طلبہ ونوجوانوں پر حالیہ بربریت

ابراہیم جمال بٹ

فوج اور پولیس نے گذشتہ روز پلوامہ ڈگری کالج میں طلبہ اور طالبات پر ٹوٹ کر وحشیانہ پن کا سلوک کیا ۔وردی پوشوں نے ان پر پیلٹ، گولیوں کے علاوہ ٹئیر گیس شلوں کا استعمال کر کے لگ بھگ ۶۰؍ کے قریب طالب علموں کو زخمی کردیا گیا جن میں طالبات بھی شامل ہیں ۔ درجنوں طالبات شلنگ کی وجہ سے بے ہوش ہوگئیں ۔طالب علموں کے خلاف اس ظلم و جبر پر وادی کے جنوب وشمال کے ہائر اسکینڈریوں ،ڈگری کالجوں اور کشمیر یونیورسٹی وسنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ میں اُبال آگیا، اُنہوں نے  17؍اپریل کو اپنے اپنے اداروں میں پلوامہ واقعے پر شدید احتجاج کیا۔

پولیس نے اس بار بھی پرامن احتجاجی طالب علموں پر طاقت کا استعمال کرکے 100کے قریب طلباء کو زخمی کردیا اور کئی بے ہوشی کی حالت میں پائے گئے۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ طلبہ نے فوج اور پولیس کی حالیہ کاروائی کے خلاف پرامن احتجاج کے طور پر ریلیاں نکالنے کی کوششیں کیں لیکن بجائے اس کے کہ ان پرامن احتجاجوں پر غور کیا جاتا، انہیں ایک بار پھر ریاست میں تعینات پولیس نے اپنے ظلم و جبر کا شکار بنالیاجس کی وجہ سے احتجاج پرامن ہونے کے بجائے پرتنائو صورت اختیار کر گیا، چنانچہ یہ سلسلہ برابر لگ بھگ شام دیر گئے تک جاری رہا۔ حالانکہ ایسی صورت حال میں دنیا میں کہیں بھی طاقت کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ یا تو پرامن طور انہیں احتجاج کا موقع فراہم کیا جاتا ہے یا ان کی روک پر ایسے طریقے آزمائے جاتے ہیں جن سے اُنہیں کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں رہتا۔ لیکن اس بات کا خیال ان لوگوں کو رہتا ہے جو اپنے ہوں ، جن کی زبان ہی نہیں دل بھی انسانیت اور اصل جمہوریت کا درس دیتے ہیں ۔ لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں کے لوگوں کو خوف زدہ کرانے کے لیے اور اپنی انّا قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ طاقت کا استعمال کیا جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب بہت حد تک تنگ آچکے ہیں ، اگرچہ یہ سلسلہ وادیٔ کشمیر میں پچھلے 28 برسوں سے جاری ہے تاہم حالیہ چند برسوں سے اس میں کئی تبدیلیاں آچکی ہیں ، شاید یہاں کی نوجوان نسل اپنے مستقبل کے حوالے سے پوری طرح سوچ میں پڑے ہوئے ہیں ۔

انہیں اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کا مستقبل دن بہ دن مخدوش ہوتا چلاجا رہا ہے، کیوں کہ حالیہ چند برسوں سے انہیں غیر محسوس طریقوں سے چن چن کر ابدی نیند سلایا جا رہا ہے ۔ نوجوان نسل کو اس طرح مشتعل کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ہی بار بارسڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو رہے ہیں ، حالیہ چند ماہ اس کی ایک زندہ مثال ہے۔اگرچہ یہ سلسلہ برابر 1989ء سے جاری ہے تاہم اگر 208ء سے لے کر اپریل2017 تک کے حالات پر غور کریں تو صاف لگ رہا ہے کہ نوجوان طبقہ میں بہت حد تک اپنے حق کے تئیں جذبۂ آزادی میں شدت محسوس کی جا رہی ہے۔ اس جذبہ کو اب ایسا محسوس کیا جا رہا ہے کہ کشمیر کے باشعور لوگ برملا اظہار کرتے ہیں کہ اگر اسی طرح نوجوان طبقے کے جذبات میں شدت آتی گئی تو ایک ایسا لاوا تیار ہو جائے گا جس کی لپیٹ میں پورا برصغیر آسکتا ہے۔ کیوں کہ جب ظلم کی انتہا ہو جاتی ہے تو یہ مظلوم کسی وقت تک خاموش احتجاج ہی سے مظالم سے نجات حاصل کرنے کا متمنی رہتا ہے لیکن جب ظلم حد سے گزر جاتا ہے تو یہی کمزور اور امن پسند انسان انتہائی اقدام پر مجبور ہوجاتا ہے۔

وادی میں اسی صورت حال کا منظر آج دیکھا جا رہا ہے۔ کب کیا ہو گا، کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں ہو پارہا ہے، وادی میں چند ماہ کی خاموشی دیکھ کر بھارت کی مرکزی حکومت یا ریاستی مخلوط سرکار یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ’’ہم جیت گئے‘‘ لیکن چند ماہ کے گزرنے کے بعد ہی انہیں اپنے اندازوں پر فخر کے بجائے مایوسی اور خوف طاری ہو جاتی ہے جس کا ایک خاکہ حال ہی میں 2016 کی گرمائی ایجی ٹیشن بھی ہے جس میں فورسز کے ہاتھوں 100 ؍کے قریب لوگوں کا خون بہایا گیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی کر دئے گئے، جن میں سینکڑوں ایسے نوجوان بھائی اور بہنیں ایسی ہیں جو اپنی آنکھوں کی بصارت سے ہی محروم ہو چکے ہیں ۔ جو ہتھیار جانوروں پر استعمال کئے جاتے ہیں انہیں وادیٔ کشمیر کے لوگوں پر استعمال کیا گیا، جو قانون (پی ایس اے) مجرموں ، ڈکیٹوں وغیرہ پر لگایا جا رہا تھا وہ جموں وکشمیر کے لوگوں پر نافذ کر دیاجاتا ہے۔ بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو جیلوں میں پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے، لیکن کشمیر میں رہنے والے لوگوں کی شدتِ احتجاج کا انداز دیکھئے کہ تب سے لے کر آج تک ریاست کی مجموعی صورتحال میں ذرا برابر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔

صورت حال کو قابو کرنے کے لیے پکڑ دھکڑ، خوف وہراس، قتل وغارت گری، ظلم واستحصال کرنے کے بعد بھی حالات میں کوئی سدھار دیکھنے کی نہیں مل رہا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں دو سو سے زائد عسکریت پسند موجود نہیں ہیں لیکن اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ریاست جموں وکشمیر میں 10لاکھ کے قریب فوج و نیم فوجی دستے خصوصی اختیارات کے ساتھ تعینات ہیں ۔پھر بھلا اتنی فوج کو یہاں تعینات کرنے کا مقصد کیا ہے اور یہ کن کے لیے ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ فوج کی اتنی بڑی تعداد عوام کے سروں پر تعینات کردی گئی ہے۔ ان حالات میں بھی حال ہی میں حکومت ہند کا یہاں وادی کشمیر میں دو پارلیمانی سیٹوں کی انتخابی دنگل کیا معنی رکھتی ہے۔ ایک طرف انتخابات کا تماشا ہو رہا ہے اور دوسری جانب خون خرابہ بھی برابر جاری ہے۔

پُرامن احتجاجی مظاہروں کے دوران لوگوں پر راست گولیاں چلانا ووٹ نہ ڈالنے کے بدلے جان لینے والا معاملہ ہے۔ جس قوم کا وطیرہ ایسا ہو وہ قوم کبھی نہ ہی ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی ترقی کی دہلیز پر پہنچنے کی اُمید رکھ سکتی ہے۔ بلکہ اس قوم کا حاصل یہی ہوتا ہے کہ اس کے ہر فرد میں خوف اور دہشت طاری رہتی ہے، یہی حال آج پورے بھارت کاہے۔ جہاں نہ ہی لوگ امن وچین کی زندگی گزار رہے ہیں اور نہ ہی گزار سکتے ہیں ، کیوں کہ ان کا وطیرہ ایسا بن چکا ہے کہ وہ دوسروں کے خون سے ہولی کھیلنے کے عادی ہو گئے ہیں اور جو قوم ایسی سوچ کی قائل اور اس پر عمل پیرا بھی ہو ہو وہ قوم امن وچین پائے تو کیسے پائے؟

چنانچہ شاید ایسے حالات کو ہی محسوس کر کے کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق بھارتی مرکزی وزیر داخلہ وخزانہ پی چدمبرم نے حالات کو انتہائی گھمبیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کی بیگانگی تقریباً مکمل ہو چکی ہے، ہم کشمیر کو کھودینے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ اس طرح کے بیانات مقامی وغیر مقامی میڈیا رپورٹوں کی وساطت سے آئے روز آرہے ہیں ۔ تاہم بھارت کی مرکزی حکومت کبھی یہ کہتی ہے کہ کشمیر کے حالات میں بہتری آرہی ہے اور چند گنے چنے لوگ جن کی تعداد پانچ فیصد ہے کشمیر میں حالات بگاڑ رہے تو کبھی ایک سال کے اندر کشمیر کے حالات بدل جائیں گے کا بگل بجا دیتے ہیں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے لیے دو ہی راستے ہیں ایک سیاحت اور دوسرا عسکریت۔اور اب سوشل میڈیا پر  بھارت اپنی نظریں جمائے ہوئے ہے، انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ کشمیریوں کے لیے سوشل میڈیا کارآمد اور معاون ثابت ہو رہا ہے اس لیے اس پر پابندی عائد کرنا پڑتا ہے ۔ چنانچہ اس بار بھی ۹ اپریل سے لے کر آج تک دو مرتبہ سوشل میڈٖیا پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اور اب بھارت کی مرکزی سرکار اس بارے میں سوچ رہی ہے کہ فی الحال کشمیر وادی میں سوشل میڈیا پر پابندی عائد کی جائے۔

 دراصل بھارت کی مرکزی سرکار جان چکی ہے کہ کشمیر ایک ایسا لاوا بن چکا ہے جو کبھی بھی اب پورے بھارت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ حالیہ چند ماہ کے دوران جو نوجوان نسل جن میں پڑھے لکھے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے فوجی کاروائیوں کے شکار ہو کر اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں ۔ کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ ’’کروٹ لینا کوئی جرم نہیں لیکن کروٹ اس طرح لینا کہ سامنے موجود شخص اس قدر خوف زدہ ہو جائے کہ وہ اپنے آپ ہی سے بے خبر ہو جائے، اسے ہم کروٹ نہیں بلکہ کچھ اور نام دے سکتے ہیں ۔ آرام کے دوران رات ودن کی لیتی ہوئی انسانی کروٹیں کسی تبدیلی کا باعث نہیں بنتی بلکہ یہ کئی لوگوں کے آرام کا ایک حصہ کہلاتا ہے، لیکن اگر یہی کروٹیں باعث تبدیلی بن جائیں تو اسے ایک ایسا عنوان دیا جانا چاہیے جس میں پیچ وتاب ہو، انقلاب ہو۔‘‘

یہی صورت حال کشمیر کے نوجوان نسل کی پائی جارہی ہے، اب ایک طرف نوجوان نسل جانوں کی پرواہ کئے بغیر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر نکل رہے ہیں ، اور دوسری جانب یہی نوجوان اپنے آپ کو دائروں میں بند پارہے ہیں ۔ یہ ایک ایسا لاوا ہے جو خطرناک صورت حال کا اشارہ کرتا ہے۔ جس کا اشارہ بھارت سے وابستہ ذی حس طبقہ کرتا آرہا ہے تاہم کرسیوں پر براجمان حکمران خاص کر نسل پرست آر ایس ایس کی حامی جماعتیں جن میں بی جے پی سرفہرست ہے اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر کے کشمیر میں نوجوان نسل کے قتل عام کی متمنی ہیں ۔

اس صورت حال میں وادیٔ کشمیر کی وہ عام نوجوان نسل جن میں طلبہ بھی شامل ہیں کا اپنے حقوق اور ہو رہے ظلم و بربریت کو دیکھ کر چپ رہنا محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلوامہ میں ڈگری کالج پر فوج اور پولیس کا دھاوا بولتے ہی اس کے ردعمل میں یہاں مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ اور طالبات سڑکوں پر نکل آئے اور پورے بھارت کو ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو اس بات کا اشارہ دیا کہ ہم عام وخاص نہیں بلکہ ایک ہیں ، ہمارامقصد ایک ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اس طرح کی سوچ جس قوم کی نوجوان نسل میں پیدا ہو جائے اسے دنیا کی کوئی طاقت اپنے زیر نگیں نہیں رکھ سکتی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر حقیقی انسانیت اور جمہوریت کا طریقہ اختیار کرکے جموں وکشمیر کے لوگوں کو اپنے مستقبل کو سنوانے کا موقع فراہم کر کے اس بات کا ثبوت دے کہ وہ حقیقت میں اصل جمہوریت اور انسانیت کا قائل ہے،جس کے لیے بھارت کو جموں وکشمیر کے لوگوں کو اپنے بنیادی حق دینا ضروری ہے۔عقل مندوں کا کہنا ہے کہ ’’جو میرا نہیں اسے اپنے زیر نگیں کر کے اِس اُمید میں رہنا کہ یہ میرا ہے ، یہ سوچ انسانی قوموں میں تنزلی اور فساد کی شکل اختیار کر لیتا ہے، قوموں کو چاہیے کہ وہ اس سوچ اور طریقہ کار میں تبدیل لائیں تاکہ اس ناجائز لڑائی کے سبب اپنا جائز حصہ بھی متاثر نہ ہو جائے۔ ‘‘ اس کے ساتھ ساتھ اقوام عالم بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ، انہیں تماشائی بننے کے بجائے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا رول نبھانا چاہیے۔ تاکہ امن عام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔