طلاق کے مسئلے پر بچکانہ تبصرہ اور مغالطہ آمیز تحریر

فصیح درانی

        طلاق کے بارے میں مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب نے گزشتہ دنوں کچھ تحریریں لکھی تھیں جن میں نصوص کتاب و سنت سے ہٹ کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے لئے انہوں نے بہت ساری لن ترانیوں اور کٹ حجتیوں کا سہارا لیاتھا، جب مولانا کو آئینہ دکھایا گیااور ان کی غلطیوں کو عالم آشکارہ کیا گیا تو مولانا حددرجہ نالاں نظر آئے اور روروکر اپنی مظلومیت ثابت کرنے لگے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مولانا راقم سطور کی دلیلوں اور ان سے استدلال کی وجوہات کا علمی انداز میں جواب دیتے مگر افسوس کہ مولانا نے ایسا نہ کرکے اپنے ہر نئے مضمون میں بحث کو نیا رخ دینے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے مولانا کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہیں، تین نہیں۔ یہی بات قرآنی آیات اور نبوی فرامین سے بھی ثابت ہے۔ سابقہ مضمون میں بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:’’الطلاق مرتان‘‘ (سورۃ البقرۃ؍229) یعنی طلاق دو مرتبہ ہے۔

        اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوگی۔ اس وجہ سے کہ اس آیت میں ’’ مرتان‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے، جوسابقہ حالت سے مغایرت چاہتا ہے۔ لہذا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو یکبارگی نہیں دیا جاسکتا ہے۔

        افسوس صد افسوس مولانا نعمانی صاحب طلاق کے بارے میں دسیوں مضمون لکھ چکے ہیں اور راقم سطور پر متعدد دشنام طرازیاں بھی کی ہیں لیکن اس آیت کریمہ پر خامہ فرسائی سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ مولانا نعمانی صاحب! بہتر ہوگا کہ آپ اس آیت کریمہ کے بارے میں کچھ فرمائیں۔

        نیز نعمانی صاحب کے حضور میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پیش کی گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ طلاق کے معاملے میں عجلت مچارہے ہیں تو اس کو تین قرار دے دیا۔ (صحیح مسلم؍1482)

        افسوس صد افسوس کہ نعمانی صاحب اس حدیث کی بھی کوئی مناسب توجیہ نہ پیش کرسکے بلکہ اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم رہے اور دلائل پر گفتگو کرنے کے بجائے پورے بحث کو مسلکی رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے۔ مشہور صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو’’ایک آدمی‘‘ بتاکر ان کی روایت کو ہلکا بنانے کی نارواکوشش کی اور جب گرفت ہوئی تو فورا جھوٹ کا سہارا لیا اور کہہ دیا کہ ہم نے صحابی کے لئے یہ لفظ نہیں استعمال کیا بلکہ طاؤس کے لئے کہا۔ مولانا کہاں تک جھوٹ بولیں گے آپ؟یہ روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے تو بھلا آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ’’ ایک آدمی‘‘ (طاؤس) ماضی کا تاثر بیان کررہے ہیں اور ہاں، مولانا ! آپ تو اپنے لئے حضرت اور مولانا کا سابقہ اور نعمانی صاحب کا لاحقہ سے کم پر راضی نہ ہوں اورآپ کی دوسری بات مانیں تو طاؤس جیسا جلیل القدر تابعی ’’ایک آدمی ‘‘ ہوجاتا ہے۔ واہ رے مولانا۔ بہتر ہوتاکہ آپ اس روایت کو قبول فرماکر اس کے مطابق فتویٰ دیتے تاکہ اس قدر حیلے اور تاویلات تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی اور نا ہی آپ کو طاوس جیسے جلیل القدر رتابعی کو ’’ایک آدمی‘‘ کہہ کر تنقیص کرنے کی ضرورت پڑتی۔

        نیا مضمون مسلکی تعصب و تصلب کا آئینہ دار ہے۔ چنانچہ کہیں ’’مضمون نگار کے قبیلے کے لوگ‘‘ کہہ کر مجھے کسی مسلک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے تو کہیں ــ’’مضمون نگارکی رہ نما شخصیات میں شامل امام شوکانی‘‘ کہہ کر اپنی انا کو تسکین دینے کی کوشش کی ہے، لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا معاف کیجئے! میں اسلام کو ماننے والا ہوں۔ یہ آپ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کے اندر مختلف قبائل بنالئے ہیں۔ خدارا ! مجھے ان قبیلوں میں سے کسی بھی قبیلے سے جوڑنے کی کوشش نہ کریں اور بحث کو غلط رخ نہ دے کر دلائل کا جواب دیں۔ یہ بہتر رہے گاورنہ آپ کو تو معلوم ہے’’ان بعض الظن اثم‘‘۔

        جب مولانا نعمانی صاحب کے مضمون کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آنکھ میں دھول جھونکنا بہت جانتے ہیں۔ مضمون کی ابتداء ہی میں دو مغالطے بڑی ڈھٹائی سے دیئے ہیں۔ آپ کے رویہ پر یہ مثل بھرپور صادق آرہی ہے کہ ’’الٹے چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘۔

        پہلا مغالطہ: تقلید سے آزاد ہوکر علماء کو بے وقعت کرنے کی جو دہائی نعمانی صاحب آپ دے رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ اس مرض کے پرانے مریض ہیں کہ نام تو تقلید شخصی امام ابوحنیفہ کالیں اور جب ناطقہ بند ہونے لگے تو دنیاجہاں کے لوگوں کا اپنے موقف کی تائیدمیں نام لینے سے نہ ایمان بگڑے نہ تقلید جائے، نہ بے راہ روی، نہ آزاد خیالی راہ پائے، نہ علماء اور ائمہ کی بے وقعتی اور بے وزنی کا شاخسانہ قرار پائے۔ واہ حضرت نعمانی صاحب یہ آپ ہی کا کمال ہوسکتا ہے کہ آپ مقلد محض ہوکر آزادی سے جب چاہیں جس کی پگڑی اچھال دیں، چاہے وہ علامہ شوکانی و البانی، امام شافعی ہوں یا امام احمد بن حنبل یا پھر امام اوزاعی رحمہم اللہ ہی کیوں نہ ہوں اور جب چاہیں چند ہندوستانی عجمی دیوبندی علمائے کرام کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے بھی بڑھا کر دکھلائیں اور آزادانہ طور پر تمام ائمہ اربعہ اور سارے دواوین کتاب و سنت کی منمانی تشریح بھی کرجائیں اور ائمہ فن کے ذریعہ ثقہ و عدول قرار دیئے ہوئے رجال و رواۃ کومردود و ضعیف قرار دے دیں جیساکہ آپ نے حدیث رکانہ وغیرہ میں کرڈالا ہے۔ حضرت آپ اگلی تحریر میں اس بات کی ضرور وضاحت فرمادیں کہ آپ تقلید کے قائل ہیں تو تقلید مطلق یا شخصی اور تقلید کی معتبر تعریف آپ کی کتابوں سے کیا ہے۔ ’’قبول قول الغیر بلا دلیل‘‘یعنی بلادلیل کسی کی بات مان لینے کا نام تقلید ہے تو پھر آپ ان دلیلوں کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ آپ صاف صاف اعلان کیجئے کہ میں مقلد نہ رہا یا اس کا قائل ہوتے ہوئے بھی آپ پوری ڈھٹائی سے بے راہ روی  اور آزاد خیالی اور آوارہ ذہنی و دہنی کو روا رکھے ہوئے ہیں۔ مولانا اس تضاد بیانی سے باز آئیے اور دوسروں پر الزام دھرنے سے پہلے اپنے سراپا پر نظر دوڑائیے، ان شاء اللہ شکوہ شکایت، رونے دھونے، بے چارہ بننے اور حکومت کی مداخلت کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نافذ ہونے کے آزار باردہ وغیرہ تکلفات و تصنعات سے چھٹکارا پاجائیں گے اور ’’تکلیف مالایطاق‘‘ کے اس حیل و تاویل سے بھی چھٹکارا مل جائے گا اور آپ کی اس اندھے کی لاٹھی اور تعصب کی درانتی سے شخصیات، جمعیات، ائمہ و محدثین اور نصوص کتاب و سنت محفوظ ہوجائیں گے۔

        دوسرا مغالطہ بہتان بلکہ بصورت تلبیس یہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اور دیگر مسلمات سے روگردانی کرکے آزاد خیالی کا شوشہ مسألہ طلاق میں اس وقت کسی فقہی مسلک والے نے چھیڑا ہے جوسراسر ناانصافی، بہتان اور الزام ہے بلکہ ’’البادی أظلم‘‘ کے تحت فتنہ کی ابتداء کرنے والا ہی بڑا اور اصل ظالم ہوتا ہے۔ آپ نے اس کو مسلکی رنگ دے دیا ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ عالیجناب ظفر محمود اور ان جیسے سینکڑوں دانشوران اور وکلاء ہائی کورٹ و سپریم کورٹ و دیگر معززین اہل علم و فکر نے آپ کے تصلب و تعصب اور جمود اور خصوصا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں طلاق کے مسئلہ کو پیچیدہ بنانے کی وجہ سے اس وقت میدان میں آئے تھے جب حکومت نے مداخلت کی اور کورٹ نے فیصلے سنائے۔ جس مداخلت کی آپ دہائی دے رہے ہیں، اس وقت سبھوں نے اس کو کنڈم کیا تھا جس میں اہل حدیث حضرات بھی تھے، شیعہ بھی اور سنی بھی۔ لیکن ان دانشوروں نے اس نقطے کی طرف بھی توجہ دلائی تھی کہ تین طلاق کے سلسلے میں بے راہ روی، آزاد خیالی، منمانی اور کتاب و سنت کے سلسلہ میں غلط بیانی اور اس پر تعصب و تصلب کو بھی ختم ہونا چاہئے تاکہ ان جیسے مسئلوں میں آپ جیسے لوگوں کی کٹھ ملائی اور تعصب کی وجہ سے پورے اسلام اور مسلم پرسنل لاء پر ہاتھ صاف کرنے کی حکومت اور عدالت کی طرف سے راہ ہموار نہ ہو۔ مغالطہ کا پردہ فاش کرنے اور کسی خاص مسلکی گروہ پر الزام لگانے اور بہتان باندھنے کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ کورٹ میں مطالبہ کرنے والی خواتین آپ کی اپنی حنفی ہیں۔ البانی یا شوکانی نہیں ہیں اور نہ ہی ظفر محمود ہی ہیں، نہ پیروی کار خویش و اقارب ولی میں سے کوئی غیر حنفی ہے۔ پھر آزاد خیالی کا الزام ان کے سر کیوں نہیں دھرا اور ائمہ کو بے وزن و بے وقعت کرنے کا ٹھیکرا ان کے سر کیوں نہیں پھوڑا۔ مولانا تلبیس اور مغالطہ کی حد کردی آپ نے۔ مجھے اب تک مولوی حضرات سے عقیدت تھی، اسے آپ نے سخت ٹھیس پہنچائی ہے اور یقین دلادیا ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہ سے آپ کا کوئی سروکار نہیں۔ آپ حضرات تعصب و تنگ نظری اور عناد و حسد کے شکار ہیں، ورنہ آپ اعلان فرمادیتے کہ لو

الزام ہم ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

        سابقہ مضمون کی طرح ایک بار پھر سے مولانانعمانی نے تلبیس اور دھاندلی کی ہے کہ تین طلاق کے مسئلے میں اہل حدیث اور شیعہ کو ایک باور کرارہے ہیں جبکہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے حتی کہ موجود و معدوم کا فرق ہے۔ کہاں کتاب و سنت کی واضح ہدایات کہ ایک مجلس کی بقول احناف بدعی تین طلاق و بتعامل امام الانبیاء و بفتوائے امام کائنات محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم، امت و انسانیت کے سب سے بڑے ولی خلیفہ راشد و اعظم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خیر القرون اور فہم و قانون کے مطابق تین طلاق کو ایک گرداننا اور کہاں شیعہ حضرات کا اس کو کالعدم قراردینا زمین و آسمان کے فرق سے کہیں زیادہ دوری ہے لیکن باطل قیاس کے پرستار قیاس مع الفارق کے دلدادہ وفاشعار نعمانی صاحب جیسے لوگوں کو دونوں میں فرق نہیں نظر آتا۔ یہاں پر ایک اور مغالطہ کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جو شاطر دماغی کاغماز ہے کہ طلاق کے سلسلے میں روافض کے دو قول ہیں تو حضرت فرمائیے کہ حنفیت کاوجود ہی کہاں بچتا ہے اور ایک طلاق کے قائلین سے آپ کا اختلاف رہ ہی کہاں جاتا ہے کیونکہ آپ کے یہاں بھی بے شمار مسائل میں دو دو بلکہ کئی متضارب و مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول ہے کہ مستعمل پانی نجاست غلیظہ ہے، دوسر ا قول ہے کہ نجاست خفیفہ ہے، تیسرا قول ہے کہ طاہر ہے اور اب ترقی یافتہ زمانے کا فتوی ہے کہ طاہر و مطہر دونوں ہے۔ مولانا بتائیے آپ کس مسلک کے موافق یا مخالف ہیں۔ مولانا ان تنکوں کے سہاروں کو چھوڑیئے، واضح طورپر کتاب و سنت کی راہ کو اپنائیے اور پورے اسلام اور مسلم پرسنل لاء کو آزاد خیال لوگوں اور عدالتوں و حکومتوں کے ذریعہ بدنام اور ہاتھ صاف کرانے کے بجائے آپ اپنی ہٹ دھرمی و تعصب سے باز آئیے۔

        مولانا کا تضاد دیکھئے کی اپنی تحریر میں ایک طرف تو وہ علامہ شوکانی وعلامہ البانی رحمہما اللہ جیسے علم حدیث کے عظیم جانکاروں کی باتوں کو محض اس بنیاد پر رد کرتے ہیں کہ ان کاموقف ائمہ اربعہ کے موقف کے برعکس ہے، دوسری طرف اپنے موقف کی تائید میں غلام رسول سعیدی کا سہارا لے رہے ہیں اور مولانا تقی عثمانی صاحب کو درخور اعتناء نہیں جان رہے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ نعمانی صاحب ! آپ مقلد محض بھی ہیں اور شیعہ حضرات کے موقف کے مسئلے میں سب کی تغلیط بھی فرمارہے ہیں اور فقہ ابوحنیفہ کے علاوہ سارے فقہ کو مردود کم ازکم مرجوح اور غیرمعمول بہ رکھے ہوئے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، مولانا تقی عثمانی، دیوبندی، ندوی اور اہل حدیث سبھی حلقے کی بات غلط اور کوئی غلام صاحب کی بات اوپر، مقبول اور راجح۔ واہ حضرت مولانا۔

        مولانا نے پورا زورلگادیا ہے کہ رکانہ والی متعلقہ روایت ضعیف ہے۔ اس کے لئے خوب ڈینگیں بھی ہانکی ہیں، اس سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ امام ابوداوداور امام احمد نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن جب حقیقت واضح کی گئی اور مولانا کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا گیا تو پھر اس تعلق سے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اب امام نووی رحمہ اللہ کی تحقیق لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں علمائے کرام کی ایک جماعت ہے جس نے اس روایت کی تصحیح کی ہے جن میں امام بخاری، امام احمد بن حنبل، امام ابوعبید، امام ابن حزم، امام حاکم، امام ذہبی، امام ابن قیم جوزیہ، امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ البانی وغیرہم جیسے عظیم ائمہ فن ہیں۔

        مولانا نے موجودہ تحریر میں تحقیق کی جولانی دکھائی ہے مگر افسوس کہ یہ تحقیق ناقص ہی ہے اور صرف اپنے مطلب کی برآوری کے لئے ہے، ورنہ جس امام المغازی محمد بن اسحق کے بارے میں علمائے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کئے ہیں، ان سے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایتیں ذکر کی ہیں، نیز امام ابوداود سے اسے نقل کرنے میں ابن اسحق کی معنوی متابعت امام ابن جریج نے کررکھی ہے۔ ابن جریج کا مقام ابن اسحق سے بلند ہے جس کا حاصل یہ ہواکہ یہ حدیث صحیح ہے۔ مولانا نعمانی صاحب اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی تحقیق کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے۔

         علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین (3؍386-388) میں لکھا ہے کہ ہر دور میں علماء کرام نے اس موقف کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا ہے جن میں صحابہ کرام میں سے زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم، تابعین میں عکرمہ اور طاوس رحمہما اللہ، تبع تابعین میں محمد بن اسحق، خلاس بن عمرو، حارث عکلی اور تبع تابعین کے اتباع میں داود بن علی اور ان کے اکثراصحاب ہیں۔ اسی کے مطابق بعض اصحاب مالک، بعض احناف اور بعض اصحاب احمد نے بھی فتویٰ دیا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔