شر پسند عناصر: ایک منفی فکر جس کو اب بھارت میں کامیابی مل رہی ہے

مصباحیؔ  شبیر

جب بھی ہمارے ملک ِ عزیز ہندوستان میں کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس سے کہ ہندوستان میں برسوں سے چلی آرہی ہندو مسلم ایکتا کی مضبوط بنیاد کو چوٹ پہنچتی ہے تو میرے دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ایسے واقعات اب مسلسل پیش آرہے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابھی حال ہی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش آیا۔حالانکہ دیکھا جائے تو جس بات کو لے کر اتنا سارا ہنگامہ ہوا یہ کوئی بڑی بات تو نہیں تھی صرف جناح صاحب کی تصویر کو ہٹانے کا مطالبہ تھا اور چند لوگ ایسا کرنے سے منع کر رہے تھے۔ لیکن شر پسند عناصر نے اپنی حکمت عملی کے مطابق اس بات کو ایک بڑا مدعا بنا کر اپنے ہنگامے کو دیش بھکتوں کی لڑائی بتایا اور جو لوگ ایسا کرنے سے منع کر رہے تھے چونکہ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی تو ان کو دیش مخالف ثابت کرنے میں اپنی پوری طاقت صر ف کیا۔ خیر اس واقعہ کے پس ِ منظر میںبھی وہیں طاقتیں سرگرم تھیں جو عمومًا ایسے واقعات کے پس منظر میں ہوتی ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ یہ اپنی طاقت منوانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔

لیکن بات اگر مسلم یونیور سٹی کے ایک ہال میں لگی  ایک برسوں پرانی تصویر کو ہٹانے کی شر پسندوں کی اس مانگ کی کی جائے تو بظاہر یہ کوئی بڑی مانگ تو نہیں اور اگر یہ تصویر وہاں سے ہٹا بھی لی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ مگر یہ سوال یہاں یہ ضر ور ہے کہ آخر برسوں پرانی اس تصویر کی یاد انہیں آج کیوں آئی؟ بعض احباب اس سوال کا جواب کرناٹک اسمبلی چنائو کے تناظر میں فائدے کیلئے رچی گئی ایک سازش سمجھ سکتے ہیں لیکن میرے حساب سے ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ ایسے تمام واقعات کا تعلق سیدھے طور سے انسان کی ذہن سازی سے ہے۔

آج ملک ِ عزیز ہندوستان کی کچھ ہندو شر پسند تنظیمیں ملک کے ہندئوں بھائیوں کے اذہان میں ایسی باتیں ذہن نشیں کرانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں کہ یہ ملک صرف ہندئوں کا ہے، یہ ماضی بعید میں بھی ہندئوں کا تھا، حال بھی ہندئوں کا ہے اور مستقبل بھی اس ملک کا ’’ ہندو راشٹر‘‘ہی ہے،  مسلمانوں نے حملہ کرکے قابض ہوکر یہاں حکومتیں کی ہیں اب بھی اپنے حصے کا پاکستان لینے باوجود ہمارے ملک ہندوستان میں قابض ہونے کی فراق میں ہیں۔ اس لئے ہم یعنی ہندو قوم کو مسلمانوں کا کافیہ حیات اتنا تنگ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسلمان ہمارے ملک کو چھوڑ کر بھاگ جائیں یا یہاں رہیں بھی تو ہمارے محتاج بن کر نہیں تو انہیںہندو بن کر رہنا ہوگا۔ اور یہ خرافاتی باتیں ہمارے چند ہندو بھائیوں کے ذہنوں میں ایسی رچی بسی جارہی ہیں کہ انہیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کریں ؟اوپر سے اس میں تھوڑا مذہبی جنون کا ایسا ملاپ کیا گیا ہے کہ ہمارے چند ہندو بھائی تو اس نشے میں اس قدر مست دیکھائی دے رہیں کہ انہیں اپنے مستقبل تک کی فکر نہیں ہے بس ’’ہندو راشٹر‘‘ کا ایک بھوت ان پر سوار ہے۔ اب بھلا ہمارے ان بھولے بھالے چند بھائیوں کو کون سمجھئے کہ ہمارے ملک ہندوستان کا سنہرا ماضی کیا تھا ؟ اور حال کتنا بے حال کیوں ہے؟ اور مستقبل میں کیا ہوگا؟ ایسے میں ایک امید ملک کی دانشگاہوں کے نصاب بنانے والوں اور جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا سے ضرور تھی لیکن فی الحال یہ دونوں ادارے بھی شر پسند عناصر کے ہی زیر اثر دیکھائی دے رہے ہیں۔ اب ذرا اس پر بھی بات ہوجائے کہ یہ شر پسند عناصر چاہتے کیا ہیں ؟

کیا واقعی ’’ہندئوں راشٹر ‘‘ بنانا ان کا مقصد اصلی ہے؟ ان سوالات کا ایک ہی جواب ہے کہ ان کا مقصد ایسا بالکل ہی نہیں ہے یہ مندر بنوانا، یہ ہندو راشٹر بنانا تو ایک ایسی شراب ہے جس کے حصول کا تو ذکر ہوگا لیکن عاشق کو یہ شراب کبھی پلائی نہیں جائے گی۔ اور ان کا ایک ہی مقصد ہے وہ ہے ’’اقتدار‘‘ وہ اس طرح سے ہے کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں اقتدار حاصل کرنے کا صرف ایک طریقہ جمہوری ہے اب جمہوری طریقے پر تو انہوں نے آزما لیا کہ یہ بہت مشکل ہے توجمہوریت پر ان کا ایمان نہیں رہا۔ اس لئے دوسرا طریقہ یہ ڈھونڈ نکالا گیا کہ کسی طرح سے ایسے چند مدعوں کو گرما کر اقتدار حاصل کیا جائے اور ہاں یہ فکر آزادی کے فورًا بعد شروع ہو گئی تھی لیکن حمایتی نہیں ملے کیونکہ نتھو رام گھوڑسے نے جب گاندی جی کو گولی ماری تو یہ ایک شخص کا دوسرے شخص کو گولی مارنا نہیں تھا یہ ایک فکر کا دوسری فکر کو گولی مارنے سے عبارت تھا۔ بس اس وقت کسی نے حمایت نہیں کیا اس لئے یہ فکرکچھ دب گئی تھی لیکن اب مذہبی شراب کے زیر اثر اس فکر کو پھلنے پھولنے کا ایک موقعہ ملا۔

اس فکر کے مارے اقتدار کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جمہوری طریقے سے تو کچھ ہونے والا نہیں یہ بات ایسی طاقتیں بھی جانتی ہیں اس لئے ایسی طاقتیں مذہبی شراب کے ملاپ اور ’’ہندوراشٹر ‘‘ کے جادوئی نارے کے ذریعے ملک کو ایک اور تقسیم کی دہلیز تک لے جانے پر اتارو ہیں اور یہ چھوٹے چھوٹے متشدد واقعات اسی سازش کی ایک کڑی ہے یا جزئو ہیں۔ اب ملک کی ایک اور تقسیم سے ملک پر کیا کاری ضرب پڑی گی اس کے انجام سے تو ایسی طاقتیں بے خبر تو نہیں ہیں مگر اپنے مقاصدِ فاسدہ کے حصول کے لئے یہ اس سے پر ہیز بھی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ اقتدار پر قابض ہونا ان کا مقصد ِ اصلی ہے۔

اس لئے ملک ِ عزیز کے ہر ذی حس شہری، تمام مذاھب سے تعلق رکھنے والے باشعور افراد خصوصًا نوجوانوں کو اس فکر کی ہولناکی و تباہی کو قبل از وقت ہی محسوس کرنا ہوگا اور ملک کو بچانا ہوگا۔ کیونکہ تقسیم ہو یا تشدد یہ ایک ایسا زہر ِ قاتل ہے جس کو منقسم ہوں یا متشدد، فاتح ہو یا مفتوح ہر ایک کو زہر ہلال سمجھ کر پینا پڑتا ہے۔ اور ایسے وقت میں سب سے زیادہ ذمہ داری ہمارے ہندو معزیزین کی ہے کہ وہ ان آستین کے سانپوں کو وقت رہتے ہی مار ڈالیں ورنہ یہ کل آپ کوہی ڈسیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔