شمبھو کی ذہنیت ختم ہو

 ڈاکٹر عابد الرحمن

 راجستھان میں ایک مسلم مزدور کے ساتھ جو ہوا وہ چونکا نے والا ہے۔ ملک میں مسلمانوں کے حالات بد سے بدتر ہو تے جارہے ہیں، مسلم مخالف ہر کارروائی پہلے کے مقابلے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ گائے اور گائے کی نسل کے جانوروں کی تجارت یا نقل و حمل کر نے والے مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کارروائی سے شروع ہوئی نفرت کی یہ لہر اب عام اور غیر متعلق مسلمانوں تک پہنچ گئی ہے۔ اب تک یہ ساری وارداتیں اجتماعی ہوتی تھیں جن میں کوئی شدت ہندو تنظیم اپنے ممبران کے ذریعہ یا پھر عوام کو ساتھ لے کر واردات انجام دیتی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ انفرادی جھگڑے بھی ہندو مسلم منافرت کے زیر اثر آ گئے خاص طور سے ٹرینوں میں سیٹ کے معمولی جھگڑے بھی مسلمانوں کو قاتلانہ مار دھاڑ اورچلتی ٹرین سے باہر پھینک دئے جانے تک پہنچا دئے گئے۔ لیکن راجستھان کا یہ واقعہ نفرت کی اس لہر کا نقطہء عرج ہے جس میں ایک شخص محض ایک ایسے اشو کے لے کر کہ تفتیشی ایجنسیوں نے جس کی اجتماعی اور تنظیمی موجودگی سے ہی انکار کردیا ہے ایک بے قصور اور غیر متعلق شخص کو کام کے بہانے کھیت لے گیا اور وہاں اسے کلہاڑی سے بہت سفاکی اور بر بریت سے مار مار کر ادھ مرا کردیا اور پھر پیٹرول ڈال کر زندہ جلادیا یہی نہیں یہ ساری واردات کی ویڈیو بھی بنوائی اور وہ بھی چودہ پندرہ سال کے اپنے کم سن بھانجے کے ذریعہ۔ حد ہو گئی ! خود تو نفرت کی گندی نالی میں لت پت ہے اپنی نسل کو بھی وہی تعلیم دے رہا ہے۔

 یہ دراصل نفرت کے اس ماحول کا اثر ہے جو صرف اور صرف سیاسی مفادات کے حصول کے لئے بنا یا جا رہا اور مسلسل پھیلا یا جا رہا ہے۔ جس میں مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعہ مسلمانوں کو ہندوؤں کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کی مہم چلائی جا رہی ہے اور ہندوؤں کو ان کے خلاف مسلسل اکسا یا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کے زیادہ تر ہندو ؤں کے ذہن پوری طرح مسموم ہو گئے ہیں ۔ انڈیا ٹوڈے کی ۸،دسمبر کی آن لائن رپورٹ کے مطابق اس معاملہ کی اب تک کی تفتیش کے ذریعہ پتہ چلا ہے کہ افراض الاسلام بے قصور تھا اس کا کسی ہندو لڑ کی سے کوئی تعلق نہیں تھا( یعنی جس الزام ( لو جہاد )کے تحت اسے بر بریت کے ساتھ قتل کیا گیا اس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا )ملزم شمبھو کا کہنا ہے کہ اس نے افراضل کو صرف اس لئے نشانہ بنایا کیونکہ وہ مسلمان تھا۔ یعنی ایک بے سر پیر کے الزام لو جہاد کے متعلق اس کے دل میں مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت بھری ہوئی تھی کہ اس نے کسی بھی مسلمان کو مار دینا غلط نہیں سمجھا۔

پولس نے شمبھو اور اس کے بھانجے کو گرفتار کر لیا ہے اور راجستھان کی وزیر اعلیٰ نے اس واقعہ کو ’لر زہ خیز‘ کہہ کر اس کی مذمت کی ہے اور اس کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپئے معاوضہ بھی دیا ہے لیکن کیا یہی کافی ہے؟ملزم شمبھو لال کا کسی شدت پسند ہندو گروپ سے تعلق ثابت نہیں ہو پایا ہے اور نہ ہی اس کی فیملی میں کسی دوسری ذات یا مذہب میں کوئی شادی ہی ہوئی ہے یعنی جس سبب سے اسنے یہ سفاکانہ قدم اٹھایا نہ اسکی ذات سے اس کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی اسکے کسی رشتہ دار سے۔ اور اس بر بریت کے بعد اسے کوئی پشیمانی بھی نہیں ہے۔ یعنی اس نے جو کچھ کیا اس کے لئے وہ شرمندہ نہیں کیونکہ وہ اسے غلط اور برا ہی نہیں سمجھتا بلکہ اسے سماج کی خدمت سمجھتا ہے اور یہ سب کچھ دراصل اس ماحول کا اثر ہے جو مسلمانوں کے خلاف بتدریج بنایا گیا اور اب خاص طور سے لو جہاد کے نام پر اسے خوب آگ لگائی جا رہی ہے۔

شمبھو کو تو اس معاملے میں سخت ترین سزا ملنی ہی چاہئے لیکن صرف اسے سزا دینے سے اس طرح کے معاملات رو کے نہیں جا سکتے ابھی تو حال یہ ہے کہ یہ بھی نہیں بتایا جا سکتا کہ ملک میں کتنے شمبھو ریزروڈ پولس فورس کی طرح موجودہیں جو یا تو وقت کے انتظار میں ہیں یا کسی بھی وقت معمولی اکساہٹ سے اسی طرح متحرک ہو سکتے ہیں اور ان کے کتنے ہی حمایتی موجود ہیں جو لفظی ہمت افزائی کے ساتھ ساتھ ان کی مالی اعانت کو بھی تیار بیٹھے ہیں ۔ خبر ہے کہ کچھ لوگوں کی طرف سے شمبھو لال کی اس سفاکانہ حرکت کی حمایت کی جارہی ہے اور اس کے لئے راجستھان میں ایک ریلی کے انعقاد کی بھی خبر ہے یہی نہیں بلکہ اس کی بیوی کے لئے مالی اعانت کی اپیل بھی کی گئی ہے جس کے تحت ملک بھر سے تقریباً ۵۱۶، افراد نے لگ بھگ تین لاکھ روپئے دئے ہوئے اکاؤنٹ میں جمع کروادئے ہیں ۔ اور خاص بات یہ کہ ملک کی کوئی ایک ریاست بھی ایسی نہیں جہاں سے ڈونیشن نہ آیا ہو ( انڈین ایکسپریس ۱۴، دسمبر ۲۰۱۷)

 یعنی پورے ملک میں ہر ریاست میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرح کے شمبھو لالوں کے حامی ہی نہیں بلکہ انکی مالی اعانت کو بھی تیار بیٹھے ہیں ۔ اور یہ انتہائی خطر ناک رجحان ہے جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے پریشان کن ہے بلکہ ہندوؤں کے لئے بھی پریشان کن ہے، کیونکہ تقریباً انہی حالات اور اسی طرح کے عوامل نے آج پاکستان کو خود ان لوگوں کے لئے بھی غیر محفوظ بنادیا ہے جن کے نام پر یہ حالات پیدا کئے گئے تھے۔ اور امید افزا بات ہے کہ ملک کے کئی ہندو عوام اور خواص اس بات کو سمجھتے ہوئے اس نفرت انگیزی کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن اشد ضروری ہے کہ حکومت اس نفرت انگیزی کو روکنے کے لئے سخت ترین اقدامات کر ے چونکہ نفرت کا یہ ماحول بنانے والے اور لو جہاد، انٹی رومیو اسکویڈس، گھر واپسی، گؤ رکشا، اور دھرم سیناؤں کے نا م مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والے سب لوگ بی جے پی کے ہی نظریاتی بھائی بند ہیں اس لئے ان کی دہشت گردی کے خلاف کھل کر اور عملی طور پر سامنے آنا پچھلی حکوتوں سے زیادہ اس حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن حکومت اپنے پیشروؤں سے بھی زیادہ خاموش ہے اگر بولتی ہے تو اسے عملی جامہ نہیں پہناتی بلکہ اس ضمن میں اس کی کارکردگی اکثر مسلم مخالف تشدد کر نے والوں کی طرفداری پر مبنی ہوتی ہے۔

 اخلاق کے ملزمین میں سے ایک جب مرا تو اسے شہید وطن کی طرح قومی پرچم میں کفنایا گیا اور حکومت نے اسے روکنے کی کوئی معمولی کوشش بھی نہیں کی، حافظ جنید کے قتل کے معاملہ میں بھی خبر ہے کہ خود وکیل استغاثہ ملزمین کی مدد کرتے ہوئے پایا گیا، پہلو خان کے ملزمین کو پولس نے کلین چیٹ دے دی اور حکومت نے کوئی چوں چرا نہیں کی، اس سے لگتا ہے کہ حکومت اس طرح کے معاملات میں سنجیدہ نہیں ہے بلکہ اس سے سیاسی فوائد احاصل کر نا چاہتی ہے اور اس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ حکومت کی پالسیوں کو چیک کر نے والا میڈیا بھی سوائے چند کے ان معاملات نہ صرف اپنا فرض منصبی ادا نہیں کر رہا بلکہ الٹ اس ذہنیت کو بڑھا وا دے رہا ہے جس کے اثر کے تحت ہی اس طرح کے معاملات انجام دئے جاتے ہیں ۔خاص طور سے ٹی وی نیوز چینل اس ضمن میں انتہائی غیر سنجیدہ ہیں بلکہ انتہائی سنجیدگی سے اس مسلم مخالف ذہنیت کو پروان چڑھا رہے ہیں ،وہ یہ کرتے ہیں کہ اس طرح کی وارداتوں کے بعد چند منھ زور مباحثیوں کو اسٹوڈیو میں بلوا تے ہیں اور پھر وہ اس آگ میں مزید تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں ۔ ان سبھی عوامل کی وجہ سے اسی لئے یہ نفرت کی مہم پہلے کے مقابلہ مزید قبیہ صورت میں مسلسل ظاہر ہورہی ہے۔

 ان حالات میں سول سوائٹی کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر ان سب عوامل کے خلاف آگے آئیں نہ صرف اس طرح کی وارداتوں کی مخالفت کریں ، ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں بلکہ اس طرح کی وارداتوں کے لئے ذمہ دار ذہنیت کو ختم کر نے کے بھی اقدامات کریں ۔ یہ معاملہ اتنا حساس ہے کہ اس کی مخالفت میں مسلمانوں کا نکلنا اسے مزید آگ لگا سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ سول سائٹی اس کے لئے مسلمانوں کا انتظار نہ کرے اور اپنے ملک کے مستقبل کو بچانے کے لئے خود ہی آگے آئے۔

اس معاملہ میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں ہے، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اول فول بکنے، جذباتی جملے بازی کر نے فوٹو شوٹ اورمیڈیا میں نام ونمود حاصل کر نے کی اوچھی کوششوں کی بجائے انتہائی منظم طریقے سے اور بغیر کسی شور شرابے کے اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کرتے رہیں اورانتہائی خاموشی کے ساتھ پردے کے پیچھے سے اس کے لئے کام کر نے والی سول سوسائٹی کی ہر ممکن اعانت کرتے رہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔