عام تباہی کے اسلحہ کا استعمال: اسلامی نقطۂ نظر – قسط۲

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

عدمِ جواز کے قائلین
جو مسلم دانش ور عام تباہی مچانے والے اسلحہ کی تیاری اور استعمال کے عدم جواز کی رائے رکھتے ہیں، ان میں سے دو حضرات کاتذکرہ یہاں کیا جارہا ہے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر سہیل ہاشمی ہیں۔ ان کی کتاب Ethics and Weapons of Mass Destruction: Religious and Secular Perspective 2004ء میں نیویارک سے شائع ہوئی ہے۔ 339 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اصلاً مختلف اصحاب فکر کی تحریروں کا مجموعہ ہے۔ اس میں WMD کے بارے میں مختلف مذاہب کا نقطۂ نظر بھی پیش کیا گیا ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی خود مرتبِ کتاب نے اپنے مضمون Islamic Ethics and Weapons of Mass Destruction: An Argument For Non-proliferation میں کی ہے۔
انھوں نے WMD کے بارے میں مسلم امت میں تین طرح کے نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک طبقہ جواز کے قائلین کاہے۔ اسے وہ WMD Jihadists کا نام دیتے ہیں۔ دوسرا طبقہ Muslim WMD Terrorists کا قرار دیتے ہیں اور القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ان کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ تیرا طبقہ عدم جواز کے قائلین کا ہے، جنھیں وہ Muslim WMD Pacifists کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی رائے موخر الذکر طبقہ کے حق میں دی ہے۔ اس کاخلاصہ درج ذیل ہے:
’’مسلمانوں کو WMD کے حصول اور اس کے امکانی استعمال کو درج ذیل اسباب سے رد کردینا چاہیے:
1۔ نیو کلیائی، کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحے مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔
2۔ اگر ان کا استعمال صرف فوجی تنصیبات پر ہی کیا جائے تو بھی ہلاکتیں اتنے بھیانک طریقے سے ہوتی ہیں کہ وہ مقاتلین کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں۔
3۔ ان سے طبعی ماحولیات پر برا اثر پڑتا ہے اور دیگر مخلوقات بھی ہلاک ہوتی ہیں۔ قرآنی اصطلاح میں یہ فساد فی الارض ہے۔
4۔ ان کا استعمال ایسے کاموں میں نہیں ہوسکتا، جن کا اخلاقی جواز موجود ہو، اس لیے ان کی تیاری پر آنے والے مصارف ’اسراف‘ کے دائرے میں آتے ہیں، جن سے قرآن و حدیث میں روکا گیا ہے‘‘۔ 14؂
اپنی بحث کو سمیٹے ہوئے انھوں نے آخر میں لکھا ہے:
’’اگر مسلمان اسلامی اخلاقیات پر عمل کریں تو میرا خیال ہے کہ وہ WMD کے کسی استعمال کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر WMD جنگ میں استعمال کے لیے نہ ہوں تو محض مزاحمت و مدافعت (یا قومی وقار) کے لیے، اخلاقی، اقتصادی اور عسکری کسی اعتبار سے ان کی تیاری کا جواز نہیں بنتا‘‘۔15؂
ایک دوسرے دانش ور ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی ہیں، جو اپنی تصنیفات اور علمی کاموں کی وجہ سے عالم اسلام کی معروف شخصیت ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ’مقاصد شریعت‘ کے عنوان سے آپ کی تصنیف منظر عام پر آئی ہے۔ اس کی بعض آراء سے اہل علم نے اختلاف کیا ہے، اس سے قطع نظر اس کتاب میں آپ نے زیر بحث موضوع پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مقاصدِ شریعت کی روایتی فہرست میں کچھ اور موضوعات کا اضافہ کیا جائے، جو موجودہ دور میں بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں، ان میں سے ایک عام تباہی مچانے والے اسلحہ کا مسئلہ بھی ہے۔ اپنی بحث کے آغاز میں انھوں نے لکھاہے:
’’اس بارہ میں دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ عام تباہی مچانے والے ہتھیار، جو محارب اور غیر محارب میں تمییز نہ کرسکتے ہیں، نہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور معذوروں کو مستثنیٰ رکھ سکتے ہوں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر جن سے تباہ کن اثرات موجودہ نسل کے بعد بھی کئی نسلوں تک اور جس علاقہ میں ان کو استعمال کیا جائے اس سے دوٗر دوٗر تک کے علاقوں تک پھیل جاتے ہیں، ایسے ہتھیاروں کا استعمال فساد فی الارض میں داخل ہے۔ فساد فی الارض کو دوٗر کرنا مقاصدِ شریعت میں سے ہے۔ چنانچہ نیوکلیائی، کیمیاوی اور حیاتیاتی اسلحوں کے بنانے پر اوران کی خرید و فروخت نیز ان کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے۔ شریعت کی اصطلاح میں ان اسلحہ کو بنانا، ان کی خرید و فروخت اور ان کا استعمال حرام قرار پایا جانا چاہیے اور یہ حرمت غیر مشروط ہونی چاہیے۔ کوئی ایسی صورت متصور نہیں، جس میں فساد فی الارض جائز ہو‘‘۔ 16؂
ڈاکٹر صاحب عام تباہی مچانے والے اسلحہ کے خلاف اس وجہ سے بھی ہیں کہ ان کے بنانے ، محفوظ رکھنے اور استعمال کرنے کے لیے خود کو ہر آن مستعد رکھنے پر کثیر مادی وسائل کے علاوہ ملک کی بہترین افرادی طاقت، اعلیٰ ترین علمی صلاحیتوں اور سب سے زیادہ وفادار، قابل بھروسہ اسٹاف کی خدمات درکار ہوتی ہیں، ان کی دیکھ ریکھ میں اتفاقی فروگزاشت اور اس کے نتیجے میں حادثوں کا بھی امکان موجود ہے اور ان سب پر مستزاد یہ کہ اگر اس کام کو اولیت دی جائے تو دیگر مشترکہ انسانی مسائل کے حل کے لیے نہ مادی وسائل بچیں گے نہ افرادی طاقت اور اعلیٰ صلاحیتیں خالی ملیں گی۔ لیکن ان کا اصل استدلال یہ ہے کہ یہ مسئلہ اسلامی قدروں اور اصولوں سے مغایر ہے۔ انھوں نے اپنے موقف کے حق میں قرآن کریم سے دو نصوص پیش کیے ہیں۔ ایک سورۂ مائدہ کی آیات: 27۔32، جن میں آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، کہ ایک کی جارحیت کا دوسرے نے جواب نہیں دیا، بلکہ اعلان کردیا کہ اگر تو مجھے قتل کردے گا تو بھی میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ دوسری سورۂ حم السجدہ کی درج ذیل آیت ہے:
وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ ۔ (آیت:34)

اور (اے نبی) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں، تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھوگے کہ تمھارے ساتھ جس کی عدات بڑھی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا۔
آگے انھوں نے اس موقف پر وارد ہونے والے ممکنہ اعتراضات کاجواب بھی دیا ہے۔ اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔ یہ بات درست نہیں کہ یہ آیات انفرادی جارحیت سے متعلق ہیں۔ سیاقِ کلام کاتقاضا ہے کہ ان سے مسلمانوں کو ان کے اجتماعی سلوک میں اصول پسندی سکھانا مقصود ہو۔
2۔ یہ خیال غیر حقیقت پسندانہ ہے کہ اگر مسلمانوں نے یہ موقف اختیار کیاتو وہ دشمنوں کے لیے لقمۂ تر بن جائیں گے۔ کوئی بھی ایٹمی طاقت انہیں ڈرا دھمکاکر ان سے اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کروالے گی، یا بہ صورت دیگر صفحۂ ہستی سے نابود کردے گی۔ کیوں کہ آج کی دنیا میں کوئی ایک ملک اتنا طاقت ور نہیں کہ دوسرے ملکوں کو ساتھ لیے بغیر اپنی مرضی چلاسکے۔
3۔ یہ خطرہ مبالغہ آمیز ہے کہ مسلمانوں کے یہ موقف اختیار کرنے کے نتیجے میں اندیشہ ہے کہ ان کا نام صفحۂ ہستی سے مٹ جائے اور دینِ اسلام کا کوئی نام لیوا نہ رہ جائے، کیوں کہ آج مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعداد ان ملکوں میں بھی بستی ہے جو ایٹمی طاقت اور دوسرے تباہ کن اسلحہ سے لیس ہیں۔
4۔ اس مسئلہ پر مصالح اور مفاسد، فوائد اور نقصانات کا موازنہ کیا جائے تو فساد عام برپا کرنے والے اسلحہ کے بنانے، رکھنے اور ممکنہ استعمال کے نقصانات کا پلّہ بہت بھاری ہے ، اتنا بھاری کہ اس سے متوقع فوائد اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ 17؂
تجزیہ و محاکمہ
اس مسئلے پر دونوں فریقوں کے موقف اور ان کے دلائل پرایک نظر ڈالنے سے بہ خوبی واضح ہوجاتا ہے کہ مسئلہ بڑا پیچیدہ اورنازک ہے، اس لیے اس کے سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے قبل اس کے تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ غور و فکر کے لیے چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ اسلام نے انسانی جان کی حفاظت پر غیر معمولی زور دیا ہے۔ اس کا شمار مقاصد شریعت میں کیاگیا ہے۔ کسی بے قصور کی جان لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔ جب کہ عام تباہی کے اسلحے بڑی تعداد میں بے قصوروں کی جانیں ضائع ہونے کا موجب بنتے ہیں۔
2۔ اسلام نے جنگ کے دوران مقاتلین اور غیر مقاتلین کے درمیان فرق کیا ہے۔ ان اسلحہ کے استعمال کی صورت میں یہ فرق کسی بھی صورت میں ملحوظ نہیں رکھا جاسکتا۔
3۔ دنیا کا دستور ہے کہ طاقت ور دوسروں کی جارحیت سے محفوظ رہتا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کو طاقت حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر موجودہ صورت حال میں طاقت کا حصول کیوں کر ممکن ہے؟
4۔ اسلام مسلمانوں کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہے کہ ان کے دشمن ان سے خوف زدہ رہیں اور ان کے بارے میں کوئی جارحیت کرنے سے قبل ہزار بار سوچیں۔ مسلمان اس مقام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
5۔ ایک طرف قرآن و سنت کے وہ نصوص ہیں جن میں برائی کا جواب بھلائی سے دینے اور جارحیت کے جواب میں خود سپردگی اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، دوسری طرف ایسے نصوص بھی ہیں جن میں جارحیت کا اسی انداز سے جواب دینے اور مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دونوں میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
6۔ دنیا کے ہر قانون میں اصولی احکام کے ساتھ استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں۔ زیر بحث مسئلہ میں اسلام کے اصولی موقف کے ساتھ محاصرۂ طائف کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے منجنیق استعمال کرنے کی استثنائی مثال بھی موجود ہے۔
7۔ اگر مقاصد شریعت میں شامل چیزوں کے درمیان تعارض ہورہا ہو تو ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کیا بنیاد ہوگی؟ زیر بحث مسئلے میں مسلمان طاقت وررہیں اور اسلام غالب ہو، یہ بھی شریعت کا مقصد ہے اور دنیا کو عام تباہی مچانے والے ہتھیاروں سے محفوظ رکھنا بھی شریعت کا مقصد ہے۔ دونوں میں تعارض کی صورت میں کس کو ترجیح دی جائے؟
مؤتمر العالم الاسلامی کی قرار داد
مارچ 1984ء میں موتمر العالم الاسلامی کے زیر اہتمام کراچی یونی ورسٹی پاکستان میں ایک بین الاقوامی سمینار منعقد کیا گیا تھا، جس کا موضوع تھا: Nuclear Arms Race and Nuclear Disarmament: The Muslim Perspective۔ اس موقع پر شرکائے سمینار کی جانب سے جو قراردادیں منظور کی گئی تھیں، انہی پر اس گفتگو کو ختم کیا جاتا ہے۔
1۔ اسلام کی تعلیمات، جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہیں، مسلمانوں کو حکم دیتی ہیں کہ وہ غیر مشروط طریقے پر ہلاکت کے وحشیانہ اسلحہ کے کسی بھی طرح کے استعمال کی مخالفت کریں، اس لیے کہ اسلام میں بلاکسی تفریق کے انسانوں کی جانوں اور املاک کی بربادی کی گنجائش نہیں ہے۔
2۔ جو ممالک نیوکلیائی اسلحہ رکھتے ہیں ان کی خلاقی ذمہ داری ہے کہ ان سے دست بردار ہوجائیں۔
3۔ نیوکلیائی اسلحہ کی تیاری کی تمام صورتیں موقوف کردی جائیں۔ جو اسلحہ تیار شدہ ہوں انھیں بہ تدریج ضائع کردیا جائے اور موجودہ نیوکلیائی مادوں کو پرامن کاموں میں استعمال کیا جائے۔
4۔ یہ بیداری لانے کی بھرپور کوشش کی جائے کہ جو وسائل نیوکلیائی اسلحہ کی تیاری میں صرف ہوتے ہیں انھیں بھکمری، بیماری، جہالت اور غربت، جن سے عالم انسانیت کا بڑا حصہ، خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک دوچار ہیں،ان کو دور کرنے میں صرف کیا جائے۔
5۔ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں نیوکلیر فری زون قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ 18؂
حواشی و مراجع
1؂ صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب قتل الصبیان فی الحرب، باب قتل النساء فی الحرب، 3014، 3015، صحیح مسلم، کتاب الجہاد، 1744
2؂ سنن ابن ماجہ، ابواب الجہاد، باب الغارۃ والبیات وقتل النساء والصبیان، 2842
3؂ سنن ابوداؤد، کتاب الجہاد، باب فی دعاء المشرکین، 2614، ضعّفہ الالبانی
4؂ مسند احمد، 1/100۔ اس موضوع پر اسلامی تعلیمات کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا سید جلال الدین عمری کی کتاب ’غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق‘، ص212۔216، بہ عنوان جنگ کے آداب، طبع سوم 2007ء، ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی 25
5؂ صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی والحث علیہ، 1917
6؂ ابوحیان الاندلسی، البحر المحیط، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1993ء، 4/508
7؂ محمد رشید رضا، تفسیر المنار، دارالمنار قاہرہ، 1947ء، 10/75
8؂ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی، دارالفکر دمشق، 1992ء، ص506۔507
9؂ مولانا سید جلال الدین عمری، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ص215۔211
10؂ حوالہ سابق، ص213
11؂ بہ حوالہ سہیل ہاشمی، ص345
12؂ ماہ نامہ ترجمان القرآن لاہور، دسمبر 1998ء، اشارات بہ عنوان ’ایٹمی صلاحیت اور قرضوں کا بوجھ‘، ص8۔9
13؂ حوالہ سابق، ص10۔11
14؂ سہیل ہاشمی، اتھکس اینڈویپن آف ماس ڈسٹرکشن، کیمبرج یونی ورسٹی پریس، 2004ء، ص323۔324
15؂ سہیل ہاشمی، حوالہ سابق، ص346
16؂ پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی، مقاصدِ شریعت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، 2009ء، ص293۔294
17؂ حوالہ سابق، ص298۔301 (تلخیص)
18؂ سہیل ہاشمی، حوالہ سابق، ص344

(مضامین ڈیسک)

تبصرے بند ہیں۔