عدم تشدد کا پیامبر تشدد کا شکار کیوں؟

رفیع الدین حنیف قاسمی

اہنسا، روادی، امن وامان اور بھائی چارہ، اخوت، برادری، عدم تشدد کے اہم پیامبر’’ بابائے قوم مہاتماگاندھی‘‘ کے ساتھ ان کے اکہترویں یوم وفات 30/1/2019کو جہاں ایک طرف قوم نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا، ان کے یوم شہادت کو منایا، ان کے فلسفہ، تعلیمات، نظریات اور انگریز سے ملک کو آزاد کرنے میں ان کے کردار کو یاد کیا، وہیں ملک میں بابائے قوم کے تعلق سے ایک چند شر پسند عناصر ان کے اسٹیچو کی توہین کرتے بھی نظر آئے، جس میں انہوں نے نقلی خون کے غباروں کو گاندھی جی کے بظاہر فوٹو کے اندر رکھ کر اس پر گولی چلائی اور گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے زند باد کے نعرے لگائے، گاندھی جی کا اصل نظریہ ’’ کثرت میں وحدت‘‘ تھا، وہ ہمارے ملک میں کثرت میں وحدت کو دیکھناچاہتے تھے، کیوں کہ ہمارا ملک بھانت بھانت کی بولیوں، تہذیب وتمدن وثقافت، مختلف طرح کے رہن سہن، طرززندگی، بلکہ مختلف علاقوں کی غذائیت کو دوسرے علاقے کی غذائیت سے کوئی نسبت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندی جو کہ ملک کی زبان کہی جاتی ہے، اس وقت وہ رابطے کی زبان نہیں ہے، بلکہ ہمار ے زبانوں کی اختلاف کی وجہ سے انگریزی کو رابطے کی زبان بنایا گیا، جس ملک میں مختلف عقیدے رکھنے والے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی رہتے ہیں، اس قدر تنوع، رنگارنگی کے ساتھ اس ملک کی وحدت ہی ایک بڑی عجیب اور انوکھی چیز ہے، جو اس کو یکسانیت، برابری او روحدت کی تعلیم دیتی ہے، خود بابائے قوم مہاتما گاندھی کا نظریہ بھی یہی تھا کہ رواداری، امن وامان، عدم تشد، اہنساکو اپنایا جائے، جمہوریت اور سیکولرزم کو فروغ دیا جائے، اسی بھانت بھانت کے کلچر اور تہذیبوں کے ساتھ ہمارے ملک کو وحدت اور یگانگت کا گہوارہ بنایا جائے،  بابائے قوم مہاتماگاندھی کا فلسفہ وحدت کی ضرورت کو نہ صرف ہندوستان کو  تھی، بلکہ پوری دنیا نے ان کی تعلیمات کو اپنایا، ہر جگہ سارے دنیا میں گاندھی جی کو ہندوستان کا نشان اور روحانی باپ قرار دیا۔

موہن داس کرم چند گاندھ 2 اکتوبر، 1869 تا 30 جنوری 1948 بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا(عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ انہیں بھارت سرکار کی طرف سے بابائے قوم(راشٹر پتا) کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری، 1948 کو ایک ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔

جنوبی افریقا میں وکالت کے دوران میں گاندھی جی نے رہائشی ہندوستانی باشندوں کے شہری حقوق کی جدوجہد کے لیے شہری نافرمانی کا استعمال پہلی بار کیا۔ 1915 میں ہندوستان واپسی کے بعد، انہوں نے کسانوں اور شہری مزدوردں کے ساتھ بے تحاشہ زمین کی چنگی اور تعصب کے خلاف احتجاج کیا۔ 1921 میں انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالنے کے بعد، گاندھی ملک سے غربت کم کرنے، خواتین کے حقوق کو بڑھانے، مذہبی اور نسلی خیرسگالی، چھواچھوت کے خاتمہ اور معاشی خود انحصاری کا درس بڑھانے کی مہم کی قیادت کی۔ انہوں نے بھارت کوغیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے سوراج کا عزم کیا۔ گاندھی نے مشہور عدم تعاون تحریک کی قیادت کی۔ جو 1930 میں مارچ سے برطانوی حکومت کی طرف سے عائد نمک چنگی کی مخالفت میں 400 کلومیٹر (240 میل)لمبی دانڈی نمک احتجاج سے شروع ہوئی۔ اس کے بعد 1942 میں انہوں نے بھارت چھوڑو شہری نافرمانی تحریک کا آغاز فوری طور پر آزادی کا مطالبہ کے ساتھ کیا۔ گاندھی دونوں جگہ جنوبی افریقا اور بھارت میں کئی سال قید میں گزارے۔

عدم تشدد کے پیشوا طور پر، گاندھی نے سچ بولنے کی قسم کھائی تھی اور دوسروں سے ایسا ہی کرنے کی وکالت کرتے تھے۔ وہ سابرمتی آشرم میں رہتے اور سادہ زندگی بسرکرتے تھے۔ لباس کے طور پر روایتی ہندوستانی دھوتی اور شال کا استعمال کرتے، جو وہ خود سے چرخے پر بنتے تھے۔ وہ سادہ اور سبز کھانا کھاتے اور روحانی پاکیزگی اور سماجی احتجاج کے لیے لمبے اپواس(روزے)رکھا کرتے تھے۔

30 جنوری 1948 کو ایک عبادتی خطبے کے لیے چبوترے کی طرف جاتے وقت گاندھی کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ قاتل ناتھو رام گوڈسے ایک ہندو قوم پرست اور ہندو انتہاپسند تنظیم ہندو مہاسبھا سے وابستہ تھا جو گاندھی کو تقسم ملک کا ذمہ داری سمجھتی تھی جب کہ گاندھی جی نے تقسیم ہند کی سختی سے مخالفت کی۔ گوڈسے اور اس کا ساتھی سازش کار نارایئن آپٹے کو عدالتی کارروائی کے بعد مجرم قرار دیا گیا اور 15 نومبر 1949 کو ان دونوں کو پھانسی دے دی گئی۔ گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ نئی دہلی میں ہے۔ جس پر بڑے حروف میں ہے رام لکھا ہوا ہے۔

ایک دفعہ گاندھی جی نے کہا تھا:

’’ قوم پرستی بری شیء نہیں ہے، بری چیز تنگ نظری، خود غرضی اور الگ تھلک رہنے کی خواہش، جوموجود قوموں کے لئے بڑی ذلت ہے، کوئی بھی شخص قوم پرست ہوئے بغیر بین الاقوامیت کا دعویدار نہیں ہوسکتا، ایک قوم دوسری قوم کو نقصان پہنچا کر اپنا فائدہ چاہتی ہے، دوسرے کو برباد کر کے اپنی ترقی چاہتی ہے، لیکن ہندوستانی قوم پرستی نے ایک نیا راستہ اپنایا ہے، وہ انسانی بھلائی اور خدمت کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح منظم کرنا چاہتی ہے اوراپنے خیالات ان کی ترجمانی کیلئے وقف کرنا چاہتی ہے۔ میرا منتہائے مقصود صرف ہندوستانیوں میں ہی بردرانہ جذبات پیدا کرنا نہیں ہے، ، میرا مقصد صرف ہندوستان کی آزادی ہی نہیں ہے، اگرچہ آج میری ساری زندگی اور وقت بلا شبہ اسی میں صرف ہورہا ہے، تاہم ہندوستان کی آزادی کی حصول کے وسیلے سے میں انسانی بھائی چارے کے منتہائے مقصود کو پانے اوراس کے لئے کام کرنے کی توقع رکھتا ہوں، میر حب الوطنی محدود نہیں ہے، وہ اپنے اندر سب کو شامل رکھتی ہے، اور میں اس حب الوطنی کو تسلیم نہیں کرتا، جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے اوران کے استحصال پر مبنی ہو، اس حب الوطنی کیمیرے لئے کوئی اہمیت نہیں، جس کا مقصد پوری انسانی برادری کی زیادہ سے زیادہ بھائی نہیں، یہی نہیں بلکہ میرا مذہب میرے مذہب سے پیدا ہوئی حب الوطنی سبھی لوگوں کے لئے ہیں، ہم سب اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، ہم سب ایک بہت بیے کنبے کے فرد ہیں، ان میں کسی طرح کی تفریق کے لئے تیار نہیں، مجھے ہندوستانیوں کے دوسروں سے برتر ہونے کا دعوی نہیں، ہم لوگوں میں ایک ہی طرح کی اچھائیا اور برائیاں ہیں، دنیا کے لوگ ایسے الگ الگ حصوں میں بٹے نہیں ہیں کہ ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں، خواہ وہ کہیں رہتے ہوں، اس پر بھی وہ سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، میرا یہ پیغام نہیں ہے کہ ہندوستان سیاہ وسفید کا مالک بن جائے، چاہے ساری دنیا تباہ وبرباد ہوجائے، ہندوستان پوری طرح سے پھلے پھولے، لیکن اس سے دنیا کی دوسروں قوموں کا بھی بھلا ہو، میں ہندوستنا اور اس کی آزادی کو تبھی برقرار رکھ سکتا ہو، جب میرے دل میں کلی بنی نو ع انسان کے لئے ہمدردی اور بھلائی کا جذبہ ہو، نہ کہ صرف ان لوگوں کے لئے جو کرہ ارض کے ایک ایسے چھوے سے حصے میں مقیم ہیں جسے ہندوستان کا نام سے پکارا جاتا ہے، ہندوستان دوسرے چھوٹے ممال کے مقابلے میں کافی بڑا ہے ؛ لیکن اس وسیع وعریض دنیا میں یا کائنات میں کیا حیثیت ہے ؟ یہ بات نہایت انکساری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر ہندوستان سچائی اور عدم تشدد کے ذریعے اپنے منتہائم مقصود تک پہنچتا ہے تو وہ عالمی امن کے قیام میں بہت بڑا حصہ ادا کرے گا، جس کے لئے دنیا کے تمام اقوام بے چین ہیں اوراس صور میں وہ اس کا مدد کا تھوڑا سابدلہ بھی چکا سکے گا، جوان سے ان اقوام سے بلا معاوضہ ملی ہے، الر میں اپنے ملک کے لئے یہ آزادی چاہتا ہوں تو یقین کیجئے کہ میں آزادی اس لئے نہیں چاہتا کہ میں ایسی قوم کے فرد کی حیثیت سے جس کی آبائی دنیا کا پانچواں حصہ ہے، دنیا کسی دوسرے نسل یا فرد استحصال کرسکوں، اگر میں اپنے ملک کے لئے آزادی چاہتا ہوں تو میں اس قابل تبھی بن سکتا ہوں جب میں تسلیم کرلوں کہ ہر دوسری نسل کو چاہے وہ کمزور ہو یا طاقت ور آزادی کا یکساں حاصل ہے۔ (مہاتمی گاندھی کا پیغام  ۱۷۷۔ ۱۸۰)

اس جیسی عظیم شخصیت جس کو ساری دنیا خراج عقیدت پیش کرتی ہے، جس کے عدم تشدد کے فلسفہ کو یاد کرتی ہے، لیکن خود ہمارے ملک میں ایسے نظریات کا وجود جو گاندھی کے اہنسا (عدم تشدد ) کی مخالفت کرتا ہو، آخر یہ ملک کو سیکولرزم اور کثرت میں وحدت کے راستے پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ یا نفرت، فرقہ واریت، تشدد، نفرت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ؟ ہندوستان کے چین وسکون یہاں کے بلا لحاظ مذہب وملت اتحاد کا خواب جس کو بابائے قوم نے دیکھا، اس کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکا جارہا ہے، آج جس کو وقت ملک کو بابائے قوم کے کی تعلیمات، نظریات اور فلسفہ کی جتنی شدید ضرورت ہے، شاید اس سے زیادہ کبھی رہی ہے، جس قدر یہ شر پسند عناصر بے مہار ہوتے جارہے ہیں، قتل وغارت کی کی سوچ کو بڑھاوا دے رہے ہیں، اور پتہ نہیں یہ ملک کے امن وامان، بھائی چارہ، کو کس رخ پر لے جانا چاہتے ہیں ؟ گاندھی کی محبت کو اپنے ان کالے کرتوں سے لوگوں کے دلوں سے کرید کریدکر ختم کرنا چاہتے ہیں، در اصل یہ وقت ملک کی جمہوریت اور رواداری، یکسانیت اور یگانگت اور باپو کی تعلیمات اور نظریات کی حفاظت کا ہے، تاکہ ملک اور ملک کا قانون محفوظ رہے، مہاتماگاندھی کی توہین در اصل یہ ملک کو کس نہج پر لے جارہی ہے، ؟ملک کے باسیوں کو سوچنے کی ضرورت ہے، در اصل گاندھی ہی ملک کے تمام مذاہب کے باسیوں کے درمیان امن وامان کی پیامبر ہیں، بلکہ ساری دنیا میں امن کے پیامبر رہے ہیں، جب تک ان کی تعلیمات باقی ہیں، تب تک ہم اس ملک میں چین وسکون سے رہ سکتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے اس قسم کے شر پسند عناصر کوجب تک ملک کے باسی کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے اس وقت تک ملک میں امن وسکون کی بحالی نہ ممکن ہے۔ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے، یہ قاتل گوڈسے کی قتل وغارت گری اور ایک نہتے کمزور انسان جس نے کے اپنی نظریات اور تعلیمات کے ذریعہ ساری دنیا میں اپنا نام پیدا کیا، اس امن کے پیامبر کی تعلیمات کو ختم کرکے گوڈسے کے تشدد والے فلسفے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو امن کے پیامبر کے خلاف، اہنسا کے خلاف، عدم تشدد کے خلاف، خوف، تشدد، عدم رواداری کو فروع دینا چاہتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔