عرشِ عُلیٰ – مری نگاہ کو ہے کب سے جستجو تیری

امجد علی سرور
مری نگاہ کو ہے کب سے جستجو تیری
اگرچہ جلوہ نمائی ہے چار سو تیری

نظر نظر میں سمایا ہے تیرا عکسِ جمال
نفس نفس میں سمائی ہے آرزو تیری

شفق ، دھنک ، گل و لالہ میں ہے تری رنگت
چمن میں رنگ ، گلوں میں بسی ہے بو تیری

بوقتِ صبح ثناخواں ہیں طائرانِ چمن
بصد نیاز ہر اک لب پہ گفتگو تیری

زمین و آسماں ، یہ ابر و باد ، سیلِ کرم
یہ آبشار ، یہ جھیل اور آب جو‘ تیری

فقط تجھی کو یہ زیبا ہے قادرِ مطلق
’’کہ پتہ پتہ کرے یاد باوضو تیری‘‘

سدا قریب رہا تو مری رگِ جاں سے
مگر تلاش رہی مجھ کو کو‘ بہ کو‘ تیری

پڑھا ہے جب کبھی، مجھ کو ہوا ہے یوں محسوس
کلامِ پاک مکمّل ہے گفتگو تیری

نبی ، رسول ، ولی ، غوث تک نہیں محدود
زمیں سے عرشِ علیٰ تک ہے گفتگو تیری

تری صفات ہیں بے انتہا و بے پایاں
کریں تو کیسے کریں ذات میں غلو تیری

اسی نے بخشا ہے عزّ و شرف تجھے سرورؔ
وہی رکھے گا سرِ حشر آبرو تیری

تبصرے بند ہیں۔