شرجیل کی ماں کے آنسو

اعجاز اشرف

(سینئر صحافی)

28 جنوری 2020 کا دن تھا جب کچھ وردی پوش افراد مزمل امام کو بہار کے جہان آباد ضلع کے کاکو میں واقع اس کے دوست کی رہائش گاہ سے اٹھا کر لے گئے۔ ایک کھیت کے نزدیک رک کر وردی پوش افراد کے باس نے چیختے ہوئے کہا، "بھاگو” مزمل غیر اختیاری طور پر زمین پر بیٹھ گیا۔ باس نے اس کے بال پکڑ کر جھٹکا دیا اور پستول کی نلی اس کے منہ میں ٹھونستے ہوئے پوچھا: "شرجیل کہاں ہے؟”

مزمل نے کہا کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کا بھائی کہاں ہے۔

شرجیل 25 جنوری کی شام سے روپوش ہو گیا تھا کیونکہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس کی ایک تقریر کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے پانچ ریاستوں نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھیں۔ 40 منٹ کی ایک تقریر سے 40 سیکنڈ کی کلپ کاٹ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا تھا۔ جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ شرجیل مسلمانوں سے سلی گوڑی کوریڈور جسے چکن نیک (مرغے کی گردن) بھی کہا جاتا ہے، کو بلاک کرنے کی اپیل کر رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے پر ہی مودی سرکار سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کو واپس لے گی۔

کھیت سے وہ لوگ مزمل کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کرونا پولیس اسٹیشن لے گئے۔ ان کے باس نے حکم دیا کہ "اپنا پینٹ اتار دو۔ ” پھر اس نے اپنے ماتحتوں سے کہا کہ اس کی ایک ویڈیو بناؤ اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دو۔ اس دوران وہ چیختا رہا کہ "شرجیل کہاں ہے؟” وہ لوگ اس کی تاک میں دو دنوں سے لگے ہوئے تھے۔

شرجیل دہلی سے ایک وکیل دوست احمد ابراہیم کے پہنچنے کا انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ احمد کی موجودگی میں پولیس کے سامنے خود سپردگی کرے گا۔ احمد ابراہیم 3 بجے کاکو پہنچے۔ لیکن خود سپردگی کے لیے شرجیل کے اپنی پناہ گاہ (کزن کا گھر) سے باہر نکلنے سے پہلے اس کی ماں کو ملاقات کے لیے لے جایا گیا تھا۔

وہ رونے لگیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اسے متنبہ کیا تھا کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں میں شامل نہ ہو۔ اس نے کہا، "اگر ہم پڑھے لکھے لوگ غیر منصفانہ قانون کے خلاف مظاہرہ نہیں کریں گے تو غریب مسلمانوں کے لیے کون کھڑا ہوگا؟” اس نے کہا کہ وہ اپنے والد کی تقلید کر رہا ہے جو 2014 میں انتقال سے پہلے تک کمیونٹی کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے وہ سسک رہی تھیں، انہوں نے جدا ہوتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں کہا: ’’جاؤ، میں تمہیں اللہ کے حوالے کر رہی ہوں۔ صرف وہی سب سے بہتر جاننے والا ہے۔”

اس کے بعد سے اب تک شرجیل کو اس کے خلاف درج سات مقدموں میں سے چار میں ضمانت مل چکی ہے۔ اس کے باوجود وہ دہلی کی تہاڑ جیل میں قید و بند کی زندگی گزار رہا ہے کیونکہ اس کے خلاف 2020 میں دہلی میں فسادات کی سازش رچنے کے الزام میں انسداد غیرقانونی سرگرمی ایکٹ (UAPA) بھی لگایا گیا تھا جس کے تحت ضمانت حاصل کرنا مشکل کام ہے۔ تو ایسا ہوگا کہ شرجیل یکم جون کو اپنی سالگرہ تہاڑ جیل کے اندر منائے گا۔

اس کے گھر والے سالگرہ کا جشن نہیں مناتے۔ مزمل کی یاد داشت کے مطابق اس میں صرف ایک استثناء ہے، جب 1999 میں لالو پرساد یادو کے بیٹے تیج پرتاپ یادو نے شرجیل کو اس کی سالگرہ پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا۔ تیج پرتاپ نے کہا کہ یا تو شرجیل کو چیف منسٹر کی رہائش گاہ پر پارٹی میں آنا ہوگا یا پھر اس کے خاندان کو ان کی اور ان کے محافظوں کی میزبانی کرنی ہوگی۔

شرجیل اور تیج پرتاپ سینٹ زیویئرز ہائی اسکول، پٹنہ میں پانچویں اور چھٹی کلاس میں ہم جماعت تھے۔ امام برادران ہر شام وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ پر کرکٹ کھیلتے تھے۔ مزمل یاد کرتا ہے کہ اس وقت کی وزیر اعلیٰ اور لالو پرساد کی اہلیہ رابڑی دیوی ہر ہولی میں شرجیل اور انہیں اپنی گود میں بٹھا کر مٹھائی کھلاتی تھیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب شرجیل کی سالگرہ منائی گئی تھی۔

تیج نے چھٹی جماعت کے بعد سینٹ زیویئرز چھوڑ دیا۔ وہ 2015 میں حکومت بہار میں وزیر بن گئے۔ شرجیل انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، ممبئی چلے گئے۔ ابھی وہ جیل کی مشکلات جھیل رہا ہے۔ دونوں اسکولی لڑکوں کی متضاد کہانیوں پر شرجیل کی ماں شاید یہی کہیں گی: اللہ بہتر جانتا ہے۔

آئی آئی ٹی ممبئی میں، شرجیل نے کیمپس میں مسلمانوں کی نہ کے برابر موجودگی کو وہاں کے اسلاموفوبیا کی اصل وجہ کے طور پر شناخت کیا۔ وہاں اس کی داڑھی اور اسی طرح کی چیزوں پر سوال کیا گیا۔ ایک مرتبہ ایک ہاسٹل کے انڈکشن انٹرویو میں ایک طالب علم نے پوچھا: اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو وہ کیا کرے گا؟ اس کے باوجود اس نے کئی ہندو دوست بنائے جو اس کی جاری آزمائشوں اور مصیبتوں میں مختلف طریقوں سے اس کی مدد کر رہے ہیں۔

آئی آئی ٹی سے بی ٹیک اور ایم ٹیک کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اسے ایک بین الاقوامی بینک سے 37 لاکھ سالانہ کی نوکری کا آفر ملا جسے اس نے ٹھکرا دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایسے ادارے کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا تھا جو سود سے نفع کماتا ہو، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ بنگلورو میں دو سال کام کرنے کے بعد اس نے ایک دن اپنے والد کو فون کیا، تاریخ کا مطالعہ کرنے کی اجازت مانگی۔

اس کے والد نے اجازت دے دی لیکن ماں نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ شرجیل کی آمدنی کے بغیر گھر کے مالی مسائل بڑھ جائیں گے۔ اس کے والد نے جواب دیا کہ ایک شرجیل کوئی کتاب لکھے گا جسے دنیا پڑھے گی۔ اس کا انتخاب دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کے ماسٹر کورس کے لیے ہو گیا تھا۔ 2014 میں اس کے والد کے پیٹ میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔ طبی اخراجات پورے کرنے کے لیے شرجیل کارپوریٹ دنیا میں واپس جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے والد نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا، "میں جلد ہی مرنے والا ہوں۔”

اس کی قید کی وجہ سے اس کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ادھورا پڑا ہے۔ جیل میں وہ پڑھتا رہتا ہے اور اپنے تجربات کو ڈائری میں قلم بند کرتا ہے۔ اسے امید ہے کہ وہ ایک دن کتاب لکھ کر اپنے والد کے خوابوں کو ضرور تعبیر بخشے گا۔ اس کی بیوہ ماں ہر نماز میں شرجیل کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہیں۔ اپنے بیٹے کے ساتھ ہفتہ وار ویڈیو چیٹ کر کے انہیں قدرے اطمینان ہوتا ہے۔

جب ان کا دل غم سے بھر جاتا ہے تو طبیعت ہلکی کرنے کے لیے رو لیتی ہیں۔ ان کے لہجے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ابھی ابھی روئی تھیں۔ انہوں نے پرجوش انداز میں پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ شرجیل نے تہاڑ میں عید کی نماز کی امامت کی؟ "ماشاء اللہ، شرجیل کا وزن بڑھ گیا ہے،” اس کی ماں نے خلیل جبران کے لکھے ہوئے الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: "آپ کی خوشی آپ کے غم کی انتہا ہے۔” کوئی سنگدل حکومت کسی ماں کی امید کو معدوم نہیں کر سکتی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔