عام زمرے میں دس فیصد کوٹا: سیاسی جملوں کا سردار جملہ

سید منصورآغا

سات جنوری پیر، دوپہردوبجے یہ خبرآئی کہ مرکزی کابینہ نے جنرل زمرے (غیر ایس سی؍ایس ٹی، او بی سی) کے ’اقتصادی طور پر کمزور‘ خاندانوں کے افراد کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیم کے اعلیٰ اداروں میں داخلوں میں دس فیصد رزرویشن دینے کا فیصلہ کیا ہے اوراس کے لیے آئین کی دفعات 15اور16میں ترمیم کے ایک بل کے مسودہ کو کابینہ نے منظوری دیدی ہے۔ دوسرے ہی دن 8 جنوری کو، جو لوک سبھا کے سرمائی اجلاس کا آخری دن تھا ، یہ بل لوک سبھا میں پیش ہوا اور اسی دن منظورکرلیا گیا۔ مخالفت میں صرف 3 ووٹ آئے ، تائید 323 ممبران نے کی۔ بل میں نقائص کے باوجود اپوزیشن نے بھی تائید کردی اور بل کو پارلیمانی کمیٹی کے زیرغورلانے کی تجویز پیش کرنے کی بھی ہمت نہیں کی۔ کسی نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس 10فیصدکی بنیاد کیا ہے؟ یہ15فیصد یا 20فیصد کیوں نہیں ؟ اگلے ہی دن 9جنوری کو راجیہ سبھامیں ایسا ہی کچھ ہوا۔ بل 7کے مقابلے 165کی اکثریت سے منظور ہوگیا۔ خوشی کی بات یہ ہے اس پر کوئی 9 گھنٹہ سنجیدہ بحث ہوئی۔ اس کے نقائص گنوائے گئے۔ اس کے اچانک لائے جانے کے موقع کا ذکرہوا۔ پوچھا گیا پانچ ریاستوں میں شکست کے بعد ہی کیوں ؟ پہلے کیوں نہیں ؟ لیکن یہ بحث ایسے پرسکون انداز میں ہوئی کہ یقین ہی نہیں آرہا تھا یہ ہماری ہی پارلیمنٹ میں ہورہی ہے۔ اس کے دو ہی دن کے اندر12جنوری بروز ہفتہ صدرجمہوریہ نے مسودہ قانون کو منظوری دیدی اور14جنوری بروز پیر وزارت سماجی انصاف اور بااختیاری (Social Justice and Empowerment) نے ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے اس کے فوری نفاذ کا اعلان کردیا۔

قانون سازی کی رفتار:

جس رفتار سے یہ آئینی ترمیمی قانون وجود میں آگیا اس سے ظاہرہوا کہ سرکار کچھ کرنے پرآئے اور اس میں سیاسی فائدہ نظرآئے ہے توکام کیسے آناً فاناً ہوجاتا ہے۔ یہ عجلت اس کے باوجود ہوئی کہ حالیہ عرصہ میں اس طرح کے ریزویشن کا کوئی مطالبہ عوام کی طرف سے نہیں ہورہا تھا۔ اس کے برخلاف مختلف حلقوں سے، جس میں عدلیہ بھی شامل ہے حکومت سے کہا جارہا تھا کہ ہجومی تشدد اورفسادات میں ملوث افراد، ان کے سرپرستوں اوران کو تحفظ دینے والے سیاست دانوں کو گرفت میں لانے کے لیے قانون لائے، مگرایسا نہیں ہوا۔ کیوں نہیں ہوا؟ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ سرکارآئین اورقانون کی پابندی کے بجائے سیاسی نفع نقصان کو سامنے رکھ کرکام کرتی ہے۔ حیرت ہے کہ اس کی اصولی مخالفت میں صرف بیرسٹراسدالدین اویسی کی آواز سنائی دی۔ کانگریس نے اس کی خامیاں توگنوائیں مگر ان کو دورکرنے کی نہ کوئی تجویز پیش کی اورنہ اصرار کیا۔ باقی اپوزیشن پارٹیوں کا حال بھی یہی رہا۔ ڈرتھا کہ مخالفت کی گئی توبھاجپا کو طعنہ دینے کا موقع مل جائے گا اور اعلیٰ ذات کا ووٹر ناراض ہوجائے گا۔

دواچھے پہلو:

خامیوں کے باوجود اس قانون کے دوپہلو قابل تعریف ہیں۔ پہلی مرتبہ ذات، برادری کے بجائے اقتصادی حالت کو پیمانہ بنایا گیا۔ یہی پیمانہ ایس سی؍ایس ٹی اوراوبی سی ریزرویشن سمیت سب کے لیے ہونا چاہئے۔ سہاراہراس فرد کو دیا جائے جس کے والدین تعلیم اورترقی کے مواقع سے محروم رہے، چاہے اس کی ذات اورمذہب کچھ بھی ہو۔

دوسرا پہلو یہ کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر غیرہندواقلیتوں کے ساتھ ایسا تعصب نہیں برتتا جیسا کہ آئین کی دفعہ 341کے نفاذ کی پالیسی میں برتا گیا اور غیرہندو ایس سی ؍ایس ٹی کو تعلیم اورملازمتوں میں مراعات سے محروم رکھا گیا حالانکہ ایسا کرنا ہندکے آئین کے بنیادی اصول کے خلاف ہے جو کہتا ہے مذہب کی بنیاد پرکسی باشندے کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔ اس کو بھی درست کیا جائے۔

بڑی خامی:

زیرتبصرہ آئینی ترمیمی قانون کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے تو سہولت دی گئی مگر اعلیٰ اداروں تک پہنچنے کے مراحل کی فکرنہیں۔ تعلیمی طورسے پچھڑے ہوئے خاندانوں کے لیے یہ سہولت بیحد ضروری ہے کہ ان کے بچوں کوتعلیم کے ہرمرحلے پر داخلے اورفیس میں چھوٹ ، کتابوں کی فراہمی وغیرہ کی سہولتیں ملیں اورکوئی بھی بچہ گھریلو حالات کی وجہ سے آگے بڑھنے سے محروم نہ رہے۔ خاص طورسے بچیوں کی فکرکی جائے کہ ایک لڑکی اگرپڑھ جاتی ہے تواس کی اگلی نسل تعلیم سے جڑجاتی ہے۔

دس فیصد ہی کیوں ؟:

ایک سوال دس فیصد کی شرح کے درست ہونے کا بھی ہے۔ یہ قانون لانے سے پہلے سرکارنے کوئی سروے نہیں کرایا۔ ریزرویشن کے لیے کوئی مضبوط بنیاد ہونی چاہئے جس کے لیے سروے ضروری ہے۔ اس کے بغیر عدالتیں کئی ریاستوں میں منظورکئے گئے رزرویشن قوانین کو رد کرچکی ہیں۔ پھراس قانون میں غریبی کا جومعیار مقررکیاگیا ہے وہ بھی سوالوں کے گھیرے میں۔ اس کے تحت ایسا فرد جس کے خاندان کی آمدنی 8لاکھ روپیہ سالانہ سے کم ہو، ریزرویشن کے دائرے میں آئے گا۔ خاندان میں طلب گار کے والدین، 18سال سے کم عمر کے بہن بھائی اورخود اس کے بیوی بچے شامل ہیں۔ لیکن اگر خاندان کے پاس 5ایکڑسے زیادہ کاشت کی زمین ہے، یا دیہات میں ایک ہزارمربع فٹ کا رہائشی مکان ، نوٹیفائڈ میونسپل ایریا میں ایک سوگز کا یا نان نوٹیفائڈ میونسپل ایریا میں دوسوگز کا پلاٹ ہو، اس کی آمدنی چاہے جتنی کم ہو، وہ اس رعایت کے مستحق نہیں ہوگا۔ خاص طور سے رہائشی مکان اورپلاٹ کا آمدنی سے کیا تعلق ہے؟ البتہ مکان اورپلاٹ سے آمدنی ہوتوبیشک اس کو شمارمیں لایا جائے۔ ظاہر ہے یہ حدیں نامناسب ہیں۔

یہ فراخ دلی:

اب زرا حکومت کی اس فراخ دلی پربھی توجہ کرلیں جس سے تحت 8لاکھ روپیہ سالانہ سے کم آمدنی والے خاندان کو ریزرویشن کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ ہمارے یہاں انکم ٹیکس سے چھوٹ کی آخری حد مردکے لیے ڈھائی لاکھ روپیہ اورعورت کے لیے تین لاکھ روپیہ سالانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے اگر شوہر اوربیوی دونوں کمارہے ہیں اورانکم ٹیکس بھی دے رہے ہیں ، ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ کمارہے ہیں مگرکل آمدنی 8لاکھ سے کم مگر ہے، تب بھی اس قانون کے تحت وہ غریبی کے زمرے میں آجائیں گے اوران کے تمام بچے ریزرویشن کے مستحق قرارپائیں گے۔ اسی طرح اگرآپ دیہات کا رخ کریں توکاشتکاروں میں بمشکل چندفیصد کے پاس اب 5؍ ایکڑ سے زیادہ آراضی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ اکثرکاشتکار خاندانوں اورغیرکاشتکاراکثرخوشحال انکم ٹیکس ادا کرنے والے گھرانوں کے بچے اس ریزرویشن کے حقدارہونگے۔ اس کا منشاء صاف ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوش کردینا۔ ان کا ووٹ پانا۔ سوال یہ بھی ہے عام زمرے کے اتنے بڑے طبقے کے لیے صرف دس فیصد ہی کیوں اور بڑے دھنوانوں کے لیے باقی 40فیصد چھوڑ دینا کیا منصفانہ ہے؟

چند دوسری سرکاری مراعات کے لیے آمدنی کی حد پربھی ایک نظر۔ خود اپنا روزگارشروع کرنے کے لیے ایس سی؍ایس ٹی کو جو قرضہ ملتا ہے وہ ایک لاکھ روپیہ سالانہ سے کم آمدنی پرہی ملتا ہے۔ اگرآپ کسی شہری علاقے میں رہتے ہیں اور56000روپیہ سالانہ کماتے ہیں تو غریب نہیں۔ اگرآپ 48000 روپیہ سالانہ سے زیادہ کمالیتے ہیں تو فیملی بینفٹ اسکیم کے تحت قرض کے مستحق نہیں ہونگے اورنہ شادی کے لیے سرکاری مددپاسکیں گے۔ اتنی ہی آمدنی والی بوڑھی بیوہ کو ضعیفی بیوہ وظیفہ بھی نہیں ملتا۔ اگرآمدنی تین لاکھ روپیہ سالانہ سے زیادہ ہے تب راشن کارڈ بھی نہیں بنے گی۔ اس کے باجودمذکورہ ریزرویشن میں حد 8لاکھ روپیہ سالانہ رکھ دی گئی ہے۔ اس کی مصلحت جیسا کی عرض کیا گیا ، زیادہ سے زیادہ رائے دہندگان کو رجھانے کی کوشش ہے۔ سنہ 2014کا چناؤ جیتنے کے لیے بہت سے لوک لبھاون جملے اچھالے گئے تھے جن کی رَومیں عوام بہہ گئے تھے۔ یہ جملہ ان سب جملوں کا سردارنکلا کہ اپوزیشن پارٹیاں بھی گھٹنوں کے بل آگئیں۔

نوکریاں کہاں ہیں:

ایک سوال اورہے۔ وہ سرکاری نوکریاں ہیں کہاں جن میں دس فیصد کی حصہ داری دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے؟ اگرچہ مودی جی نے چناؤ سے قبل بھروسہ دلایا تھا کہ ہرسال ڈھائی کروڑ نئے روزگار فراہم کیے جائیں گے مگرہواالٹا۔ حکومت کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے بے روزگارنوجوانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سنٹرفارمانیٹرنگ انڈین اکونومی (CMIE) کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ نوٹ بندی کے فوری اثرکے تحت 35 لاکھ افراد بے روزگارہوئے۔ تازہ جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 2017کے مقابلے میں سنہ 2018 میں ملک بھر میں بے روزگارنوجوانوں کی تعدا میں ایک کروڑ نو لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری اداروں ، یونیورسٹیوں ، کالجوں اور اسکولوں میں بے شماراسامیاں خالی پڑی ہیں ، جن پر تقرری نہیں ہورہی۔ سرکار اپنے بہت سے کام عملہ رکھے بغیر ٹھیکے پرکرانے لگی ہے۔ ریلوے اورسڑکوں کی تعمیر کااکثرکام ٹھیکے داروں کو دیا جارہا ہے۔ جب سرکاری روزگارکے دروازے بند ہیں توپھراس ریزرویشن کا مقصدسوائے انتخابی جملہ اورکیا ہے؟گجرات اورچھتیس گڑھ نے اس قانون کو فوری طورسے نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اورریاستیں بھی کریں گی۔ دیکھنا ہے کہ اگلے تین ماہ میں کتنے لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں ؟ اندیشہ یہ بھی ہے اپنے ان نقائص کی وجہ سے یہ قانون عدالت کی زد میں نہ آجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔