عدالت کا فیصلہ: کیا نواز شریف کا بندہو گیا؟

مولانامحمدجہان یعقوب

احتساب عدالت نے بالآخرایون فیلڈریفرنس کافیصلہ سناتے ہوئے تین باروزیراعظم پاکستان منتخب ہونے والے ناقابل شکست سمجھے جانے والے سینئرسیاست دان میاں محمدنوازشریف کوقیدوجرمانے کی سزاسنادی۔ سزاکی لپیٹ میں ان کی مستقبل کی جانشین محترمہ مریم نوازاوران کے شوہربھی آئے ہیں۔ یوں ایک طویل انتظارختم ہوا، جس کامیاں صاحب اوران کے حامیوں ہی کونہیں، مخالفین کوبھی شدت سے انتظارتھا۔ عمران خان اسے اپنی بہت بڑی فتح قراردے رہے ہیں۔ دوسرے سیاست دانوں کے ملے جلے تاثرات ہیں۔ ان سے اپنے راستے علیحدہ کرنے والوں نے بھی اس فیصلے کونظرتحسین سے نہیں دیکھا۔ میاں صاحب کے مخالفین کاخیال ہے کہ یہ فیصلہ میاں صاحب کی چالیس سال سے زایدپرمحیط سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگااوریوں 5جولائی 1977 سے شروع ہونے والی اس سیاست کاباب بندہوجائے گا، جس کی پشت پرروزاول سے فوج رہی۔

میاں صاحب کوجنرل محمدضیا الحق نے سیاست میں متعارف کرایا، اپنابیٹاقراردیا، جنرل غلام جیلانی کے حوالے کیاکہ ان کی سیاسی نشوونماآپ کے ذمے ہے، یوں میاں صاحب کی پوری سیاسی تاریخ، پہلے پنجاب کاوزیرخزانہ، پھروزیراعلیٰ بننا، بے نظیربھٹوکے لیے لوہے کاچناثابت ہونا، پھروزارت عظمی کے منصب تک پہنچنا، واقفان حال کاکہناہے کہ اس سب کے پیچھے وردی کاکردارکسی نہ کسی درجے میں کارفرماتھا۔ ان کازوال وادبارجب بھی ہوا، فوج کوآنکھیں دکھانے کے نتیجے میں ہوا۔ جب تک وہ ایک فرماں بردارمہرہ رہے، فوج کی گڈبک میں سرفہرست رہے۔ اپنی مہم جوطبیعت کے زیراثریامشیران بے تدبیرکے کہے میں آکرجوں ہی انھوں نے فوج کوآنکھ دکھاء، فوج نے انھیں اپنی اوقات یاددلادی۔ ان کی وزارت عظمی کے تیسرے دورکااختتام اورنااہلی، پھرجماعت کی قیادت سیبرطرفی اوراب قیدوجرمانے کی سزاسب اسی کاشاخسانہ قراردی جاتی ہے، ورنہ سیاست کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اوردودھ کادھلاکوء نہیں۔ جن کی کرپشن کی داستانیں شہرہ آفاق ہیں، وہ تاحال بچے ہوئے ہیں، تواس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے بہتی گنگامیں اشنان توجی بھرکرکیا، لیکن فوج سے ٹکرلینے کی غلطی نہیں کی۔

میاں صاحب کی ملک وقوم کے لیے خدمات کاانکارنہیں، خاص طورپرملک کوایک ایٹمی قوت بنانا، معاشی استحکام، کراچی جیسے آسیب زدہ شہرمیں امن، اندرون سندھ میں کچے کے علاقے سے ڈاکوراج کاخاتمہ، مہنگائی اورلوڈشیڈنگ کی شرح میں بتدریج کمی۔ ۔ ۔۔ ان کے ایسے کارنامے ہیں، جوتاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھے جائیں گے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میاں صاحب کی بے تدبیریوں کوبھی مؤرخ فراموش نہ کرسکے گا۔

میاں صاحب کی لغت میں شاید کسی کے انجام سے عبرت لینے یا ماضی سے سبق حاصل کرنے کا کوئی تصور موجود نہیں، ورنہ میاں صاحب کو شاید یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ان کے پہلے دور اقتدار کا خاتمہ اٹھاون دو بی کی تلوار سے ہوا، جس کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ اپنے طاقتور مینڈیٹ کا استعمال کر کے اس شق کو ہی ختم کر دیا، اب وہ بے خوف ہوگئے کہ کوئی طاقت ان کے مضبوط مینڈیٹ پر شب خون نہ مار سکے گی، سو اپنے اگلے دور حکومت میں انھوں نے اداروں اور افراد میں سے جس کسی کو اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھا، اس کے ساتھ محاذ آرائی کی، اور بڑے بڑے برج ان کی انتقامی حس کی نذر ہوگئے، کئی ایک ان میں سے حیات ہیں اور میاں محمد اظہر، جسٹس سید سجاد علی شاہ سمیت کئی آج ان کی داستان انتقام سنانے کے لیے موجود نہیں، کہ وہ مرحومین کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے، تو معلوم ہوجائے گا کہ میاں صاحب کے ساتھ نوے کی دہائی میں جومعتبرسیاست دان تھے، وہ ایک ایک کرکے ان کاساتھ چھوڑتے رہے، انھوں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ آج ان کے روحانی باپ ضیا الحق اوراخترعبدالرحمن کے فرزندان کے ساتھ ہیں، نہ ان کے سردوگرم چشیدہ بزرگ دوست چوہدری شجاعت حسین، نہ شیخ رشید احمد ان کے شریک سفر ہیں اور نہ ہی  چوہدری نثار علی خان۔ مخدوم محمد جاوید ہاشمی بھی جانے کیا سوچ کر دوبارہ ن لیگ میں آگئے ہیں، ورنہ دوسرے سینئر سیاست دانوں کی طرح مسلسل نظر انداز کیے جانے کی وجہ سے وہ بھی اپنا راستا الگ کرچکے تھے۔ آج جولوگ میاں صاحب کے یمین ویساربنے ہوئے ہیں، وہ جان دینے والے مجنوں نہیں، حلوہ کھانے والے مجنوں ہیں۔ اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنا، سینئرساتھیوں کواہمیت نہ دینا، ان کی جگہ چاپلوس اورابن الوقت لوگوں کوآگے آگے رکھنا، یہ ہیں وہ سنگین غلطیاں جنھوں نے آج ان کواس مقام پرلاکھڑاکردیاہے۔ اگروہ اپنی جلاوطنی کے بعدبھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے توشایدانھیں یہ روزِسیاہ نہ دیکھناپڑتا۔ بقول شاعر

آج   میں   سوختہ ساماں ہوں تویہ روزسیاہ

میرے ہی گھرکے چراغاں نے دکھایاہے مجھے

آمدم بر سر مطلب، اٹھاون دو بی کی تلوار کے خاتمے کے باوجود قدرت کی دار وگیر کا جب فیصلہ ہوا تو وزیراعظم سے اسیراعظم کا سفر ایک جست میں طے ہوا، فوجی بوٹوں کی چاپ نے سارا نشہ غرور و پندار ہرن کر دیا، لانڈھی جیل کی ہوا کھانی پڑی، جہاں سے سعودی حکمرانوں کی منتیں اور ترلے کے ذریعے خلاصی پائی۔

میاں صاحب کی خوش قسمتی تھی کہ ان کوقدرت نے ایک اور موقع دیا، ایک لمباموقع، اور وہ بھی دیارحبیب ﷺمیں بلا کر، کہ اپنے ماضی پر غور کر کے غلطیوں کی تلافی کی کوئی سبیل کرو، پھر امتحان کے طور پر تیسری بار بھی ملک کا سب سے بڑا عہدہ ملا، مگر بھاری مینڈیٹ کا خمارذہن سے اتر سکا اور نہ ہی اس مہلت کو ماضی کی تلافی کے لیے آخری موقع سمجھا گیا، بلکہ اب کی بار میاں صاحب نے اپنا قبلہ ہی بدل لیا، وہ میاں صاحب جو کسی دور میں امیرالمؤمنین کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے، جو مذہبی سوچ کے حامل سمجھے جاتے تھے، جو ملک میں شریعت بل کے نفاذ کے نعرے کو ووٹ اور عوامی حمایت کے لیے استعمال کرتے تھے، جن کو دینی طبقے کی ہمدردیاں اور اعتماد حاصل تھا، انھوں نے اپنا قبلہ یوں چشم زدن میں بدل لیا، کہ ہر اس شخص نے حیرت کا اظہار کیا، جو ان کے خاندانی پس منظر اور سیاسی کیریکٹر کی کچھ بھی معلومات رکھتا تھا۔

ملک کوسیکولربنانے کی کوششیں، ماورائے عدالت علماوحفاظ کاجعلی مقابلوں کاڈھونگ رچاکرقتل ِعام، قادیانیوں کے لیے ملکی قوانین کے برخلاف نرم گوشہ، ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم، سودی نظام کادفاع، ہندوں اور قادیانیوں کو اپنا بھائی قرار دینا، علامہ اقبالؒ کی تعطیل ختم کر کے اقلیتوں کے ایام میں تعطیل کا فیصلہ، قائداعظمؒ یونیورسٹی اسلام آباد کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام ننگ دین و وطن ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے رکھنا، نظام تعلیم کو امریکی این جی اوز کے حوالے کرنا، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے وعدے کر کے ووٹ لینے کے باوجود دانستہ اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے سے عملی طور پر اجتناب کرنا، سوشل میڈیا پر اعلانیہ توہین رسالت کے واقعات کے باوجودگستاخوں سے غیراعلانیہ رعایت برتنا، نوبت بایں جا رسید کہ قانون توہین رسالت تک کے خاتمے کی انکل سام کو یقین دہانیاں کرائی گئیں، کہ بس اقتدار کا دوام چاہیے، اس کے لیے آپ ہم سے جو کرانا چاہیں، فرماں بردار غلام تعمیل حکم کے لیے حاضر ہے۔ اسی فرماں برداری کا شاخسانہ تھا کہ پوری قوم کی شدید ترین مخالفت یہاں تک کہ اپنی جماعت کے اہم ترین راہ نماؤں کی بھی عدم رضامندی کے باوجود غازی ممتاز حسین قادریؒ کو تختہ دار پر لٹکا دیا، ویسے اسلام سے وفا کے جرم میں سولی پر لٹکائے جانے والوں کی ایک طویل قطار ہے، جو میاں صاحب کی حس انتقام اور اندھی فرماں برداری کا نشانہ بنی، لیکن ممتاز قادری کو پھانسی پر چڑھانا سب سے بڑا جرم تھا۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھی اٹھائیس تاریخ تھی اور میاں صاحب کی نااہلی کا فیصلہ بھی اٹھائیس تاریخ ہی کو ہوا ہے۔ اسی طرح اسی جولائی کے مہینے میں پنجاب میں کافی دینی کارکنوں کو پولیس نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا، بعضوں کو جیلوں سے اور بعضوں کو گھروں سے نکال کر ہاتھ پاؤں باندھ کر گولیوں سے بُون دیا اور مشہور یہ کیا گیا کہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے ہیں، وہ بھی جولائی کا مہینا تھا اور یہ بھی جولائی کا مہینا ہے، اس سے بڑا اتفاق یہ کہ میاں صاحب نے جمعے کی چھٹی ختم کی اور جمعے ہی کے دن ان کے خلاف دونوں فیصلے (نااہلی وقیدوجرمانہ)سامنے آئے۔

بایں ہمہ یہ کہناقبل ازوقت ہوگاکہ یہ فیصلہ میاں صاحب کے سیاسی کیریئرکاخاتمہ کردے گا۔ ان کواس فیصلے کے خلاف اپیل کاحق حاصل ہے، وہ اسٹے آرڈربھی لے سکتے ہیں، ان کی جماعت زرداری فارمولہ استعمال کرتے ہوئے مظلوم بن کربھی ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔ سیاست میں کوء بات حرف آخرنہیں ہوتی، اورجس قوم میں شعورکی کمی ہو، اس سے کسی وقت کچھ بھی بعیدنہیں، آخرچالیس سال سے سندھ میں پیپلزپارٹی بھی بھٹوکے نام سے ووٹ لے رہی ہے۔ اگرمنصفانہ انتخابات ہوتے ہیں، توقوم کے پاس شایدمسلم لیگ ن سے بہترچوائس بھی کوئی نہیں۔ ہاں !اگرالیکشن کے بجائے سلیکشن ہوتاہے، توکچھ نہیں کہاجاسکتا۔ بادی النظرمیں تویہی لگتاہے کہ کپتان کے لیے گرؤانڈتیارکیاجارہاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔