ظلم کا نہیں، انصاف کا ہے مستقبل!

عالم نقوی

ہاں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں لیکن دنیا اہل ایمان سے خالی نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اُن کی تعداد کم ضرور ہے، اتنی کم  کہ اُن کے دشمن خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور یہ ڈینگیں مارنے لگے ہیں کہ ’’خیبر ان کی آخری شکست تھی، اب دنیا اور مستقبل دونوں اُن کے ہیں‘‘ !

لیکن وہ سخت غلط فہمی میں ہیں۔ مستقبل سچ، حق، عدل اور دین فطرت کا ہے، جھوٹ، منافقت، ظلم اور  تحریف شدہ  مذاہب کا نہیں۔ انشاءاللہ

اہل ایمان کے دائمی دشمن یہود و مشرکین اور یہودیوں کے امریکہ و برطانیہ جیسےد وستوں اور سرپرستوں  کے انسانیت سوز مظالم اور  اُن کی جانب سے ہونے والا نام نہاد انسان دوستی کا منافقانہ پروپیگنڈا  میڈیا پر  صہیونی مقتدرہ اور قارونوں کے قبضے کے باوجود  جگ ظاہر ہے!

 گوانتا نامو سے ابو غریب اور بگرام تک، فلسطین و غزہ سے عراق و افغانستان تک اور یمن و  سیریا   سے رخائن اور برصغیر بلکہ پورے جنوبی، مغربی اور وسطی ایشیا اور شمالی افریقہ تک مستضعفین فی ا لا رض پر ہونے والے مظالم سے کون واقف نہیں ؟جو نہیں جانتے اور یہود و مشرکین کی دوستی کا دم بھرتے ہیں وہ یا تو احمق ہیں یا پھر منافق، یا حماقت ومنافقت کے  غلیظ ملغوبے کا شرم ناک پیکر!

وقت کے وہ درجنوں قارون، جنہوں نے  پوری دنیا پر غیر منصفانہ و مفسدانہ  سیاسی و معاشی نظام اورجھوٹے،  مکار، ظالم اور مفسد حکمرانوں کو مسلط کر رکھا ہے، بہت جلد انشا ء اللہ ا ُسی انجام سے دوچار ہو نے والے ہیں  جوکئی ہزار سال پہلے  والے بنی اسرائل کے قارونِ اوّل  کا ہو چکا ہے۔

’’اور قارون و فرعون و ہامان جن کے پاس موسیٰ (علیہ السلام)کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان لوگوں نے زمین میں ’اِستِکبار‘ سے کام لیا حالانکہ وہ ہم سے آگے جانے والے نہ تھے۔ پھر ہم نے ہر ایک کو ان کے گناہ میں گرفتار کر لیا، کسی پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دی، کسی کو ایک آسمانی چیخ نے پکڑ لیا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی میں غرق کر دیا اور اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ لوگ خود اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے ہیں (العنکبوت ۳۹۔ ۴۰)‘‘

 ’’قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا لیکن وہ اُن کے خلاف زیادتی پر اتر آیا۔ (جبکہ اللہ) نے اسے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ اُن کی کنجیاں ایک طاقتور گروہ بہ مشکل اٹھا پاتا تھا۔ جب اُس کی قوم کے لوگوں نے اُس سے کہا کہ اِتراؤ مت۔ اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس کے ذریعے آخرت کا گھر طلب کرو اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھولو۔ احسان کرو جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ کہ اللہ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا۔ تو اس نے کہا کہ کہ یہ سب مجھے اپنے ذاتی علم کی بنا پر ملا ہے۔ کیا اس کو معلوم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکا ہے جو قوت اور جمعیت میں اس سے بڑھ کر تھیں۔ ۔ پھر وہ (قارون جب) اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھاپنی قوم کے سامنے نکلا تو وہ لوگ جو دنیوی (عیش و آرام والی) زندگی کے طالب تھے کہ کاش ہمیں  (بھی) وہ سب ملتا جو قارون کو ملا ہوا ہے کہ یہ تو بڑا قسمت والا ہے ! مگر جن کو علم عطا ہوا تھا انہوں نے کہا کہ وائے ہو تم پر! اللہ کی بخشش بہتر ہے ان کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتا رہے اور یہ دولت تو صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہے۔ آخر کار ہم نے اُسے(قارون کو) اور اُس کے گھر کو (جہاں اس کی دولت اور خزانے تھے) زمین میں (تمام خزانوں سمیت) دھنسا دیاپھر کوئی بھی اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد نہ کر سکا اور نہ وہ خود ہی اپنا کوئی دفاع کر سکا۔ اور وہی لوگ جو کل تک اُس کے (قارون جیسے) مقام (اور دولت) کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے : ہائے غضب ! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی (قارون کی طرح ) دھنسا دیتا ہائے غضب کافر تو کبھی فلاح نہیں پاتے  (القصص۷۶۔ ۸۲)

اڈانیوں اور امبانیوں جیسے وقت کے  تمام قارونوں  کا انجام بھی  جلد یا بدیر وہی ہونا ہے جو بنی اسرائل کے قارون کا ہوا تھا۔ آج جس طرح دنیا کے قارونوں نے  وقت کے فرعونوںکو  دنیا بھر میں بر سر اقتدار کر رکھا ہے، بنی اسرائل کے قارون نے بھی اپنی ملت سے غداری کر کے فرعون کے پاس اہم مقام حاصل کر لیا تھا اور اس گمان میں مبتلا ہو گیا تھا کہ یہ دولت اللہ کا عطیہ نہیں بلکہ محض اس کےذاتی  علم و ہنر اور محنت کا نتیجہ ہے اور اس میں دیگر بندگان خدا کا  کوئی حصہ نہیں ہے مگرجب اللہ کا عذاب آن پہنچا تو نہ اس کا  سیاسی  رسوخ و دبدبہ اس کے کام آیا  نہ اس کی دولت اسے بچا سکی اور وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنساکر رہتی دنیا  تک کے تمام سرمایہ داروں کے لیے نمونہ عبرت بنا دیا گیا۔

تبصرے بند ہیں۔