شراب باہرشہاب جیل میں

حفیظ نعمانی

اگر کسی کو دوچار لفظ لکھنا آتے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ قانون سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ ہم تو جمہوریت میں جمہوریت کے فیصلے کو اس لیے آخری فیصلہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا ہے، بہار میں شراب بندی پر ووٹ تو نہیں ڈالے گئے تھے لیکن ہر عدالت اور انتظامیہ کو معلوم ہے کہ پورے بہار میں سو دو سو عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کا مطالبہ تھا کہ بہار میں شراب بند کردی جائے، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو دوسری بار جو بہار میں شاندار کامیابی ملی تو صرف اس وجہ سے کہ عورتوں کی اکثریت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور نتیش کمار کی حکومت بنوادی۔

یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ریاستی حکومت کے اس نوٹیفیکیشن کو جسے دونوں ایوانوں نے پاس کردیا تھا، غیر آئینی قرار دیتے ہوئے منسوخ کیوں کردیا۔ ہم نہیں جانتے کہ گجرات میں شراب بند ہے تو کس قانون کے تحت ہے اور 1977میں جیسے ہی مرار جی دیسائی وزیر اعظم ہوئے انھوں نے پورے ملک میں شراب بند کردی تھی، یہ فیصلہ اس کے بعد ہوا کہ ہر صوبہ کے آدھے اضلاع میں ایک سال بند رہے گی بعد میں پورے صوبہ میں ہوجائے گی، وہ تو کہئے کہ مرار جی کو ملک ہضم نہ کرپایا اور اس کے بعد اندر کمار گجرال کو وزیر اعظم بنایا، پھر چودھری چرن سنگھ بنے اور پھر چندر شیکھر بنے، لیکن اترپردیش کی بات یا د ہے کہ جب بنارسی داس کو اسپیکر کے عہدہ سے ہٹا کر وزیر اعلیٰ بنادیا گیا تھا تو آدھے صوبہ میں شراب بند تھی۔ بنارسی داس جی نے کس تاریخ کو اعلان کردیا تھا کہ اب ملک کی رائے نہیں ہے اس لیے پورے ملک میں شراب کھول دی جائے گی، لیکن اس پر عمل نہیں ہوا تھا۔

اتفاق سے بریلی میں عدالت کی نئی عمارت تیار ہوئی تو اس کا افتتاح کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے شری بنارسی داس گئے تو وہاں وکیلوں نے سوالوں کی جھڑی لگا دی کہ وعدہ کیا تھا کہ یہ ہوگا اور وہ ہوگا، لیکن کچھ نہیں ہوا، اس کے جواب میں ہی وہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’الیکشن میں کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔

سوال یہ ہے کہ جب مرارجی نے پورے ملک میں شراب بند کی تو کس قانون کے تحت کی، اور جب آدھے صوبوں میں ایک سال اور باقی آدھے میںدوسرے سال بند رہی تو کس قانون کے تحت رہی؟

عدالت بے شک قانون کا آخری پڑائو ہے، لیکن ایک منتخب حکومت اپنی آبادی کے پچاس فیصدی کی خواہش پوری کرتی ہے تو اسے اس کا حق کیوں نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرسکے؟ یہ بڑی بد نصیبی کی بات ہے کہ جن کے پاس قارون کا خزانہ ہے، قانون بھی ان کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے، یہ تماشہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اخباروں ،ریڈیوں اور ٹی وی پر شراب ،سگریٹ اور بیڑی کا اشتہار چھاپنے کی اجازت نہیں ہے اور پان مسالہ جس میںوہ سب ہوتا ہے جو سگریٹ اور بیڑی میں ہوتا ہے وہ درجنوں قسم کے ڈبوں اور پیکٹ میں بک رہے ہیں اور ان کے ا شتہار کروڑوں روپے کے نہیں سیکڑوں کروڑ کے چھپ رہے ہیں اور اگر مقابلہ کیا جائے تو ایک تہائی اشتہار تمام چیزوں کے ایک تہائی با با رام دیوکے اور ایک تہائی پان مسالے کے چھپ رہے ہیں۔

یہ بھی دیکھا کہ عدالتوں نے پان مسالے پر پابندی لگائی لیکن جتنی جتنی پابندیاں لگیں اتنی ہی اس کی بکری بھی زیادہ ہوئی اور اب تو مقابلہ کا یہ حال ہے کہ ہر مہینے ایک نئی کمپنی نکل رہی ہے اور نئے فارمولے کے ساتھ بنا رہی ہے، پوری عمر میں یاد نہیں کہ ہر ا خبار میں پورے صفحہ کا کبھی کسی سگریٹ یا بیٹری کا اشتہار ایسا چھپا ہو، لیکن اب ٹی وی پر سکنڈوں کے نہیں منٹوں کے ا شتہار چھپ رہے ہیں اور اخباروں میں پورے صفحے کے، جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ زہر پان مسالے میں بک رہا ہے اور کسی عدالت یا ریاستی حکومت کو فکر نہیں ہے، شراب پر پابندی نہ ہونے سے سب سے زیادہ خوشی وزیر غذا رام ولاس پاسوان کو ہوئی ہے اور وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ نتیش کمار کی نیت ہی صاف نہیں تھی، اب نتیش کمار کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے، اس لیے کہ دیسی اور بدیسی کس کا دروازہ کھلنے کے بعد ان کا مقصد برباد ہوجائے گا اور بی جے پی کی مراد پوری ہوجائے گی۔

کہا جارہا ہے بہار کے ایک سیاسی لیڈر شہاب الدین جو ضمانت پر باہر آگئے تھے، انھوں نے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد خود سپردگی کی اور پھر جیل چلے گئے، خبروں میں کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف 25 مقدمات ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی آدمی نہیں جماعت ہیں، وہ جب جیل سے باہر تھے اس وقت بتایا گیا تھا کہ انھوں نے میڈیکل کالج ، گرلز کالج، تعلیمی ادارے اور نہ جانے کتنے فلاحی کام کیے ہیں، بہار میں شاید ان کی حیثیت وہی ہے جو اترپردیش میں مختار انصاری کی ہے اور اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ جب جیل میں تھے تو اس وقت ایک صحافی کا قتل ہوا تھا جس کے بارے میں شور ہوا کہ شہاب الدین نے قتل کرادیا، بات نتیش کمار کے سوچنے کی بھی ہے اور ان کے سوچنے کی بھی جو  الزام لگا رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ شاطر لوگ جیل میں رہیں یا باہر ان کی حیثیت اور ان کے اثرات میں فرق نہیں آتا، 20ویں صدی کی چھٹی دہائی میں لکھنؤ میں بخشی اور بھنڈاری دو دوست تھے، وہ جیل میں ہوں یا ریل میں، اپنے گھر میں ہوں یا باہر ہر جگہ ان کی حکومت تھی اور باقاعدہ صبح کو گھروں پر دربار لگتا تھا اور جو فیصلے سیشن عدالت نہیں کرپاتی تھی وہ اپنے گھر پر کردیتے تھے، اور وہ اپنے آدمی کے ذریعہ جسے بلواتے تھے اس کی مجال نہیں تھی کہ وہ آنا کانی کرے اور وہ اس وقت آتا تھا اور اسی وقت مقدمہ کا فیصلہ ہوجاتا تھا۔

ہمیں یاد نہیں کہ ان پر کوئی غیر شریفانہ الزام لگا ہو، اوروہ جب کہیں مل جاتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہر میں ان سے زیادہ شریف دوسرا نہیں ہے، عمر میں دونوں ہم سے چھوٹے تھے اور ہر بات پر پاپا جی پاپاجی کہتے تھے، ایسے لوگوں پر جو درجنوں مقدمات ہوتے ہیں ان میں زیادہ تر پولیس کا تحفہ ہوتے ہیں، ورنہ ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ بہادر ہیں، سزا انھیں چاہے جتنی دے دی جائے، پھانسی نہ دی جائے اس لیے کہ وہ وہ نہیں جو بتائے جارہے ہیں، شہاب الدین تو لالو یادو کی طاقت ہیں، اس لیے بھی ہر کسی کا نشانہ ہیں، لیکن نتیش کمار وزیر اعلیٰ ہیں، انہیں اپنا فرض ادا کرنا تھا، وہ انھوں نے کردیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔