عدالت سے پہلے حکومت کے آقا کا فیصلہ

حفیظ نعمانی

آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری بھیاجی جوشی نے ناگ پور میں واضح الفاظ میں کہا کہ رام مندر کی تعمیر طے ہے۔ وہاں کوئی دوسری چیز تعمیر نہیں ہوسکتی۔ ناگ پور میں سب کی موجودگی میں سنگھ کے جنرل سکریٹری کا یہ بیان اور وہ بھی ایسے وقت میں جب سپریم کورٹ آخری سماعت کی تیاری میں مصروف ہے۔ آر ایس ایس کے اتنے ذمہ دار کا بیان حکومت کا بیان ہے۔ اس لئے کہ حکومت اس کی ہی ہے۔ چند روز پہلے ایک مذاکرے میں آر ایس ایس کے ایک ذمہ دار شریک تھے۔ انہوں نے بڑے اعتماد سے کہا کہ آپ لوگ ناگ پور آکر اور رہ کر دیکھئے وہاں کسی کی زبان سے بی جے پی نہیں سنیں گے ۔ بی جے پی کا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اور یہ بات ہر بی جے پی لیڈر کو یاد ہوگی کہ دس بارہ سال پہلے بی جے پی کے صدر کا مسئلہ تھا۔ فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ کسے صدر بنایا جائے۔ اتنے میں ہی ایک صاحب اسکوٹر پر بیٹھے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا فون آیا کہ دہلی والوں میں کوئی صدر بننے کے لائق نہیں ہے نتن گڈکری کو ہم بھیج رہے ہیں یہ بی جے پی کے صدر ہوں گے۔ اور دستور میں ترمیم کردی جائے کہ اگلا صدر بھی ان کو ہی بنایا جائے گا۔

اس وقت مودی جی تو نہیں تھے باقی سب تھے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کا جواب بھی دے پاتا۔ اور گڈکری صاحب صدر بن گئے۔ یہ تو ان کی بدنصیبی تھی کہ پانچ سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اروند کجریوال اور این ڈی ٹی وی انڈیا کے رپورٹروں نے ڈھونڈ نکالا کہ گڈکری کی تو 20 فرضی کمپنیاں ہیں۔ اور جب تلاش کی گئی تو فریب ہی فریب تھا۔ اس وقت پھر موہن بھاگوت صاحب نے دخل دیا اور کہا کہ راج ناتھ سنگھ کو صدر بنا دو وہ آر ایس ایس سے سب سے زیادہ قریب ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آگے پیچھے ہو لیکن ہر بات حافظہ میں موجود ہے اور اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم کہیں یا سنگھ کے صدر یا جنرل سکریٹری یہ بات حکومت کی بات ہوگی اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ روزنامہ انقلاب نے اس خبر کو بینر بنایا تھا۔ اور جسٹس سہیل اعجاز نے یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ایسے بیانات سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارے پیش نظر یہ مسئلہ نہیں ہے کہ عدالت پر اثر پڑے گا یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ جب وزیراعظم سے زیادہ بااثر کوئی عہدیدار کہے کہ اجودھیا میں رام مندر بنے گا اور اس کے علاوہ کوئی عمارت نہیں بن سکتی تو عدالت کیوں اپنا وقت خراب کرے؟ اور عدالت اسے اپنی توہین کیوں نہ مانے۔

یہ صرف بھیاجی جوشی کی بات نہیں ہے بلکہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں جو خاموش ہیں اور وقت آنے پر وہی کریں گے جو آر ایس ایس چاہے گا۔ یہ بات تو چند دن پہلے کی ہے کہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو ہم صرف تین دن میں پوری فوج سامنے لاکر کھڑی کردیں گے۔ اور اس کے بعد ہر طرح کے تبصروں میں یہ بھی کسی نے کہا کہ آر ایس ایس کے پاس جیسے ہتھیار ہیں ایسے ہماری فوج کے پاس بھی نہیں ہیں۔

ہم تو صرف ایک بات کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ بہرحال آئے گا اور وہ کہہ چکے ہیں کہ ہم صرف زمین کی ملکیت کا فیصلہ کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ بابری مسجد اور اس سے متعلق زمین میرباقی نے فلاں فلاں سے خریدی تھی۔ یا زمین افتادہ تھی اسے ہموار کراکے انہوں نے بابر کو خوش کرنے کے لئے مسجد بنوادی۔ یا وہاں کوئی شکستہ عمارت کا ملبہ تھا جو کچھ بھی ہوسکتا ہے اسے ہموار کرکے مسجد بنوادی۔ یا اس زمین پر مندر تھا اور اقتدار حاصل ہونے کے بعد وہ ویران ہوگئی تو وہاں مسجد بنوادی۔ وغیرہ وغیرہ۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عدالت اس زمین کو یا ہندوؤں کی مانے گی یا ویران مانے گی یا میرباقی کی خریدی ہوئی مانے گی۔ فیصلہ جو بھی ہو ہم مسلمانوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ 70 سال پہلے مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئیں تو ہم نے کیا کرلیا اس میں تالا ڈال دیا گیا تو ہم نے کیا کرلیا اس کا تالا کھل گیا اور پورجا پاٹ شروع ہوگئی تو ہم نے کیا کرلیا یہ انتہا ہے کہ مسجد شہید ہوگئی ہم نے اپنے ہی ہزاروں بھائی قربان کردیئے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تو اب اگر زمین مسلمانوں کی ملکیت مان لی جائے تو ہم کیا کرلیں گے اور ہندوؤں کی مان لی جائے تو ہم کیا کرلیں گے؟

سب سے زیادہ ضرورت اس کی ہے کہ عدالت کا فیصلہ سن کر نہ کوئی نعرہ لگے اور نہ آنکھ سے آنسو گرے بس وضو کرکے سجدے میں گرکر مسلمانوں کی جان اور ان کے مال کی حفاظت کی دعا کی جائے۔ یہ بہت نازک وقت ہے اس میں خاندان کے ہر بزرگ کو محلہ کے ہر بڑے کو ملت کے ہر محترم کو اور مسجد کے ہر امام کو سب سے ایک بات کہنا ہے کہ اچھی یا بری خبر سن کر منھ سے ایک لفظ نہ نکلے۔ کوئی جلوس نہیں کوئی نعرہ نہیں اور کوئی مطالبہ نہیں۔ اس لئے کہ مسلمان عدالت کے فیصلہ کو ٹی وی اور ریڈیو پر خبر کی طرح سن لیں گے اور اخباروں میں خبر کی طرح پڑھ لیں گے اس سے زیادہ کچھ کیا تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔
جسٹس سہیل اعجاز نے شری شری روی شنکر کی عدالت سے باہر ہونے والی کوشش کو بھی آر ایس ایس کا ہی کھیل بتایا ہے۔ ان باتوں سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس کو اس کے وکیلوں نے کچھ اشارے دے دیئے ہیں اور وہ اسی لئے عدالت سے باہر اس کا حل چاہتے ہیں۔ یا جو بھی وجہ ہو۔

مولوی سلمان حسینی ندوی نے جب روی شنکر سے کنارہ کرلیا تو وہ بریلی گئے وہاں مولانا توقیر رضا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی انہوں نے یہی کہا کہ میں کورٹ کے باہر ایسا کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہتا ہوں کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ شری شری روی شنکر عمردراز ہیں ان کی زندگی میں نہ جانے کتنے ہندو مسلم تنازعات ہوئے، ہم نے بھی مصالحت کرانے والوں میں ان کا نام نہیں سنا۔ حیرت ہے کہ اچانک وہ کیسے اتنے امن پسند ہوگئے کہ باہمی تنازعہ سے بچانے کے لئے ہیلی کاپٹر پر اُڑے پھر رہے ہیں۔

جمعیۃ العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے آر ایس ایس اور بھیاجی جوشی کا نام لئے بغیر کہا ہے کہ ایک بڑی تنظیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا بیان سامنے آیا ہے کہ وہاں مندر بننا طے ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ابھی تو معاملہ پر بحث بھی شروع نہیں ہوئی ہے تو کس بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ مندر بننا وہاں طے ہے۔ عدالت کے فیصلہ سے پہلے ایسی بات کہنا کیا عدالت آئین اور قانون کی توہین نہیں ہے؟ اتنی بڑی بات پر بھی حکومت کی خاموشی اس کا ثبوت ہے کہ وہ آر ایس ایس کی غلام ہے اور اگر دم مارا تو ایک منٹ میں کوئی گڈکری وزیراعظم کا حلف لے لے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔