ضمنی انتخابات کے نتائج کا پیغام

ڈاکٹر  مظفر حسین غزالی

یوپی کے گورکھپور، پھولپور میں سماجوادی، بی ایس پی اتحاد کی کامیابی، بہار کے ارریہ اور جہان آباد میں آرجے ڈی گٹھ بندھن کی جیت نے حزب اختلاف کو خوش ہونے کا موقع دیا ہے۔ گورکھپور سیٹ روایتی طورپر بی جے پی کی سیٹ مانی جاتی تھی۔ یہاں 1989 سے مہنت اویدیہ ناتھ بھگوالہرا رہے تھے۔ انہیں کی بدولت یوگی آدتیہ ناتھ کو پارلیمنٹ جانے کا موقع ملا اور پانچ مرتبہ لوک سبھا ممبر منتخب ہوئے۔ اس انتخاب نے انہیں آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے کہ جو عوام عزت دے کر سرپر بٹھا سکتے ہیں وہ دھول بھی چٹا سکتے ہیں ۔ پچھلے سال گورکھپور میں جاپانی بخار سے بچوں کی اموت پر یوگی کے رویہ نے عوام کا ان سے موہ بھنگ کردیا۔ رہا سوال کیشوپرساد موریہ کا جو شاید اپنے آپ کو پسماندہ، دلت سیاست کا چانکیہ سمجھ رہے تھے ان کی غلط فہمی بھی دور ہوگئی۔ تبھی تو انہوں نے کہا کہ بی ایس پی کا دلت ووٹ ایس پی کو منتقل ہوجائے گا اس کی امید نہیں تھی۔ ایس پی بی ایس پی اگر مل کر انتخاب لڑتے ہیں تو ہمیں نئی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔

بہار کی بات کریں توو ہاں تین میں سے دو سیٹوں پر آرجے ڈی نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہاں نتیش کمار کی مقبولیت اور سشیل مودی کی پینترے بازی پر تیجسوی یادو بھاری پڑے۔ لالو پرساد کو جیل بھیجنا بھی ان کے کام نہیں آسکا۔ ان نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ نتیش کمار جو کبھی سوساشن بابو کہے جاتے تھے۔ ان کی حیثیت اب ابن الوقت کی ہوگئی ہے۔ مانجھی کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا جانا، اقتدار میں آنے کیلئے لالو کا ہاتھ تھامنا، پھر گھر واپسی کرنے سے عوام میں ان کا بھروسہ کم ہوگیاہے۔ بہر حال کامیابی پر ایس پی، بی ایس پی اسی طرح اپنی پیٹھ تھپتھپاسکتی ہے جس طرح کانگریس راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کامیابی پر جشن منا چکی ہے۔ یاد رہے یہ الیکشن کسی ریاست یا ملک کا مین الیکشن نہیں ہے۔ اس کا ملک یا ریاست کے اقتدار پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑنے والا۔ البتہ یہ نتائج حزب اختلاف کے ذریعہ ای وی ایم پر کئے جارہے اعتراضات کا جواب ہیں ۔ اس لئے ضمنی انتخابات میں ملنے والی جیت کے تمام پہلوؤں کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

بڑاسوال ہے کہ ضمنی انتخاب میں کانگریس یا ریاستی پارٹیوں کو کامیابی ملی لیکن مین الیکشن میں وہ بی جے پی کو نہیں روک پارہیں کیوں ؟ عوام اپنے آپ سے اور اپنے رہنماؤں سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں ، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کا وقت آگیا ہے۔ موٹے طورپر دیکھیں تو کچھ اس طرح کا منظر نامہ سامنے آتا ہے۔ ضمنی انتخاب میں بھاجپا کا مقابلہ جس پارٹی سے بھی ہو ون ٹوون مقابلہ ہوتا ہے۔ ووٹ کٹوا پارٹیوں کی ضمنی انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ ایک علاقے یا حلقہ کا الیکشن ہوتا ہے۔ ووٹر اپنے مسائل اور پریشانیوں کو سامنے رکھ کر ووٹ کرتے ہیں ۔ وہ امیدوار الیکشن کے مقابلے میں ہوتے ان کے سابقہ رپورٹ کارڈ پر بات ہوتی ہے۔ میڈیا خاص طورپر الیکٹرانک میڈیا کے پاس ووٹروں کو بھرمانے کا موقع نہیں ہوتا۔ وہ ایک دوسیٹ کے الیکشن میں دلچسپی بھی نہیں لیتے۔ ان کی دلچسپی نتیجے آنے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اس میں جھوٹ بول کر، خواب دکھاکر ووٹروں کو گمراہ کرنے کا موقع بھی کم رہتا ہے۔ پھر وزیراعظم نریندر مودی، امت شاہ اوران کے کابینی وزراء بھی اس کیلئے وقت نہیں دیتے۔ الیکشن کمیشن یا انتظامیہ کو اس میں اپنی وفاداری ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس لئے ضمنی انتخاب کسی حد تک غیر جانب داری کے ساتھ ہوتا ہے۔

یوپی کے ضمن میں یہ کہا جارہا ہے کہ ایس پی، بی ایس پی کے ملنے سے ہی گورکھپور جیسی سیٹ سماجوادی پارٹی جیت پائی۔ اگریہ دونوں نہیں ملتے تو شاید یہ کامیابی ممکن نہیں تھی۔ گورکھپور میں ای وی ایم کی خرابی کی عام طورپر شکایت سامنے آئی جس کی وجہ سے ووٹنگ کم ہوسکی۔ یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں لگتی۔ دراصل وہاں بی جے پی کے آپسی اختلافات اور یوگی جی سے لوگوں کی ناراضگی پارٹی پر بھاری پڑی۔ دوسرے ہندومٹھ دھیشوں کی بالادستی کا خمیازہ دلتوں کو بھگتنا پڑا ہے۔ چاہے جاپانی بخار سے بچوں کی اموات کا معاملہ ہو یا کم خوراکی کا بے روزگاری کا معاملہ ہو یا پھر کمزور طبقات پر ہونے والے مظالم کا۔ تعلیم کی پسماندگی ہو یا پھر غریبی میں زندگی گزارنے کی بات پر اعتبار سے دلت پریشانیوں سے جوجھ رہے ہیں ۔ انہیں موقع ملا تو انہوں نے اپنا احتجاج بی جے پی کے خلاف ووٹ کرکے درج کرادیا۔ پھول پور کی سیٹ ایس پی، بی ایس پی اور بی جے پی میں ادلتی بدلتی رہی ہے۔ بی جے پی تو اس سیٹ پر 2014 میں ہی کامیابی ہوئی۔ اس سے پہلے پھول پور سیٹ پر بی جے پی کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔
سونیا گاندھی کے ذریعہ دی گئی ڈنر پارٹی کو حزب اختلاف کے اتحاد کا پیش خیمہ مانا جارہا ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ کس کس پارٹی کے درمیان اتحاد ہوتا ہے۔ ملک میں یہ بحث بھی گرم ہے کہ کانگریس کے بغیر اتحاد ہو یا پھر کانگریس کے ساتھ۔ لیفٹ کا ایک دھڑا کانگریس کے بغیر اتحاد کی بات کررہا ہے۔ دوسری طرف این ڈی اے سے ٹی ڈی پی کنارہ کرچکی ہے۔ شیوسینابھی الگ الیکشن لڑنے کی بات کررہی ہے۔ ادھر بہار کے کشواہا بی جے پی سے ناراض ہیں ۔ مانجھی پہلے ہی مہاگٹھ بندھن کا ہاتھ تھام چکے ہیں ۔ اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ 2019 میں تیرہ مورچہ بی جے پی کے مقابلہ میں کھڑا ہوگا یا پھر بی جے پی کا مقابلہ کانگریس کے اتحادیوں سے ہوگا۔ ٹی ڈی پی، شیوسینا، پی ڈی پی کس کے ساتھ جائیں گے۔ خصوصی ریاست کے درجہ کو لے کر کیا نتیش کمار این ڈی اے سے الگ ہوں گے یا پھر این ڈی اے میں ہی بنے رہیں گے۔

اس وقت کرناٹک کا چناؤ سرپر ہے۔ کانگریس اور اس کے ساتھی اگر اس امتحان میں پاس ہوتے ہیں تبھی راجستھان، مدھیہ پردیش اورچھتیس گڑھ میں حالات بدلنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ابھی تک کانگریس لیڈر شپ کی سنجیدگی عوام کے درمیان مشکوک ہے۔ کرناٹک میں کانگریس کامیاب ہوتی ہے تو اس کا سہرا وہاں کے وزیراعلیٰ سدا رمیا کو ہی جائے گا جو بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ سوال پھر وہی ہے کہ بی جے پی اور اس کی پشت پر کھڑا سنگھ چوبیس گھنٹہ 365دن کام کررہا ہے۔ اس کے برخلاف ملک کی دوسری سیاسی جماعتیں الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے ہی سرگرم ہوتی ہیں۔ اس لئے وہ مودی، امت شاہ کی جوڑی سے پارنہیں پار رہی ہیں ۔ حزب اختلاف میں ایسا کوئی لیڈر بھی نہیں ہے جو ان کی باتوکا بروقت جواب دے سکے۔ ان کی زبان میں یا پھر اپنی زبان میں ۔ لالو نتیش کی جگل بندی نے بہار میں یہ کام کرکے دکھایا تھا۔ نتیش کو اپنے ساتھ ملاکر لالو کو جیل بھیج دیاگیا تاکہ 2019 میں اس کے سامنے کوئی چنوتی نہ رہے۔ حزب اختلاف کو ضمنی انتخاب والی حکمت عملی آنے والے ریاستی و مرکزی انتخابات میں اپنانی ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر بی جے پی سے ون ٹو ون کا مقابلہ ہو۔ بی جے پی اور مودی سرکارکو ان کے دےئے گئے بیانوں پر گھیرا جائے۔ مثلاً آدھار پر انہوں نے پہلے کیاکہا تھا اوراب ان کی سوچ کیا ہے۔ اس کو لازمی کرنے سے جو لوگ بھوگ سے مرگئے اسے ملک کو بتانا چاہئے۔ کسانوں کو لے کر انہوں نے کیا کہاتھا لیکن حکومت میں آنے کے بعد کیا کیا؟ نوجوانوں کو وزگار فراہم کرنے کا کیا وعدہ تھا؟ کتنے لوگوں کو روزگار مل پایا۔کتنے روزگار نوٹ بند کرنے اور جی ایس ٹی کی وجہ سے کم ہوئے یہ ملک کو بتایا جائے۔ سب کے وکاس کا کیا ہوا؟ زیادہ تر نیشنل ہائی وے مہاراشٹر میں ہی کیوں بنے؟ مہنگائی کا کیا حال ہے؟ گڈ گورنینس میں سرکار کتنی کامیاب ہوئی؟ شہروں کے قریب تازہ سبزی فراہم کرنے کیلئے کتنے کلسٹر ڈولپ ہوئے؟ سوکھے اور باڑھ سے نبٹنے کا سرکار نے کیا انتظام کیا؟ سبزیوں کو محفوظ رکھنے کی کتنی سہولیات کسانوں کوفراہم کی گئیں ؟ ابھی بھی کسان ٹماٹر گڑھوں میں ڈالنے کو مجبور ہیں ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوال ملک کے سامنے ہیں جنہیں عوام کی عدالت میں حزب اختلاف کو رکھنے چاہئیں۔

خوشی چھوٹی ہو یا بڑی خوشی خوشی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ ملک کے مستقبل کی فکر چھوڑ دی جائے۔ چھوٹی اور ریاستی پارٹیوں کو اپنے اختلافات بھلاکر ساتھ آنا ہی ہوگا یہ ملک کیلئے بھی ضروری ہے اور ان کے مستقبل کیلئے بھی۔ایس پی، بی ایس پی اس کی بہترین مثال ہے۔ کرناٹک میں جنتا دل ایس کو کانگریس کا ساتھ دینا چاہئے اور مہاراشٹر میں این سی پی کو۔ این سی پی اور بی ایس پی نے گجرات میں کانگریس کا ساتھ دیا ہوتا تو وہاں کے نتائج کچھ اور ہوتے۔ بڑے مقابلے کی تیاری کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کواتنا ہی سنجیدہ ہونا ہوگا تاکہ2019 کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ یہ سسکتی جمہوریت اور بڑھتی فسطائیت کے درمیان بڑا مقابلہ ہے۔ تمام جمہوری پارٹیوں کو منصوبہ بند طریقے سے اسے جیتنا ہوگا، کیوں کہ جمہوریت رہے گی تبھی پارٹیاں بھی باقی رہیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔