عظمت رفتہ کی بحالی

ڈاکٹر سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

        انسان اصولی و فطری طور پر کمزور مخلوق واقع ہوا ہے  اور دین اسلام میں انسان کے تمام فطری و طبعی تقاضوں اور انسانی نفسیات کا پورا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ انسان کی فطری کمزوری کا ہی سبب ہے کہ وہ حق و باطل اور اچھائی و برائی میں تمیز کرنے کے باوجود اکثر جنسی جرائم، نفسیاتی پریشانیوں اور شہوانی خواہشات کا بہ آسانی شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ صاحب عزم و استقلال ہوتے ہیں وہی لوگ دنیا میں عظیم ہستی کہلاتے ہیں اور وہی لوگ عظیم تاریخ رقم کرنے کے اہل ہوتے ہیںاور دنیا ایسی ہی ہستیوں کو سلام کرتی ہے۔مذہب اسلام جو جامع اور مکمل دین ہونے کے ساتھ ساتھ دین فطرت بھی ہے اسی لیے اس میں رخصت کے ساتھ عزیمت کی تعلیم بھی ملتی ہے تاکہ انسان کے لیے تا صبح قیامت ہر موقع، محل، زمانے اور حالات میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا آسان ہوجائے۔

قرآن مجید نبی رحمتؐ کے وسیلہ سے مسلمانوں کو عزیمت کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے جو پیغمبروں کی شان رہی ہے تاکہ دنیاوی، شیطانی اور نفسانی حملوں اور خطرات کا پامردی کے ساتھ مقابلہ کرسکے اور صراط مستقیم پر چلنا ان کے لیے آسان ہوجائے۔ رخصت اور تن آسانی پر عزیمت اور کٹھن کاموں کو ترجیح دینا خانقاہی نظام کا جزو لاینفک رہا ہے اور جب سے خانقاہی نظامی میں عزم و استقلال کی جگہ مصلحت پسندی اور تن آسانی جگہ لی ہے خانقاہی نظام خرافات کا آماجگاہ بن کر رہ گیا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ مردان حق نے قرآن مجید کے عزیمت والے حکم پر عمل کرتے ہوئے حوصلہ شکن حالات میں عزم و ثبات اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا اورچراغ ہدایت کو ہمیشہ روشن و منور رکھا۔ عباسی دور کے خلیفہ اور حاکم وقت ابو جعفر منصور کے فرمان کے خلاف امام مالکؓ نے فتوی دیا کہ کسی کو رشتہ ازدواج توڑنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا یعنی مجبوری میں دی ہوئی طلاق اسلامی تعلیمات کے مطابق کالعدم ہے۔ اس پر آپ کوسخت آزماشوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے شریعت کی بقا اور تحفظ کے لیے پورے عزم کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا۔ ایسے ہی ایک واقعہ خلق قرآن کے مسئلہ میں امام احمد بن حنبلؓ کے ساتھ پیش آیا تھا جب آپ نے دلائل و براہین کے ساتھ قرآن مجید کو غیر مخلوق ثابت کیا تو آپ کوبھی حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے مختلف طریقوں سے مجبور کیا گیا، آپ پر کوڑے برسائے گئے لیکن آپ نے اس وقت کے اس عظیم فتنہ کو ختم کرنے کے لیے صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا اور عزیمت والے راستہ کا انتخاب فرمایا۔ یہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے عزم و استقلال ہی کا فیضان تھا کہ مغل بادشاہ اکبر کا دین الٰہی فروغ پانے سے ہی پہلے ہی ختم ہوگیا۔ رخصت پر عزیمت کو ترجیح دینے والے ان امثلہ سے یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مسلمان جب معاشرے سے خرابیوں کو دور کرنے کا ارادہ کریں گے تو انہیں یقینا معاندین و مخالفین کی طرف سے ظلم و جور، طعن و تشنیع، مصائب و تکالیف اور اذیتوں و صعوبتوں کا شکار بنایا جائے گا ایسے روح فرسا حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ عزم و استقلال اور صبر کا دامن تھامنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر اصلاح معاشرہ کی کوئی بھی تحریک ثمرآور ثابت نہیں ہوسکتی۔

 رب کائنات صاحب عزیمت ہستیوں یعنی صراط مستقیم پر گامزن و ثابت قدم رہنے والوں کو بے شمار رفعتوںو عظمتوں اور عنایات و انعامات سے سرفراز فرماتا ہے۔ صاحبان عزم و استقلال کو اللہ کی معیت نصیب ہوتی ہے، ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے، حزن و خوف سے ان کے قلوب پاک ہوتے ہیں، انہیں ولایت کے درجہ پر فائز کیا جاتا ہے، وہ جاودانی بہشت میں خدا کے مہمان ہوں گے۔ اس مقام رفیع کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی اولاد کی تربیت کرتے وقت ہمیشہ رخصت پر عزیمت کو ترجیح دیں تاکہ ہماری آنے والی نسل مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں کامیاب ہوں۔ لیکن معاشرہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج کے اس مسابقتی دور میں اکثر والدین عزیمت پر رخصت کو فوقیت دیتے ہیں ہماری اسی غلط روش کا خمیازہ ہے کہ پروفیشنل کورسس میں مسلم بچے اعلی رینک حاصل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں اور والدین اپنے لڑکوں اور لڑکیوںکو مینجمنٹ کوٹہ کے تحت سیٹ دلوانے کے لیے خطیر رقم صرف کررہے  ہیں۔ کاش دوران تعلیم ہم بچوں کو عظیمت والے کام کرنے کی تلقین و تاکید کرتے تو ہم اس قدر کثیر رقم کسی کالج میں داخلہ کے لیے خرچ کرنے کے بجائے کسی تجارت میں مشغول کرسکتے ہیں جس سے ہمارا بھی مالی فائدہ ہوسکتا ہے اور کئی لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی مل سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم مینجمنٹ کوٹہ میں دی جانی ولی خطیر رقم کو غربا و مساکین کی مالی امداد کرنے میں استعمال کرسکتے ہیں اس طرح ہم انسانی معاشرے سے غربت کا خاتمہ میں اہم کردار کرسکتا ہیں۔ لیکن یہ تمام امور ہم اسی وقت انجام دے سکتے ہیں جب ہم اور ہماری اولاد عزیمت والے امور انجام دینے کا عادی بنائیں۔ رحمت عالمﷺ نے اپنی امت کو تلقین و تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مشکوک و مشتبہ چیز ترک کرکے غیر مشکوک و غیر مشتبہ چیز اختیار کرو۔

اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے پیران پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ارشاد فرماتے ہیں جب مشتبہ اور غیر مشتبہ دونوں پہلو کسی چیز میں پائے جائیں تو عزیمت پر عمل کرنا چاہیے اور وہ پہلو اختیار کرنا چاہیے جس میں کسی قسم کا اشتباہ اور شک نہ ہو اور مشکوک و مشتبہ پہلو کو ترک کردینا چاہیے۔ کاش ہم حدیث پاک کے مفہوم کی روح کو سمجھتے اور اس کے مطابق زندگی گزارتے تو شاید ہمیں مینجمنٹ کوٹہ کے تحت اس قدر کثیر سرمایہ بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی بلکہ ہم ان رقومات کا استعمال رفاہی و فلاحی امور میں کرسکتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمانوں کو عظمت رفتہ کی بحالی اور عظیم الشان کام انجام دینے کے لیے رخصت پر عزیمت والے امور کو ترجیح دینا ہوگا ۔

 مذکورہ بالا حدیث پاک کی روحانی تشریح کرتے ہوئے پیران پیر حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک کا مفہوم یہ بھی ہے کہ بندہ مومن مخلوق سے کوئی امید و توقع وابستہ نہ کرے اور نہ اندیشہ رکھے چونکہ اس میں شک ہے بندہ ہم کو نفع و نقصان پہنچا بھی سکتا ہے اور نہیں لیکن رب کی عطا و سزا میں کوئی شک نہیں ہے چونکہ تمام چیزیں اسی کے دست قدرت میں ہے اسی لیے بندہ مومن کو حکم دیا گیا اللہ تعالی سے اس کے فضل (و کرم) کو مانگتے رہو۔روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ امام حسینؓ مسجد نبوی میں تشریف لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک چار یا پانچ سال رہی ہوگی اور امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسینؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی جیسے ہی تاجدار کائناتؐ کی نگاہ آپ پر پڑی حضورﷺ نے آپ کے منہ میں انگلی مبارک ڈالکر وہ کھجور نکال دی اور ارشاد فرمایا یہ مال میری اہل بیت کے استعمال کے لیے نہیں ہے ۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ شریعت کے احکامات بالغ پر فرض ہوتے ہیں بچوں پر نہیں اس کے باوجود شارعﷺ کا یہ عمل اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ نبی پاکﷺ اپنے خانوادے کی تربیت عزیمت کی بنیاد پر فرمارہے  ہیں تاکہ وہ کبھی رخصت کی طرف مائل نہ ہوں۔ اسی تربیت مصطفیؐ کا فیضان تھا کہ امام عالی مقامؓ نے میدان کربلا میں تین دن کے پیاسے اور بھوکے ہونے کے باوجود دین کی حفاظت کے لیے باطل طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آپ کے پائے استقامت کبھی متزلزل نہیں ہوئے۔

آج ہم حسینی ہونے پر ناز کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے یہی وہ نسبت ہے جس کی وجہ سے  انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے۔ دین اسلام میں نسبتوں کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ورنہ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے نام پر سورۃ موجود نہ ہوتی۔ لیکن تعجب اس وقت ہوتا ہے جب حسینی نسبت پر ناز کرنے والے عزیمت کا راستہ ترک کردیتے ہیںجبکہ حضرت سیدنا امام حسینؓ کی پوری حیات عزیمت سے عبارت ہے اور کیوں نہ ہو عزیمت صاحبان عزم پیغمبروں کا شعار رہا ہے۔ اسی محکم عزم ،حوصلہ ،ارادے کے باعث مبلغ اسلام مخالفین کی شرانگیزیوں، فتنہ پردازیوں اور عداتوں ،مخالفتوں اور سازشوں سے دلبرادشتہ ہوئے بغیر صبر و استقامت، ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ فریضۂ تبلیغ پوری قوت سے انجام دیکر اپنے مقصد وجود کو پورا کرسکتا ہے۔

اس تناظر میں بھی دیکھا جائے تو مسلمانوں بالخصوص حسینی نسبت رکھنے والوں کو رخصت یا مصلحت پسندی کی راہ اختیار کرنے کے بجائے عزیمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔روایت میں آتا ہے کہ کربلا میں بھی آپ کی نماز تہجد قضا نہیںہوئی جبکہ دوسری طرف ہم ہیں جنہیں حسینی پر ناز و فخر ہے لیکن ہم سے کئی فرائض نمازیں چھوٹ بھی جاتی ہیں لیکن ہمارے ماتھے پر شکن بھی نہیں آتا یہ اس لیے ہورہا ہے چونکہ ہم نے عزیمت کی راہ کو ترک کردیا ہے۔ جبکہ قرآن مجید نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا کہ اللہ تعالی کی معیت اسے نصیب ہوگی جو صاحب صبر و عزیمت ہو۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔