عشق تمام مصطفیﷺ

کامران غنی صبا

 ایمان دراصل عشق کی اعلی ترین منزل ہے۔یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر انسان اپنا وجود تک بھول جاتا ہے۔ محبوب کی رضا، اور اُس کی خوشنودی کے لیے وہ ہر طرح کی صعوبتیں برداشت کرنے کی نہ صرف قوت رکھتا ہے بلکہ ان صعوبتوں میں بھی اسے لذت و سرور حاصل ہوتا ہے۔عشق وہ جذبہ ہے جو دنیا کی تمام آسائشوں سے بے نیاز کر کے صرف اور صرف وصال محبوب اور رضائے محبوب کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔دین کی ساری عمارتیں بھی عشق کے انھیں لافانی جذبات پر قائم ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہی دراصل ایمان ہے۔ قرآن کی متعدد آیات اور بے شمار احادیث مبارکہ نہ صرف محبت خدا و رسول پر دلالت کرتی ہیں بلکہ یہ پیغام بھی دیتی ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے بغیر ہمارا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

   قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآئُ کُمْ وَ اَبْنآَئُ کُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَ تِجَا رَۃُٗ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْ حَتّٰی یا تِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ۔ وَاَللَّہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔ {التوبہ 24}

(ائے نبیؐ،کہہ دیجیے کہ اگر تمہارے باپ، اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی، اور تمہاری بیویاں، اورتمہارے عزیز و اقارب، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ گھر جو تم پسند کرتے ہو، تم کو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔)

 نیز فرمایا:

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرُٗ رَّحِیْمُٗ۔ {ال عمران 31}

(کہہ دو، اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخشے گا۔اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔)

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا۔ {النسآء 80}

(جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔ اورجو منھ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمھیں اُن لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے۔)

  اسی طرح متعدد حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان کا لازمی جز قرار دیا گیاہے۔بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے:

’’لا یُوء من احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ والناس اجمعین۔‘‘

(تم میں سے کوئی ایمان میں اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے باپ،بیٹے اورتمام انسانوں سے بڑھ کر راسخ نہ ہو جائے۔)

 قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ محبت رسول صلی علیہ وسلم ایمان کا لازمی جز ہے۔روایتوں میں مذکور ہے کہ اسلام کی سیاسی طاقت بڑھ جانے کے بعد مدینہ کے بہت سے اعراب(دیہاتی) دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور اسلامی احکامات کی پابندی بھی کرنے لگے لیکن ان کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اب تک راسخ نہیں ہو سکی تھی، انھوں نے بعض مواقع پر اپنے ایمان لانے کا اس طرح دعویٰ کیا گویا انھوں نے ایمان لاکر اللہ کے رسولﷺ پر کوئی احسان کر دیا ہو چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بذریعۂ وحی ان کے ایمان کی حقیقت واضح کر دی :

’’اور یہ اعرابی لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو۔ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اطاعت کر لی، ابھی ایمان تمہارے دلوں کے اندر نہیں داخل نہیں ہوا ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات)

 اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ محض اطاعت یعنی ظاہر رسوم و قیود ہی دائرۂ ایمان میں آنے کے لیے کافی نہیں بلکہ ایمان کا تعلق براہِ راست قلب و نظر سے ہے اور ایمان کی حقیقی لذت تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہمارے دلوں میں جذبۂ عشق راسخ نہ ہو جائے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ اطاعت سے محبت نہیں ہوتی بلکہ محبت اطاعت و اتباع پر مجبور کرتی ہے۔محبوب کی محبت میں محب سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہو جاتا ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب محب جان دے کر بھی یہ تصور کرتا ہے کہ اس نے حق بندگی ادا نہیں کیا۔یہی وہ مقام ہے جہاں محبت آزمائی جاتی ہے  ؎

کاش خوباں ہمہ از عاشق خود جاں طلبند

تابہر بولہوسے عاشقی آساں نہ شود

صحابہ کرامؓ کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت اسی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی باطل طاقتیں بھی انھیں سر نگوں نہ کر سکیں۔ اللہ کے رسولﷺ سے سچی محبت نے ان کے دلوں میں ایثار، وفا، خلوص، خاکساری،خلق خدا سے محبت جیسے عظیم جوہر پیدا کر دئیے تھے۔آج ہم محبت رسولﷺ کا دم بھرتے ہیں لیکن محبت کے تقاضوں کو ہم نے فراموش کر دیاہے۔جس رسولﷺ نے ہمیں محبت و اخوت اور بھائی چارگی کا درس دیا اس رسولﷺ کے پیغام کو ہم نے صرف اپنی تحریر و تقریر کی زینت بنا کر چھوڑ دیا۔جس رسولﷺ نے ہمیں متحد کرنے کے لیے صعوبتیں اٹھائیں اس رسولﷺ سے ہم نے صرف زبانی محبت کے ہی دعوے کیے، ہم نے ایک جگہ رہتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ عمارتیں تعمیر کر لیں۔ ہم متحد ہو کر اپنے نبیﷺ سے پیغام کو ساری دنیا میں کیا پہنچاتے ہم نے آپس میں ہی اختلافات و انتشار پیدا کر لیے۔اگر ہمارے دلوں میں اللہ کے رسولﷺ کی سچی محبت جا گزیں ہوتی تو نظریاتی اختلافات کے باوجود ہم متحد ہوتے۔

 اللہ کا شکر و احسان ہے کہ ہم محمدﷺ کے امتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں ان کی محبت بھی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ محبت کی اس جذبے کو مزید بڑھایا جائے۔یہاں تک کہ محبت رسولﷺ تمام محبتوں پر غالب آ جائے۔اگر ہمارے دلوں میں اللہ کے رسولﷺ سے سچی محبت پیدا ہو گئی تو پھر اللہ کی نظر عنایت و التفات بھی ہم پر ہوگی اور محبت رسولﷺ کے طفیل ہماری کوتاہیاں بھی در گزر کر دی جائیں گی(انشاء اللہ) اور ہمارا شمار بھی اللہ کے مقرب بندوں میں ہوگا   ؎

اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھرا آیا چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ کو صبر کی تاب نہیں رہی کیا گھر میں کچھ کھانا ہے ؟…
    _بیوی نے کہا کہ گھر میں ایک صاع جَو کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ، میں نے کہا کہ تم جلدی سے اس جَو کو پیس کر گوندھ لو اور اپنے گھر کا پَلا ہوا ایک بکری کا بچہ میں نے ذبح کر کے اس کی بوٹیاں بنا دیں اور بیوی سے کہا کہ جلدی سے تم گوشت روٹی تیار کر لو میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو بلا کر لاتا ہوں ، چلتے وقت بیوی نے کہا کہ دیکھنا صرف حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لانا کھانا کم ہی ہے مجھے رُسوا مت کر دینا – حضرت جابر رضی اللہ عنہ خندق پر آ کر چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کرایا ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرما لیں ، یہ سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
    اے خندق والو ! جابر نے دعوت طعام دی ہے لہذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھا لیں پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آ جاؤں روٹی مت پکوانا ، چنانچہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دُعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا – پھر روٹی پکانے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ ہانڈی چولھے سے نہ اتاری جائے پھر روٹی پکنی شروع ہوئی اور ہانڈی میں سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیا ایک ہزار آدمیوں نے آسودہ ہو کر کھانا کھا لیا مگر گوندھا ہوا آٹا جتنا پہلا تھا اتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چولھے پر بدستور جوش مارتی رہی …

    بخاری، ۲ صفحہ۵۸۹، غزوہ خندق…

تبصرے بند ہیں۔