہمہ جہت تعاون سےہورہا ہے،امن کےٹھیکیداروں کا عالمی ادارہ”اقوام متحدہ "جو کہ دراصل لٹیروں کی ایک مہذب ترین تنظیم ہے،جس کااساسی مقصد متحد ہوکر اسلام وعالم اسلام پر یلغار کرنا ہےوہ روز اول سے ان تمام عالمی جرائم پرساکت ہے،جبکہ اس بات کے پختہ شواہد ہیں کہ بشارالاسد نےسنیوں کو سبوتاز کرنے کے لئےعالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئےسنی بستیوں پرمہلک ایٹمی ہتھیاروں وگیس بموں کابےدریغ استعمال کیاہےجس کے نتیجہ میں انسانی نسل کشی ہوئی ہےلیکن اس پرعالمی قوانین سازادارہ اقوام متحدہ بالکل خاموش ہےاور ظلم کے خلاف قیام امن کے لئے تشکیل دی گئی پانچ عالمی طاقتوں کا متحدہ محاذ "ناٹو”جسے افغانستان و عراق میں تو تباہی وقتل وغارت گری مچانے کے لئےاتاردیاگیاتھا پر شام میں جاری نسل کشی،تباہی،قتل عام اورعالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کرنے پر بھی کرہ ارضی کے مسیحا یونٹ "ناٹو” کو بشار کے خلاف کیوں نہیں اتارا گیا؟ کیونکہ سبھی عالمی طاقتوں اور مغربی اقوام کا واحد مقصد اسلام کا خاتمہ ہےجس کے لئےعربی و خلیجی ممالک میں عدم استحکام کابرقرار رہنا امر لابدی ہے.اپنے باشندوں و شہریوں پرانسانیت سوزمظالم کی وجہ سےﺷﺎﻣﯽ ﺻﺪﺭ ﺑﺸﺎﺭ ﺍﻻﺳﺪ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺧﻼﻗﯽ و انسانی  ﺣﻖ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ80 ﻓﯿﺼﺪ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﮔﻨﻮﺍ ﭼﮑﮯﮨﯿﮟ۔ ‘‘داعش،النصرہ فرنٹ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں پر حملے کے نام پر شامی سرکاری فوجیں اور ﺭﻭسی افواج  ﻧﮯ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯسے شام کے تاریخی شہر حلب میں جس پیمانہ پربمباری کررہی ہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں بےگناہ شہری ہلاک اور سینکڑوں مفلوج ہوچکے ہیں ۔
رپورٹ کےﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺍﻓﺴﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺩﻋﻮﯼ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧﺭﻭﺱ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻓﻀﺎﺋﯽ ﺣﻤﻠﮯﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ، ﺟﮩﺎﮞ ﺁﺋﯽ ﺍﯾﺲ ﺁﺋﯽ کاوجود بھی نہیں ہے،ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﺳﻮﻝ ﻭﺍﺭ ﺍﺏ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﮐﺎﺣﺼﮧ ﺑﻦ ﭼﮑﺎﮨﮯ۔ ﺩﺭﺍﺻﻞ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺑﮍﯼﻃﺎﻗﺘﯿﮟ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺱ، ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺑﮩﺎﻧﮯﭘﺮایک الگ ہی کھیل  ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﻐﺮﺏﮐﮯ ﮐﺌﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ، ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺑﺸﺎﺭ ﺍﻻﺳﺪ ﮐﮯﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﮯ ﺩﺧﻞ ﮐﺮﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺎﻝ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﭘﺮ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍسد ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻟﮍﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻏﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ، ﭘﯿﺴﮧﺍﻭﺭ ﭨﺮﯾﻨﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﮯﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺳﮯ ﺩﻭﮨﺮﺍ ﺭﻭﯾﮧ ﺭﮨﺎﮨﮯ۔ ﻭﮦﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺣﮑﻮﻣﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﻨﻈﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﮯﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻘﺎﻋﺪﮦﮐﻮ ﺭﻭﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﻠﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﭘﺲ ﭘﺮﺩﮦ ﻭﮦ ﺩﺍﻋﺶ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺪﺍﺩﮐﺮﺭﮨﺎﮨﮯ۔ ﻭﺭﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺳﺒﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﺎ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ، ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧ،ﺟﺮﻣﻨﯽ،ﻓﺮﺍﻧﺲ، ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺳﮯﺯﯾﺎﺩﮦ ﻃﺎﻗﺖ ﻭﺭ ﺩﺍﻋﺶ ﻧﺎﻣﯽ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮔﺮﻭﭖ ﮨﮯ؟ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮯﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﻤﺎ ﺩﺷﻤﻦ ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮨﮯ :
ﻇﻠﻢ ﭘﯿﺸﮧ، ﻇﻠﻢ ﺷﯿﻮﮦ، ﻇﻠﻢ ﺭﺍﮞ ﻭﻇﻠﻢ ﺩﻭﺳﺖ
ﺩﺷﻤﻦِ ﺩﻝ، ﺩﺷﻤﻦِ ﺟﺎﮞ، ﺩﺷﻤﻦِ ﺗﻦ ﺁﭖ ﮨﯿﮟ.
روس دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر بےگناہوں پر ہوائی حملہ کرکے عالم عرب پراپنا سکہ بٹھانے کی کوشش کررہا ہے، ایسےحالات میں جب کہ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﺷﮩﺮ ﺣﻠﺐ ﺑﺪﺳﺘﻮﺭ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﺎﻣﺮﮐﺰ ﺑﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻮﺻﻮﻟﮧ ﺍﻃﻼﻋﺎﺕﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻤﺎﺭﺕﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ، ﺟﻮ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﯽ ﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﮯﺑﺎﺳﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﮭﯽﮐﻢ ﭘﮍﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ہاسپٹل بند ہوچکے ہیں،آخری ڈاکٹر بھی شہید ہوچکا ہے،پورا شہر جل رہا ہے،اطلاعات کے مطابق ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﮐﮯ ﭘُﺮ ﺗﺸﺪﺩ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺳﻮ ﺳﮯ ﺯﺍﺋﺪ ﺍﻓﺮﺍﺩﮐﯽ ﮨﻼﮐﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﻠﮑﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺧﺎﻧﮧ ﺟﻨﮕﯽﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﮐﭽﮫﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﯽ ﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﯾﮧﺑﮭﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻃﻼﻕﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺑﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺷﻤﺎﻟﯽ ﺷﮩﺮ ﺣﻠﺐ ﭘﺮﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺩﻭ ﻣﺎﮦ ﺳﮯ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﻤﺰﻭﺭﻓﺎﺋﺮﺑﻨﺪﯼ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻣﺘﺤﺎﺭﺏ ﻓﺮﯾﻘﯿﻦ ﭨﻮﭨﻨﮯﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺭﺍﺕ ﺣﻠﺐ ﮐﮯﻧﻮﺍﺣﯽ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯﻓﻀﺎﺋﯽ ﺣﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﺑﭽﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﺑﯿﺲﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮐﯿﺘﮭﻮﻟﮏ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻓﺮﺍﻧﺴﺴﮑﺎﻧﺎ ﮐﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩﯼ ﮐﺎﺭﮐﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﮩﺮﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻗﻠﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﮯ، ﺍُﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺷﯿﺎﺋﮯ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺘﯿﮟ ﺍﺗﻨﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍُﻧﮩﯿﮟﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺑﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔ ﺁﺝﮐﻞ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺠﻠﯽﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﺎﺭﮐﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺐ ﺳﮯﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﺎﮎ ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺏ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﮩﯿﮟﺟﺎﻧﺘﮯ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻭﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻭﺍﺧﺮ ﺳﮯ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻓﻮﺝ ﺍﻭﺭﺑﺎﻏﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﻧﺎﻓﺬ ﺍﻟﻌﻤﻞ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﭘﭽﯿﺲ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺻﺮﻑ ﺣﻠﺐ ﻣﯿﮟﮨﯽ، ﺟﻮ ﺷﺎﻡ ﮐﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺷﮩﺮ ﮨﮯ، ﺑﺮﻃﺎﻧﯿﮧﻣﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﺳﯿﺮﯾﺌﻦ ﺁﺑﺰﺭﻭﯾﭩﺮﯼ ﻓﺎﺭ ﮨﯿﻮﻣﻦﺭﺍﺋﭩﺲ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭﺍﻧﺪﺭ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﺩﻭ ﺳﻮ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺎﺭﮮ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﺎﮎ ﺣﻤﻠﮯ ﺣﻠﺐ ﮐﮯ ﺩﻭﮨﺴﭙﺘﺎﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺑﺪﮪ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺷﺐ ﮈﺍﮐﭩﺮﺯ ﻭِﺩﺁﺅﭦ ﺑﺎﺭﮈﺭﺯ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﺳﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻟﻘﺪﺱ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﺎﺯﮦ ﺗﺮﯾﻦ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﭘﭽﺎﺱ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮨﻼﮎ ﮨﻮﺋﮯ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﻠﮯ ﮐﮯ ﭼﮫ ﺍﺭﮐﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ۔ ﺟﻤﻌﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺭﭘﻮﺭﭨﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﺣﻤﻠﮯﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﮨﮯ۔ﺟﻤﻌﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﺯ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻟﮍﺍﺋﯽﻣﯿﮟ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ۔جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ اجتماعی نماز منسوخ کی گئی،ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺯﮦ ﻭﺍﻗﻌﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻏﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﮐﮯ ﺯﯾﺮِ ﮐﻨﭩﺮﻭﻝ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟاﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺮ ﮐﯿﮯ ﮔﺌﮯ ﺭﺍﮐﭩﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮨﻼﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺲﺯﺧﻤﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧﺣﻤﻠﮧ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﮨﻮﺍ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻌﮯ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺭﻭﺱ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﻧﮯ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﻃﻮﺭﭘﺮ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﭘﺮﺍﺗﻔﺎﻕ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ، ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﻃﻼﻕ ﺟﻤﻌﺮﺍﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﻤﻌﮯﮐﯽ ﺩﺭﻣﯿﺎﻧﯽ ﺷﺐ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺍﻻﺫﻗﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺩﻣﺸﻖ ﮐﮯﻧﻮﺍﺣﯽ ﻋﻼﻗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍِﺱ ﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﮐﯽ ﻣﻞ ﮐﺮﻧﮕﺮﺍﻧﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﮯ ﺳﯿﮑﺮﭨﺮﯼ ﺟﻨﺮﻝ ﺑﺎﻥ ﮐﯽ ﻣﻮﻥﺍﻭﺭ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﮯ ﮨﺎﺋﯽ ﮐﻤﺸﻨﺮ ﺑﺮﺍﺋﮯﺍﻧﺴﺎﻧﯽﺣﻘﻮﻕ ﺯﯾﺪ ﺭﻋﺪ ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﺣﻠﺐ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﺎﺯﮦ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﺬﻣﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ﺍﻟﺤﺴﯿﻦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﺸﺪﺩ ﭘﮭﺮ ﺍُﺳﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮﺟﺎﺗﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﮩﺎﮞ ﯾﮧ ﻓﺎﺋﺮ ﺑﻨﺪﯼ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯ ﺗﮭﺎ۔اب جبکہ ایک مدت مدید سے تمام ترصلیبی وصیہونی مشنریاں شیعی ممالک، اور دیگر قوتوں کو عالم اسلام کے خلاف جم کر استعمال کررہی ہیں،اور فوجی سطح کےعلاوہ ظلم سےانتقام کےنام پرپہلے "حزب اللہ”اوراب داعش جیسی عالمی دہشتگرد، انسان دشمن،فرعون صفت ظالم وجابر "کفریہ”جماعتیں اتار کرپوری دنیا میں امن و سلامتی کےخاتمہ کے ساتھ ساتھ اسلام کی صاف ستھری شبیہ کو داغدار اور مسلمانوں کو ہراساں کرنا چاہتی ہیں،داعش وحزب اللہ اور اس طرح کی شدت پسند تنظیمیں جنہیں اسرائیل وامریکہ نیزایران فوجی ودفاعی امداد بھیجتےہیں اور مکمل پشت پناہی کرتے ہیں ان کے ذریعہ عراق وشام نیز لبنان میں سنیوں کی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے،اور ان دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کرنےکے نام پر دوسرا عالمی سپر پاور”روس”عرصہ سے "سیریا”میں نہتوں پر فضائی حملہ کرکے بشار جیسے جلادکا ساتھ دے رہاہے،امریکہ و روس کی دوغلی پالیسیوں،بشار کےموروثی  ظالمانہ تیور کے سبب شام بدستور جل رہا ہے،ادھر عراق تباہ ہورہا ہے، ایسے وقت میں  شاہ سلمان وحافظ اردغان نیز پاکستان کوظلم کےاس طوفان سے ٹکرانے کے لئے بادبان کھول دیناچاہئے،ساری دنیا کےانصاف پسند ممالک کو جوڑ کر انہیں ساتھ لےکرشام پر متحد ہوکر حملہ کرکےبشار کے ظلم و جبر سےوہاں کے نہتوں کو بچانا اورانکی بازآبادکاری کے لئے ہرممکن قدم اٹھاناچاہئے، فلسطین کی کھلی حمایت وتعاون کرکےاسےاسرائیل کے ظلم سے بچانا چاہئے.اسی میں عالم اسلام اوراسلام کی بھلائی ہے.کیونکہ حالات بتارہے ہیں کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے،اب بھی اگرعرب و عجم کے اسلامی راہنماخواب خرگوش سے ناجاگےتوانہیں ایسی تباہی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے جس سےبچانے والا مسیحا "مھدی وعیسی”سے پہلے کوئی نہیں آئےگا.کیونکہ قیامت کے دن ہم سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ شام والے کیا انسان نہیں تھے.؟ حلب جل رہا تھا لیکن ہم سوئے رہے ماؤوں کی عصمتین تار تار ہوتی رہیں ہم مدہوش رہے بہنوں کے دوپٹے جلائے جاتے رہے ہم بے خبر رہے بچوں کی سسکیاں آسمان تک پہنچتی رہی ہمارے کان بہرے رہے بوڑھے درد سے کراہتے رہے ہم بے درد بنے رہے نوجوان آس لگائے رہے ہم بے حسی کی چادر تانے رہے.لاکھوں انسانی جانیں گنواکر، لاکھوں بچوں اور عورتوں کو بیوا و یتیم کر،کروڑوں انسانوں کو مفلوج و لاچار کرواکر بھی ملک شام دنیائے انسانی بالخصوص مسلمانان عالم کی توجہ کیوں نہیں کھینچ پارہا ہے،کیوں نہیں ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں راجدھانی کی سڑکوں سے  سے لےکر پورے ملک میں  منظم احتجاج کرپوری دنیا کو بشار کے ظلم کے خلاف اٹھنے کی دعوت نہیں دیتی؟ساری دنیا کے امن پسند ظلم مخالف لوگوں، جماعتوں اور تنظیموں کو مل کربشار،اقوام متحدہ امریکہ اور روس  کا بائیکاٹ کرناچاہئے،ان کی معیشت کمزور کرنے کے لئے مل کرساری دنیا سے ان کے سفارتی تعلقات منقطع کرانے کےلئےقدم اٹھانا چاہئے،تاکہ اپنی معیشت کی فکر میں خطہ سے یہ دہشت گرد انسانی خونوں کی رسیاں قوتیں نکل جائیں اورپھر عرب کا معاملہ اہل عرب خود نمٹاسکیں.

تبصرے بند ہیں۔