شکوۂ وقت ہے مجھے وقت سے ہیں شکایتیں

شاید 80 اور 75 سال پہلے کی بات ہے کہ ہمیں پڑھایا گیا تھا۔

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

جس شاعر کی یہ نظم تھی وہ مسلمان تھا اور اس کے زمانہ میں بھی بھینس زیادہ دودھ دیتی تھی اور گائے کم، اور دوسرے شعر میں اس نظم میں کہا گیا تھا کہ ع جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں ۔  اور زیادہ دودھ دینے کی وجہ سے وہ گائے کے بجائے بھینس بھی کہہ سکتا تھا لیکن اس نے گائے اس لئے ضروری سمجھا کہ اس زمانہ میں ہندو بچے بھی اردو پڑھتے تھے اور گائے سب کے لئے پیاری رہی ہے۔

مسلمانوں میں بھی گائے بے زبانی، فرماں برداری، اطاعت اور معصومیت کی علامت رہی ہے۔  جس بچی کی تعریف کی جاتی تھی بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ بالکل گائے ہے۔  1947 سے پہلے پورے ہندوستان میں ان تمام خوبیوں کے باوجود وہ کھائی بھی جاتی تھی اور سطروں کے لکھنے والے اپنی اس عمر میں 1947 سے پہلے تھی اور جو ہندو اکثریت کے شہربریلی میں گذری ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ ہندو مہا سبھا یا کسی دوسری ہندو تنظیم کے تحت گئو رکشک نوجوان یا جوان سڑکوں پر اترآئے ہوں اور انہوں نے مطالبہ کیا ہو کہ سبزی منڈی کے اندر گوشت مارکیٹ میں گائے کا گوشت نہیں بکے گا۔  اس مارکیٹ میں صرف گائے کا گوشت بکتا تھا بکرے کے گوشت کی شہر کے مختلف علاقوں میں گنی چنی دوکانیں تھیں ۔  جہاں سے وہ لوگ گوشت خریدتے تھے جنہیں اس زمانے کے حکیم روٹی کا چھلکا اور بکرے کے گوشت کا شوربہ بتاتے تھے۔

ملک کے وہ بہادر جو اب کسی مسلمان کو کسی بھی ضرورت کے لئے گائے لے جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ ا ور ان کی جان تک لے لیتے ہیں وہ اپنے پتا جی اور اگر زندہ ہوں تو دادا جی سے یہ کیوں معلوم نہیں کرتے کہ آپ کے زمانہ میں ہر دن ایک شہر میں سیکڑوں، ایک صوبہ میں ہزاروں اور ملک میں لاکھوں گائیں کٹتی تھیں توآپ لوگ کیا گائے کو قابل احترام اور ماں نہیں سمجھتے تھے؟

ان سطروں کے لکھنے والے کے نام کے حوالہ سے معلوم کیجئے گا کہ وہ بریلی کے محلہ شاہ آباد کے اندر ایک چھوٹے سے گھرمولوی عبدالقیوم میں رہتا تھا بقرا عید سے ایک دن پہلے 10 یا 15گائیں لئے ہوئے ان کو فروخت کرنے والے آتے تھے۔  اور وہ ہندو محلوں اور ہندو بازاروں میں سے گذرتے ہوئے آتے تھے۔  اور ہر کسی کو معلوم تھا کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کریں گے جو کل کو انہیں قربان کردیں گے۔  لیکن گائیں لانے والے کسی بھی بیوپاری کو کوئی راستہ میں نہیں روکتا تھا۔  اور اگر یہ بات سچ ہے تو ایسا کیوں ہوتا تھا جب کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی اکثریت ہندوؤں کی تھی اور سرکاری ملازم بھی زیادہ تر ہندو تھے۔

اور یہ تو 1963 کی بات ہے کہ سنبھل میں آچاریہ کرپلانی اور حافظ ابراہیم کے درمیان الیکشن ہورہا تھا۔  جو پوری طرح ہندو مسلم بن گیا تھا۔  ہم لکھنو سے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے گئے تھے اورآچاریہ کرپلانی جی کی حمایت میں تقرریں کر رہے تھے۔  اس زمانہ میں بقرا عید آگئی۔  کوتوالی میں ایک امن کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں ہندو مسلمان بلائے گئے تھے۔  ہم نے ماحول کو سنبھالنے کے لئے الیکشن کو ہندو مسلم بنانے کے خلاف کئی تقریریں کیں ۔  اور ہم خود سنبھل کے رہنے والے تھے۔  ایس ڈی ایم نے ہمیں خاص طور پر بلایا اور چاہا کہ ہم وہاں کچھ کہیں ۔  مقامی ہندو جوش میں تھے کہ قربانی میں گائیں کاٹی جائیں گی اور مسلمان پولیس کی ناک کے نیچے سے خرید خرید کر گائیں لئے جارہے ہیں ۔  ہمیں یہ بات معلوم تھی کہ گائیں آرہی ہیں اور پولیس کو اس کا پورا حق دیا جارہا ہے میٹنگ میں جب ماحول گرم ہوا تو انسپکٹر نے کہا کہ پولیس اندھی نہیں ہے کوئی گائے نہیں آئی اورآپ لوگ جوش دکھائیں گے تو سب کو افواہ پھیلانے کے الزام میں بند کردوں گا۔  ایس ڈی ایم نے معاملہ کو سنبھالا اور کہا کہ آپ سب گائوں گائوں جاکر کیوں نہیں کہتے کہ کوئی ہندو مسلمان کے ہاتھ گائے فروخت نہ کرے۔  اور مویشی بازار میں بکنے آئیں تو آپ زیادہ قیمت دے کر خرید لیں ۔  جب ماحول ایسا بنا تو ہم نے اسی میں عافیت سمجھی کہ اپنے کو لکھنو میں رہنے کی وجہ سے حالات سے ناواقف تسلیم کرلیں ۔  اس لئے کہ حکومت پوری طرح حافظ ابراہیم کے الیکشن کی وجہ سے مسلمانوں کی حمایت کر رہی تھی۔

کئی برس بعد معلوم ہو اکہ پولیس کے سخت رویے کی وجہ سے مسلمان گائیں خرید کر نہیں لائے۔  جو لا رہے تھے ان سے گائیں چھین لیں اور ان سے ضمانت لی کہ وہ عید کے بعد آکر اپنی گائے اور پیسے لے جائیں ۔  اس کے بعد مسلمانوں نے گائیں خرید کر لانا بند کردیں ۔  اور گئو رکشکوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کے بعد گائوں والے گائیں لے کر خود آئے اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر دیں کہ مہینوں سے انہوں نے دودھ دینا بند کردیا ہے اور ہم انہیں اس لئے اچھا کھلا رہے تھے کہ عید کے موقع پر ان کے اچھے پیسے مل جائیں گے۔  اور وہ سب ہندو تھے۔

ہم نے پرسوں ہی لکھا تھا کہ سنبھل میں ہمارے بھائی نے 40 ہزار کی گائے خریدی ہے۔  اور پانچ دن ہم بھی اس کا دودھ اور چائے پی کر آئے ہیں ۔  ہندو بھائیوں کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انگریزوں کی حکومت میں سو سال تک گائے ماں اور دیوی کیوں نہیں رہی؟ یہ بات تو نہ ہم نے پڑھی اور نہ سنی کہ کس سال سے انگریزوں نے گائے کاٹ کر کھانے کی اجازت دی۔  لیکن ان کے آخری زمانہ کی بات یاد ہے کہ کسی بھی شہر سے احتجاج اور گائیں چھیننے اور لانے والوں کے مارنے کی کوئی خبر نہیں آئی جب کہ اس وقت بھی انگریزوں کی حکومت کے اعلی عہدوں پر ہندو افسر تھے اورآزادی کی جنگ کی بھی خبریں برابرآرہی تھیں لیکن ایسی کوئی خبر نہیں آرہی تھی کہ گائے کی قربانی کی اجازت انگریزوں نے کیوں دی؟

ہر مذہب میں جو چیزیں جائز،ناجائز، قابل پرستش اور قابل احترام پہلے دن سے ہوتی ہیں وہ آخر تک رہتی ہیں ۔  اسلام جب آیا تو سب سے پہلے کہا گیا کہ پرستش کے قابل صرف اللہ ہے اور وہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے بعد محترم خانہ کعبہ،نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی کتاب اور نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ 15 سو برس سے نہ کوئی تبدیلی ہوئی نہ ہوگی اور یہ بھی بتا دیا کہ مسلمان کیا کھائے کیا نہ کھائے۔  سناتن دھرم کوئی نیا نہیں ہے۔  اس میں اگر گائے اب ماں ہے تو پہلے بھی وہ ہوگی کہ اس کی زندگی کے لئے جان لے لی جائے اور اپنی جان قربان کردی جائے۔  لیکن محسوس یہ ہورہا ہے کہ جو حیثیت اور مقام گنگا، جمنا اور گائے کا اب ہے وہ 70 سال پہلے نہیں تھا۔  ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انگریز حکومت سے گنگا کی صفائی کے لئے کوئی تحریک چلائی گئی ہو جبکہ اب ہزاروں کروڑ روپئے اس کی صفائی کے نام پر خرچ ہورہے ہیں اور ہر دن ہر زبان پر شکایت ہے کہ شہروں کے گندے نالے گنگا میں گر رہے ہیں ۔  ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ اگر دھرم ہے تو پہلے کیوں نہیں تھا۔  اور دھرم نہیں ہے تو اب کیوں ہوگیا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔