شرم ان کو مگر نہیں  آتی

نوٹ بندی کے فیصلے کو نافذ ہوئے تقریبا دو ماہ کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ملک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی ماحول میں  بحث جوں  کے توں  بنی ہوئی ہے. ہر امیر و غریب، بچے بوڑھے، آدمی جوان سب اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں . چائے کی دکان سے لے کر یونیورسٹیوں  كے کیمپس تک نوٹ بندی بحث کا موضوع ہے. لیکن نچلے اور متوسط ​​طبقے کا آدمی ایک بار پھر حکومتی تخت پر بیٹھے رہنماؤں  کی جانب مایوسی سے منہ تک رہا ہے "ہر بار میں  ہی کیوں "؟ یہ سوال پرانا ہے، لوگ بھی پرانے ہیں  لیکن سوال میں  ہر بار کی طرح درد اور بغیر پھوٹا ہوا غصہ ہے. نیت تو بدعنوانی سے پاک ہندوستان بنانے کی تھی ناں ؟ قدم تو اسی لئے اٹھایا تھا تاکہ بدعنوان افراد کی کالی کمائی سے بھری تجوریاں  خالی کرائی جا سکیں ؟ لیکن کہاں  ہیں  وہ بدعنوان افراد؟

ایک نئی امید کا خواب اس ملک کی آنکھوں  میں  پل رہا تھا کہ میرا ملک تبدیل ہورہا ہے. آنکھ کھلی، خواب بکھر گیا اور دیکھا کہ ملک نہیں  بلکہ لوگ تبدیل ہورہے ہیں . درمیانی طبقے کا وہ آدمی جو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لئے کوشاں  تھا، آج ملک کے حالات تبدیل ہونے کا انتظار کر رہا ہے. اور انتظار کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ انتظار اتنا لمبا کیوں  ہوتا ہے؟ ہر بار امید کیوں  ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے؟

 رہنماؤں  اور امیر طبقوں  کے بدعنوان قسم کے لوگوں  سے تو عوام پہلے ہی واقف تھی لیکن اب بینک کے افسر بھی۔

نوٹ بندی کے اس فیصلے کا اعلان تو وزیر اعظم نے کیا تھا لیکن اس فیصلے کو آسانی اور متوازن طریقے سے چلانے والے تو آپ تھے. اب آپ بھی اسی رنگ میں  رنگ گئے!!! سردی گرمی، جاڑا پالہ بھول کر نہ جانے کتنے رکشہ ڈرائیور، چائے والے، طالب علم، خواتین اور بزرگ دو ہزار کے ایک نوٹ کے لئے لائن میں  کھڑے رہے اور آپ نے پردے کے پیچھے سے کسی کی لطف اندوزی اور عیش و آرام کی خاطر اپنا ضمیر فروخت کر کروڑوں  نوٹ تبدیل کر ڈالے اور ایک بار بھی یہ نہیں  سوچا کہ یہ نوٹ کس کے حق کے تھے؟ ان نوٹوں  پر کس کا گھر، خاندان منحصر ہے؟

افسوس ہے کہ جن کے کندھوں  پر ملک تبدیل کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی، انہیں  اس ذمہ داری کا کوئی احساس نہیں  ہے. پھر ملک کب اور کس طرح بدلے گا؟

 کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ ایکسس بینک کالے دھن کو سفید کرنے میں  ملوث پایا گیا. ای ڈی نے دہلی کے کشمیری گیٹ کے ایکسس بینک کی شاخ کے منیجر کو گرفتار کیا جن پر تقریبا چالیس کروڑ روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے کا الزام ہے. اس کے بعد ایکسس بینک نے اپنے انیس افسران کو معطل کر دیا.

اسی طرح سی بی آئی نے بنگلور کے ایک بینک منیجر کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس پر ریزرو بینک کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بڑی رقم کو تبدیل کرنے کا الزام ہے اور جس میں  ایک بڑے کاروباری کا ہاتھ بھی شامل ہے.

 کچھ دنوں  پہلے ہی الْوَر سے خبر آئی تھی کہ وہاں  بھی ایک گاڑی میں  نئے نوٹوں  کی ایک بڑی رقم لے جائی جا رہی تھی.اور اب بھی ملک کے کئی بینکوں  میں  ای ڈی کی طرف سے منی لانڈری کے شک کی بنیاد پر چھاپے مارے جا رہے ہیں .

سرکاری اعداد و شمار کی مانیں  تو ملک میں  تقریبا 14.5 لاکھ کروڑ روپے کے 1000 اور 500 کے نوٹ گردش میں  تھے اور جب تک تقریبا 12 لاکھ کروڑ روپے بینکوں  میں  آ چکے تھے، حکومت مسلسل معلومات دے رہی تھی لیکن ایسا کیا ہوا کہ معلومات دینا ہی بند ہو گئی؟ صاف ہے کہ اعداد و شمار سے زیادہ پیسہ بینکوں  میں  آ گیا. تو اس کا مطلب کہ یہ سمجھا جائے کہ سال کے آخر تک سارا کالا دھن بینکوں  میں  جمع ہو گیا؟ لیکن اعداد و شمار تو یہ بھی ہیں  کہ 8 نومبر کے اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں  نوٹ بندی کی وجہ سے تقریباً نوے جانیں  جا چکی ہیں  اور اس پر بھی مرکزی وزیر کرشنا راج کا یہ بیان کہ لائنوں  میں  انہی لوگوں  کی موت ہو رہی ہے جو ملک کو لوٹ رہے تھے، انتہائی مایوس کن ہے.

خبریں  تو یہ بھی ہیں  کہ اس دوران ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں  میں  اضافہ ہوا ہے. منڈیوں  میں  کھڑے ٹرکوں  میں  لدا ہوا مال سڑ گیا لیکن اتارا نہیں  گیا. اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ اثر نچلے اور درمیانی طبقے پر پڑا ہے. اعلی طبقے کے افسران ، کرسیوں  پر فائز لیڈران ہی ان مسائل کو پیدا کرنے والے ہیں  کیونکہ وہ اپنی طاقت اور اقتدار کا غلط استعمال کرتے ہیں .

معزز وزیر اعظم شاید یہ بات بھول گئے کہ جن لوگوں  کے کندھوں  پر وہ بدعنوانی سے پاک ہندوستان کی ذمہ داری ڈال رہے ہیں ، ان کے چہروں  کے اندر ایک اور چہرہ ہے جو کہ ایک بدعنوان افسر کا چہرہ ہے.آج وہ لوگ اپنا کالا دھن سفید کر کے نہ صرف ملک کی معیشت اور قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں  بلکہ ملک کے وزیر اعظم کو بھی چیلنج دے رہے ہیں  کہ ہم کالے دھن کے سرپرست ہیں  اور عام آدمی ایک بار پھر لائن میں  کھڑا ہے،اس امید میں  کہ ملک تبدیل ہورہا ہے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔