صحرا صحراغم کے بگولے، بستی بستی دردکی آگ!

نایاب حسن

     ملک کی اندرونی صورتِ حال پر غوروفکر،مذاکرے،مباحثے جاری ہیں ،آئے دن کچھ نئے سانحے،نئے حادثے،نئے ہنگامے اور نئے واقعات نئے نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں ۔مجموعی طورپر یہ سمجھ میں آتاہے کہ دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت میں انسان بے قیمت ہوگیاہے اورسیاسی مطلب برآری کی غرض سے حیوان کی قدروقیمت روزافزوں ہے،گزشتہ صرف دوماہ کاریکارڈ ہی دیکھیے توعجیب احساس ہوتاہے اور تھوڑی دیر کے لیے دل دماغ سن ہونے لگتے ہیں کہ کیاہم انسانوں ہی کی دنیامیں رہتے ہیں ،کئی ایسے مناظرملک کے مختلف خطوں میں دیکھے جاچکے ،جہاں ایک بھیڑکسی نہتے انسان کو دوڑارہی ہو،پھراسے گھیرلے،پھر چاروں طرف سے اس پر سنگ باری ہو ،لٹھ برسایاجائے،ایک اکیلے انسان کو اتنا ماراجائے کہ وہ جاں ہارہوجائے اور تڑپ تڑپ کر مرجائے۔ملک کے طول و عرض میں ایسے جنونی ہندودندناتے پھررہے ہیں ،جوگئوماتا کی حفاظت کے لیے انسانوں کی بلی چڑھانے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔

اسی بیچ مئی کے اواخر میں راجستھان ہائی کورٹ کے جج مہیش چندرشرمانے ریٹائر ہونے سے پہلے پہلے ایک تو یہ فیصلہ سنایا کہ حکومت گائے کوقومی جانور قراردے اوراس کے بعد گائے کی پاکیزگی کوثابت کرنے کے لیے مور-مورنی کی عجیب وغریب مضحکہ خیز کہانی سنائی،سوچیے کہ ایسی ذہنیت اور ایسے مبلغِ علم والا انسان جب ملک کے سب سے باوقار اور فیصلہ کن عہدے پر رہاہوگا ،تواس نے کیسے اورکتنے اوٹ پٹانگ قسم کے فیصلے سنائے ہوں گے۔کہاں تو ہمارے ملک کے نمایندہ لوگ،افراداور ادارے چیخ چیخ کر یہ کہتے پھر تے ہیں کہ ملکی دستور سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور ملک چلانے کے لیے صرف اور صرف دستورِ ہند معیاراور پیمانہ ہے،جبکہ دوسری طرف آئینی ادارے کے سب سے اونچے عہدے پر بیٹھاہوا شخص مذہبی اساطیرکا حوالہ دیتے ہوئے ایسی بات کرتا ہے،جسے سن کر پوری دنیاکے لوگ ہندوستانی عدلیہ اور عدالتی سسٹم کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

 ویسے گائے کو قومی جانور قراردینے کی مانگ ایک مہیش شرمانے ہی نہیں کی ہے،متعددانتہاپسند ہندوادارے اس کے حامی ہیں اور شدومدسے اس کامطالبہ کررہے ہیں ،خود بی جے پی کا نظریاتی جھکاؤبھی اسی طرف ہے اورہونہ ہو،وہ یہ ارادہ کرچکی ہوکہ گائے کو ہندوستان کا قومی جانور قراردے دیاجائے،واقعی اگر ایسا ہوجائے توپھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا،پھر تو خود بخود پورے ملک کا ہر ایک شہری اس کوذبح کرنے یاکھانے سے رک جائے گا اور گائے ایک محفوظ ترین چھتری کے نیچے آجائے گی،البتہ اس پر ہندی کے معروف صحافی روش کمار نے چند سوالات اٹھائے ہیں ۔

ان کاسوال یہ ہے کہ اگر گائے کو قومی جانور کا درجہ دیا جائے گا،توپھر بنگال ٹائیگر کاکیاکریں گے؛کیوں کہ ایک عرصے سے اسے قومی جانور کا درجہ حاصل ہے؟دوسری اہم بات انھوں نے یہ کہی ہے کہ آخر کچھ لوگ ماں کوجانور کے روپ میں ہی کیوں دیکھنے پر اصرارکیوں کررہے ہیں ،یہ تو ایک طرح سے ماں کی توہین اور اس کی تحقیر ہے،یہ بات بھی نہایت معقول ہے۔ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے،جہاں گئوماتا کے تحفظ کے لیے انسانوں کومارنے میں کوئی جھجھک نہیں محسوس کی جاتی،مگر اسی ہندوستان میں جوحقیقی مائیں ہیں ،ان کی حالت نہایت اندوہناک ہے،آپ متھرااور ہندووں کے دیگر وردھ آشرموں میں جاکر دیکھ لیجیے کہ وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ضعیف العمر خواتین کس بری حالت میں اپنی زندگی کے آخری دن بتارہی ہیں ،ان کاکوئی پرسانِ حال نہیں ہے،ان کے رہنے،کھانے پینے کاکوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔

یہ کس دنیا کی مخلوق ہے،جو حقیقی ماں کو گھر کے باہر پھینکے ہوئے ہے اور جانور کوماں بنانے پر اس درجہ اُتاؤلی ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے انسانوں کوبھی تہہِ تیغ کرنے سے نہیں چوک رہی؟عوام توعوام،اب باقاعدہ سرکاری پولیس تحفظِ گاؤکے نام پر انسانی جانوں کاشکار کرنے کے مہیب پر سفر پر نکل چکی ہے،ابھی جون کے پہلے ہفتے میں ہی ایک دو دن کے وقفے سے یوپی سے تین خبریں آئیں ،دومسلمانوں سے متعلق تھیں کہ پولیس نے بیف کے شبہے میں گھرمیں پک رہے سالن کوچیک کرنے کے لیے ریڈمارااور سارے گھر کوتہہ وبالا کردیا،جبکہ ایک تیسری میں پولیس کی گاڑی نے گائے کو بچانے کے لیے سڑک کنارے بیٹھی ایک ضعیف عورت اور دوبچیوں کورونددیا،بوڑھی کی توموقعے پر ہی موت ہوگئی ،جبکہ دونوبچیاں سخت ناگفتہ بہ حال میں ہسپتال پہنچائی گئیں ۔

 دراصل بات وہ ہے ہی نہیں ،جو ظاہر میں نظرآتی یا سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے،گائے ہندوستان میں ایک زمانے سے مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تنازع کا سبب رہی ہے اور اسے سیاسی مفادکے لیے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیاگیاہے،ورنہ کیاوجہ ہے کہ ایک طرف ہندوستان دنیابھرمیں گوشت سپلائی کرنے کے معاملے میں تیسرے نمبر پر ہے،جبکہ اسی ہندوستان میں لوگوں کو گوشت کھانے کی وجہ سے ہی ماردیاجارہاہے،سیدھے معنوں میں یہ لوگوں کوالوبنانے کاکھیل ہے،جوسیاست داں پوری ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں اور ملک کے عوام اپنی ناسمجھی کی وجہ سے یا سیاسی وابستگی اور مذہبی انتہاپسندی کی لہر کاشکارہوکر ان کے کھیل میں استعمال ہورہے ہیں ۔

اس المناک صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک کے جو اصل مسائل ہیں ،عوام کی جواصل پریشانیاں ہیں ،وہ منظرنامے سے غائب ہوچکی ہیں اور بحث ونقاش کا سارا زور گائے اور گوبر پر صرف ہورہاہے،حکومت کے نئے جی ایس ٹی بل لانے کے بعد اشیاے خوردونوش اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتوں پر پڑنے والے اثر کا کسی ٹی وی چینل پر جائزہ نہیں لیاجارہا،جنوبی ہندکے بعد اب مہاراشٹراور مدھیہ پردیش کے کسان بلبلارہے ہیں اورانھوں نے غیر متعینہ مدت تک کے لیے ہڑتال کررکھی ہے،حتی کہ ان احتجاجی کسانوں میں سے کئیوں کی موت بھی ہوچکی ہے اور وہ کسی ہمدردی کی بجاے پولیس کے جبروظلم کاشکارہورہے ہیں ؛لیکن کسی نیوز ایجنسی یا خبریہ چینل کے لیے اس میں دلچسپی کاکوئی سامان نہیں ،یوپی میں جن بنیادوں پر بی جے پی نے حکومت حاصل کی تھی اور جس قانون و انصاف کا حوالہ دے کر اس نے سماج وادی پارٹی کو حکومت سے بے دخل کیاتھا،ابھی تین ماہ میں ہی پتا چل گیاکہ جرائم کی شرحِ افزایش جتنی ایس پی کے زمانۂ حکومت میں تھی،اس سے کئی گنا زیادہ اب یوگی آدتیہ ناتھ کے دورِ حکومت میں ہے،جانیں محفوظ نہیں ،عصمتیں غیر محفوظ ہیں ،فرقہ وارانہ جنون آسمان پر پہنچتاجارہاہے اور طبقاتی ومذہبی عصبیت کی بھینٹ مسلمانوں کے ساتھ دلت بھی چڑھ رہے ہیں ؛لیکن یہ موضوع بھی مین سٹریم میڈیا کے لیے کوئی خاص ایشونہیں ہے۔صورتِ حال اس حد تک اندوہناک ہوچکی ہے کہ اب مذہبی تفریق کی لکیریں واضح تر ہوتی جارہی ہیں ،کئی بڑے سیاسی تجزیہ کار،صحافی اور ملکی حالت پر نظررکھنے والے اربابِ بصیرت افراد کولکھتے بولتے سنااور پڑھاکہ ابھی جوملک کاحال ہے،وہ آزادی کے وقت بھی نہیں تھا،جبکہ ملک مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہواتھا۔اگر ایسا ہے ،توپھر بعض ذہنوں میں اس قسم کے سوالات کا اٹھنابھی فطری ہے کہ کیاموجودہ حالات ہندوستان کوتقسیم جیسی ہی کسی بڑی انہونی کی طرف تونہیں لے جارہے؟

 انسانوں کی بے دریغ ہلاکت اور قانون و انصاف کی تاراجی پر وزیر اعظم کی طرف سے ایک لفظ سننے کونہیں مل رہااور لوگ حیرت زدہ ہیں کہ وہ شخص جو لندن اور امریکہ یافرانس و بلجیم میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں پر فوراً ہی دکھ جتاتاہے اور ٹوئٹ کے ذریعے سے وہاں کے لوگوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتاہے،وہ آخر اپنے ملک کی اتنی سنگین صورتِ حال پر منہ کیوں نہیں کھول رہا؟اس کی زبان آخر بند کیوں ہے؟اس کے منہ پر تالاکیوں لگاہواہے؟ عام طورپرتونہ حکومت ان واقعات پر منہ کھولتی ہے اور نہ مین سٹریم میڈیا کوئی توجہ دیتاہے،البتہ انفرادی و استثنائی طورپر اگر کوئی فردیاادارہ سماجی انصاف سے جڑے ہوئے ایسے سوالات کواٹھانے کی جرأت کرتاہے،توپھر اس کے گرد بھی گھیراتنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،گویا عملی طورپر اسے دھمکی دی جاتی ہے کہ پاور سے ٹکرانے کی جرأت مت کروورنہ تمھاری خیر نہیں ہے۔یہ توبھلاہو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیاکاکہ بہت سے واقعات اور خبریں دبانے اور غٹک جانے کی لاکھ کوششوں کے باوجود نہ صرف عام ہوجاتی ہیں ؛بلکہ عالمی سطح پر پھیل جاتی ہیں اور پھر دنیاوالوں کے سامنے حکومت کا مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ حکومتوں کے ڈرانے دھمکانے کارویہ بھی کوئی نیانہیں ہے،آزادی سے پہلے کی تاریخ میں تواس کی مثالیں سیکڑوں ہیں ،مگر آزادی کے بعد بھی جمہوری ہندوستان کی حکومتیں ایسے شرمناک اقدامات کرتی رہی ہیں ،اس سے ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ حکومت سے کوئی سوال کرنے کی جرأت نہ کرے،کوئی کچھ پوچھ نہ سکے،کوئی حکومت کا احتساب نہ کرسکے.

اس سلسلے میں حکومتیں پہلے انفارمیشن کے عوامی ذرائع کو ترغیب و تحریص سے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں ،اگر اس میں کامیاب رہیں توٹھیک ،ورنہ پھر تہدیدوتعزیر کا راستہ بھی ان کے سامنے کھلاہوتا ہے۔گزشتہ تین سال کے عرصے میں ہم نے دیکھ لیاہے کہ مودی حکومت نے میڈیاکے کتنے حصے کو ترغیب و تحریص کے ذریعے اپناہم آغوش بنالیاہے،البتہ جوکچھ ہمت ور صحافی اور صحافتی ادارے ہنوز اپنی جرأتِ رندانہ کامظاہرہ کررہے ہیں ،انھیں مختلف حیلوں ،بہانوں سے گھیرنے اور پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔گویاحکومتِ وقت کی طرف سے عام اعلان ہورہاہے کہ:

شرط یہ ہے جوجاں کی امان چاہتے ہو

تواپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو

وگرنہ اب کے نشانہ کمانداروں کا

بس ایک تم ہو،سوغیرت کو راہ میں رکھ دو

ایسے میں جو خود سپردگی کردے گا،وہ محفوظ رہے گااور جو زبان کھولنے کی جرأت کرے گا،اسے سیاسی جبر کاشکاربننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ابھی ہمارے ملک کے عوام کی اکثریت بھی خفقانی کیفیت میں مبتلاہے،سواسے حقائق نظرہی نہیں آرہے،البتہ یہ کیفیت بہت دن تک برقرار نہیں رہے گی،لوگ جلد ہی بیدار ہوں گے اور تب شاید حالات اس تبدیلی کارخ کریں ،جسے خوشگوارتبدیلی کہاجاسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔