عظیم اتحاد کی قیاس آرائیاں اور مسلمان!

ذاکر حسین

مکرمی ! بی جے پی کے تیزی سے بڑھتے سیاسی رسوخ اور طاقت کے سیلاب کو روکنے کیلئے اب ملک کی سیاسی جماعتوں ، ایس پی ، بی ایس سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی قیاس آرائیاں زور پکڑنے لگی ہیں ۔بتایا جا رہاہیکہ عظیم اتحاد کے قیام کیلئے راشٹریہ جنتا دل سربراہ لالو پرساد یادوکی جانب سے مسلسل پیشِ رفت جاری ہے ۔لیکن کیا عظیم اتحاد کاقیام ممکن ہے؟ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی اس سے قبل بھی متحدہ پلیٹ فارم کے ذریعے انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب ایس پی کی باگ ڈور ملائم سنگھ یادواور بی ایس کی قیادت کانشی رام کے ہاتھوں میں تھی۔

بات 1993کی ہے جب سیاست کے دو بڑے کھلاڑیوں نے اتحاد کا علان کیااور اس کو عملی جامہ پہناتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا ۔اسلئے امید کی جانی چاہئے کہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی قیاس آرائی محض قیاس آرائی نہیں بلکہ اس پر عمل بھی ہوگا اور عظیم اتحاد کا قیام عمل میں آئے گا۔عظیم اتحاد کا قیام سیکولر ووٹوں کیلئے ایک نیا باب کھولے گااور امید یہی ہیکہ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد عظیم اتحاد کی جانب راغب ہوگی ۔ کیونکہ جب سے مرکزاور ریاست میں بی جے پی کی زیرِ قیادت والی حکومت قائم ہوئی ہے عوام بڑے ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہیں ۔مرکزی حکومت کے ذریعے نوٹ بندی کے اچانک فیصلے سے کروڑوں لوگ متاثر ہوئے اور سیکڑوں افراد کو لائن میں لگ کر اپنی جانیں گنوانی پڑیں ۔

آج اتر پردیش سمیت پورے میں نظم نسق کی عجیب صورتحال ہے۔ روزآنہ ملک کے کسی خطے سے فرقہ وارانہ فسادات اور رونگٹے کھڑے کرد ینے والے حادثات حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑا کرتی ہے۔گزشتہ دنوں جے آر پی ملازم کے ذریعے مسلم عورت کی عصمت دری، اتر پردیش کے بلند شہر ہائی وے پر اجتماعی عصمت دری اور سہارنپور میں دلتوں اور ٹھاکروں کے درمیان خونی تصادم اس بات کی علامت ہیکہ موجودہ اتر پردیش حکومت نظم و نسق کی صورتحال کو بہتر بنانے میں پوری طرح ناکام ہیں ۔ اگر بی ایس پی،  ایس پی اور دیگر سیکولر جماعتوں کے درمیان اتحاد کی کوشش رنگ لاتی ہے توسیکولر عوام کو گزشتہ انتخابات کی طرح کنفیوژن میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔اگر عظیم اتحاد کا  قیام عمل میں آتا ہے تواتحاد کے لیڈران کو مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کی بھول اور خطرہ مو ل نہ لینے کا مشورہ ہے۔کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ حقیقت ہیکہ ابھی تک ایس پی ،بی ایس پی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف بیوقوف بنایاہے ۔

جو لوگ راقم ِ سطور کے خیال سے اختلاف کرتے ہیں اور سماجوادی پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کو مسلمانوں کا ہمدرد بتاتے ہیں تو کیا وہ ان کے پاس ان سوالات کے جوابات ہیں ۔مسلمانوں کوتقریباً65سالوں سے ریزرویشن سے محروم رکھا گیاہے ۔ کیوں ؟؟مسلمانوں کی تعداد سرکاری نوکریوں میں گھٹتی اور جیلوں میں بڑھتی جا رہی ہے ۔کیوں ؟حکومت کسی کی ہو مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار اور نکائونٹر ہوتے رہتے ہیں ۔ کیوں ؟سرکاری محکوں میں یادو ، ٹھاکر ،دلتوں کی ایک بڑی تعداد ہے ، لیکن مسلمانوں کی نہیں ؟دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے والے خاطی پولس والوں کے خلاف کاروائی کیوں نہیں اور رہاہوئے مسلمانوں کو حکومت کی جانب سے معاوضہ کیوں نہیں ؟

اس کے علاوہ ایسے بہت سے ایسے بہت سوال ہیں ،جن کے جواب کسی بھی ایس پی ، بی ایس پی کی حمایت کرنے والے کے پاس نہیں ہے ۔ اب امیدیہی ہیکہ عظیم اتحاد کا قیام ہوگااور مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔