شجر بے ثمر:ہندوستانی مسلمان

ابوزنیرہ احمد 

دنیا میں ہمیشہ نفع بخش چیزوں کی ہی قدر ہوتی ھے ۔اگر کوئی چیز نفع سے خالی ہوجائے تو وہ زمین پر بوجھ بن جاتی ھے۔درخت ہی کی مثال لیےلیجئے جب تک وہ پھلوں سے لدا رہتا ھے لوگوں کو سایا فراہم کرتا ھے لوگ اسکی قدر کرتے ہیں ۔لیکن جب وہ درخت پھلوں سے خالی ہوجاتا ہے اسکے پتے جھڑجاتے ہیں لوگ اب اسے کانٹنے لگتے ہیں اب جلنا اسکا مقدر ہوجاتا ھے ۔اب لوگوں کے لئے وہ ایک بوجھ ھے جسے وہ ختم کردینا چاہتے ہیں۔

قوموں کی زندگیاں بھی اسی طرح کی ہوتی ہے۔جب تک کوئی قوم فلاح اور خیر کے کاموں سے جوڑی ہوتی ھے دوسری قومیں اسکی قدر کرتی ہے۔لیکن جب اس قوم میں خیر کا عنصر ختم ہوجاتا ھے وہ قوم دوسری قوموں کے لئے بوجھ بن جاتی ہے اور دوسری قومیں انھیں مٹادینا چاہتی ہیں ۔

ہندوستان میں امۃ مسلمہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا جب تک ہم لوگوں کے لئے فلاح کا کام کرتے رہے ہندوؤں کے تعلقات ہمارے ساتھ بھت اچھے رہے لیکن جب ہم فلاح کے کاموں سے دور ہوگئے ہندوؤں کے لئے ہم بوجھ بن گئے جس بوجھ کو اب یہ لوگ اتارنا چاہتے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کے ساتھ کئی اور اقلیتیں بھی وجود میں آئیں۔ لیکن ان میں عیسائی ایک ایسی اقلیت ہے جو مسلمانوں سے بہت کچھ مشابہت رکھتی ھے ۔جیسے ہندوؤں کے مطابق عسائیت بھی باہر سے آیا ہوا مذہب ہے،عیسائی بھی بیف کھاتے ہیں اور عیسائی بھی مذہب تبدیل کرواتے ہیں ۔مسلمانوں کی طرح ہی عیسائیوں پر بھی شدت پسند ھندوؤں نے کئ بار حملے کئے اورعیسائیوں کو ختم کرنے کی سازشیں کیئں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عسائیوں کو ہمشہ سے دلت اور کئ دوسری ہندو ذاتوں کی حمایت حاصل رہی ۔اسکی بنیادی وجہ عیسائیوں کی خدمت خلق کا جذبہ رہا جس نے کئی دلتوں اور ہندوؤں کے دل جیت لئیے اس کے برعکس مسلمان اس میدان میں بری طرح ناکامیاب رہے۔

ہندوستان میں اس وقت ہم 19 فیصد کے قریب ہیں جب کے عیسائیوں کی تعداد صرف ۴فیصد بتلائی جاتی ہے۔لیکن آپ انکی خدمت خلق کو دیکھئے کے ہندوستان کے ہر گاوؤں ہر بستی میں انکی اسکول ،ہاسپٹل اور کالج موجود ھے جس سے نہ صرف عیسائی بلکہ دوسری قومیں بھی مستفید ہورہی ہیں ۔
ہم صرف ممبئی شہر کا موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوجائیےگا کے ہماری اور عیسائیوں کی ترجیحات میں کیا فرق ھے ۔شہر ممبئی کے مسلمان ہندوستان میں مالی اعتبار سے مضبوط مانے جاتے ہیں۔ جو سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی مالی امدادکا بڑا ذریعہ ھے ۔ہم ممبئی میں ۲۰فیصد کے قریب ہیں جب کہ عیسائی 4 فیصد ۔
اس وقت ممبئی شہر میں عیسائیوں کے ۶ ڈگری کالج ہیں جن میں داخلہ لینا ہر مذہب کے طالب علم کی خواہش ھے۔وہیں مسلمانوں کہ پاس صرف۴ ڈگری کالج ہیں جن میں غیرمسلم کیا داخلہ لیتے خود مسلمانوں کی یہ کالج آخری پسند ہوتی ھے۔ 8انجرئینگ کالج عیسائیوں کے ہیں جبکہ ہمارے پاس صرف ۳ کالج ہیں۔
عیسائیوں کے 4 بڑے ہاسپٹل ہیں جن میں بہت ہی کم خرچ پر تمام ہی لوگوں کا علاج ہوتا ہے اس کے برعکس ہمارے تین ہاسپٹل ھے جس میں سے دو ہاسپٹل بوہرہ اور خوجہ فرقے کو ہی مرعات دیتے ہیں۔

اسکولوں کے معاملے میں تو ہمارا اور انکا کوئی موازنہ ہی نہیں کے انکے اسکولوں کا جو سٹنڈرڈ ھے کہ سنگھی بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔

جب شہر ممبئی میں ہمارا یہ حال ھے تو دوسرے علاقوں میں ہمارا کیا حال ہوگا یہ قابل غورھے۔ممکن ہیں ہمارے کچھ بھائی کہیں کے انکو لندن اور امریکہ سے مالی امداد آتی ہے جس کی وجہ سے وہ انکاموں کو آسانی سے سر انجام دیتے ہیں ۔تو راقم کا سوال ھے کہ مالی امداد تو مسلمانوں کو بھی عرب ممالک سے ملتی ھے لیکن ہم اس مال کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے ۔

عیسائیوں کی اور ایک بات قابل تعریف ھے جس نے انھیں ہندوستان میں کافی حد تک امن فراہم کیا ہے کہ انھوں نے خود کو سیاست سے دور رکھا ۔انھوں نے اپنی ساری توانائیاں خدمت خلق اور دعوت میں صرف کی اور خود کو کسی پارٹی کے ہاتھ کا کھلونا بن نے نہیں دیا ۔اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنی ساری توانائی سیاست ،احتجاج اور ریزرویشن کی مانگ میں خرچ کردی ۔اور خدمت خلق اور دعوت کو نظرانداز کردیا نتیجہ یہ نکلا کے نا صنم ملا نہ خدا ملا اور ہم سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کے رہ گئے۔

وہیں عیسائیوں نے ایک اور حکمت عملی یہ اختیار کی کے انھوں نے اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو عالمی عیسایئ تنظیموں کی مدد سے یواین او میں پیش کیا اور پھریواین او نے بھارت پر دباؤ بنایا اسطرح ان پر ہونے والے حملوں کی شدت میں کمی آگئی۔ اسکے برعکس ہم بشمول رابطہ عالم اسلامی کسی بھی تنظیم کو اپنے حق میں حکومت پر دباؤڈالوانے میں ناکامیاب رے۔

عیسایئوں نے مکی اسوہ نبویﷺ پرعمل کرکے اپنی راہیں آسانی کی اسکے برخلاف ہم اپنے نبیﷺ کے اسوہ سے بیخبر رہے اور اب تک مارے کھارہے ہیں۔

نہ سمجھوگئے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگئی داستانوں میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔