عظیم مملکت خداداد

سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے

مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

        اسلام کا بطل جلیل، موحدالجزیرۃ العربیۃ، روئے زمین پر اللہ کے قانون کا نافذ کرنے والا، عرب بدؤوں میں روح انسانیت کو از سر پھونکنے والا، کتاب و سنت کی بالادستی قائم کرنے والا، نفاذ شریعت کا دور اخیر میں علمبردار اعظم، گفتار سے زیادہ کردار کا پیکر عظیم، اقوام متحدہ میں قرآن کریم کو سعودی حکومت کا دستور اساسی کے طور پر پیش کرنے والا مرد عظیم شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ کی انتھک مخلصانہ جد وجہد کے ذریعہ 1932م میں قائم ہونے والی مملکتِ توحید و سنت سعودی عرب کی دینی و انسانی خدمات پر روشنی ڈالنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مملکتِ مبارکہ کی گزشتہ اور موجودہ دینی و انسانی خدمات کی احاطہ بندی کے لئے ضخیم مولفات و تصنیفات کی ضرورت ہے اور ہر میدان میں ان کی خدمات عظیم الشان و بے مثال ہیں:سیاسی، اقتصادی، دینی، اخلاقی، رفاہی، انسانی وغیرہ وغیرہ۔ تاہم ’’ مالایدرک کلہ لا یترک جلہ‘‘ کے پیشِ نظر، زیر نطر سطور میں ہم اس کی محض ان خدمات دینیہ اور اعمال انسانیہ کو حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کررہے ہیں جنہوں نے تاریخ انسانی کی جبیں پر انمٹ نقوش قائم کئے ہیں اور بذاتِ خود مملکت سعودی عرب کو دنیا کے ان چند گنے چنے ممالک کی صف میں سرِ صف لاکھڑا کیا ہے جو آج کی دنیائے دوں میں دینی و انسانی خدمات کے معاملے میں سرِ فہرست شمار کئے جاتے ہیں۔

        موجودہ مملکتِ سعودی عرب 87؍ہزار مربع میل کے رقبہ پر پھیلی ہوئی ایک وسیع و عریض مملکت ہے جو براعظم ایشیااور یورپ کے سنگم پر واقع ایک جدید مثالی مملکت ہے  قال اللہ اور قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں، جو استحکام میں یکتا، خوشحالی و فارغ البالی میں بے مثال، تحفظِ دین و شریعت کا ناقابلِ تسخیر قلعہ اور امن و امان کا گہوارہ ہے، جہاں انسانی خدمات کو بھی عبادت کا درجہ حاصل ہے، جہاں سے سنت کی ضیاپاشیاں ہمہ دم قلوب و اذہان کو جلابخش رہی ہیں، جہاں سے دنیا بھر میں خالص توحید و سنت کی تعلیمات عام ہورہی ہیں اور جو صحیح العقیدہ مسلمانوں کی اولین و آخریں پناہ گاہ ہے۔

        مملکتِ سعودی عرب کی روشن تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ آل سعود اور اس کے فاضل و مدبر حکمرانوں نے ہمیشہ ذاتی مفادات پر ملت اسلامیہ کے مفادات کو ترجیح دی ہے اور انہیں روز اول ہی سے حرزِ جاں بنائے رکھا ہے۔ انہوں نے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ہمیشہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں صرف کیا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ان کی ذاتی امداد و تعاون سے دنیا بھر میں ان گنت ادارے اور اسلامی تنظیمیں مستفید ہورہی ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کی بھی، زماں و مکاں اور مسلک و مذہب کی تحدید کے بغیر، چاہے وہ جہاں کے بھی ہوں، افغانستان کے ہوں یا فلسطین کے، بوسنیاہرزے گووینا کے ہوں یا چیچنیاکے یا افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہوں یا دنیا کے کسی بھی خطے اور گوشے میں بود و باش کرتے ہوں، ہمیشہ حتی المقدور مدد کی ہے۔ اس کی بہترین مثال 2009م کے ماہ جولائی میں شائع شدہ اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مملکت سعودی عرب بین الاقوامی پیمانے پر انسانی امداد و تعاون پیش کرنے کے معاملے میں تمام ملکوں میں سرِ فہرست ہے۔ اگر2009م کی مجموعی قومی آمدنی کے آئینہ میں دیکھا جائے تو سعودی عرب انسانی امداد و تعاون دینے والے ملکوں کے مابین تاجدار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح 2008م میں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم عالمی غذائی تنظیم نے سعودی عرب کے سابق فرماں رو اشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کو عالمی غذائی بحران اور بھکمری کوختم کرنے کے معاملے میں ان کے لاثانی کردار اور بے مثال امداد و تعاون کے اعتراف کے طور پر سوئزر لینڈ کے شہر دابوس میں منعقد اپنی کانفرنس میں اس معرکہ کا ہیرو قرار دیتے ہوئے تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کی مظلومیت پر کام کرنے والی اور اسے دور کرنے میں اپنے دن کا چین اور رات کی نیند حرام کرلینے والی اگر کوئی مملکت ہے تو وہ سعودی عرب ہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں، اس کے حکمرانوں کا جذبۂ ہمدردی بحرِ بیکراں کی طرح ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلام اور دعوتِ اسلام ان کے خمیر میں شامل ہے۔ گزشتہ برسوں میں مغربی اور فسطائی میڈیا کی طرف سے چند ملعون اور شرپسند عناصر نے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا تو سب سے پہلے سعودی عرب ہی کا ردعمل سامنے آیا۔ سابق خادمِ حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز حفظہ اللہ نے دو ٹوک اور واضح موقف اختیار کرتے ہوئے ڈنمارک سے نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کے سفیر کو واپس بلالیابلکہ وہاں کی تمام مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کردیا۔

        رہی بات مملکت سعودی عرب کی دینی خدمات کی تو حق بات یہ ہے کہ اس نے پوری دنیا میں اسلامی اور سلفی دعوت کے فروغ و اشاعت میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں، صحیح دینی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں وہ معرکہ سر کیا ہے اور صحیح عقیدہ و مسلک کی نشر و اشاعت میں وہ سنگہائے میل قائم کئے ہیں، جن کو دیکھ اور سوچ کر ایک سچے مسلمان کے دل و جان میں حیرت و استعجاب اور محبت و الفت کی خوش گوار فضا طاری ہوجاتی ہے اور روح و وجدان کے راستے سے ہوکر اس کے لئے نیک دعائیں اور تمنائیں، الفاظ اور اشک مسرت کی صورت اختیار کرجاتی ہیں تو دوسری طرف حاسدین و حاقدین کا سینہ حسد و حقد کے شعلوں میں جل کر راکھ ہوجاتا ہے۔ کیا کوئی منصف و عادل اور اپنے سینے میں حساس دل رکھنے والا انسان، دعاۃ و مبلغین کی تربیت اور ان کی کفالت کے باب میں سعودی عرب کا بے لوث قائدانہ کردار کبھی بھول سکتا ہے؟ جب جب اسلامی دعاۃ و مبلغین پر یہ دنیا مثلا مصر و ایران و عراق وغیرہ میں، اپنی تمام تر کشادگیوں اور بے پناہ وسعتوں کے باوجود تنگ ہوئی تو انہیں جائے امان، جائے قرار اور جائے سکون دینے میں سعودی عرب اور اس کے عادل و مخلص حکمرانوں نے جو کردار ادا کیا، کیا اسے کوئی انصاف پسند انسان جھٹلا سکتا ہے؟

        چونکہ سعودی مملکت کی بنیاد کتاب و سنت پر روزِ اول ہی سے قائم ہے لہذا، دعوتِ دین کی راہ میں اس کی بے پایاں اور بار آور و ثمر آفریں کاوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات پورے وثوق و اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اسی اخلاص و للہیت کی بناء پر ہی ایسی عظیم فتح و کامرانی عطافرمائی جس کی مثال ماضی قریب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جس وقت انہوں نے شکرانِ نعمت کے طور پر شریعت مطہرہ کو اساسِ مملکت قرار دے کر سعودی عرب کی داغ بیل ڈالی، اسی وقت انہوں نے ببانگِ دہل اعلان کردیا کہ اسلامی شریعت کا نفاذ اور اس کا فروغ و اشاعت ہی ہماری زندگی کا مقصد اور ہمارے تمام تر اقوال و اعمال کی بنیاد ہوگی۔ انہوں نے فرمایا:

        ’’ میں تمام مسلمانوں کو ایک اللہ کی عبادت اور سلفِ صالحین کے نقوشِ قدم کی پیروی کی دعوت دیتا ہوں کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر وہ کامیابی و کامرانی اور نجاتِ اخروی کی سعادت سے ہمکنار ہوسکتے ہیں ‘‘۔ (من حیاۃ الملک عبدالعزیزص؍82)

        ان کے اس اعلان و عمل کو ان کے جانشینوں نے بھی اپنے قول وعمل سے برقرار رکھا۔ چنانچہ شاہ فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ سعودی گھرانا، شاہی گھرانا ہونے سے پہلے ایک دعوتی گھرانا ہے‘‘۔ (شبہ الجزیرۃ فی عہد عبدالملک عبدالعزیز ۱؍۳۰)

        سطور ذیل میں چند ایسے خاص اداروں کا مختصرا ذکر کیا جارہا ہے جن کے زیر نگرانی سعودی عرب میں خصوصا اور پوری ملت اسلامیہ میں عموما دعوتی اور انسانی خدمات انجام دی جاتی ہیں:

        1- ھیئۃ الأمر بالمعروف والنھی عن المنکر:

        یہ ادارہ دعوت دین اور اصلاحِ مسلمین کے لئے خاص ہے۔ اس کے اولین مدیر فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللطیف آل الشیخ اور ان کے معاون شیخ عمر بن حسن آل الشیخ رحمہما اللہ تھے۔ اس ادارہ کی خاص مہمات لوگوں کو نماز کی پابندی کرانا، بازاروں اور سڑکوں پر مردوزن کے اختلاط پر نظر رکھنا، مظلوموں کو انصاف دلانا، ناپ تول کی کمی بیشی کی رپورٹ تیار کرنا اور بعض تعزیری قوانین اور اصول کا نفاذ ہیں۔ سعودی معاشرہ کو پاک صاف رکھنے میں یہ ادارہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے کارگزاروں کو ’’مطوعین‘‘ کہا جاتا ہے جو ہمہ وقت چاق و چوبند رہ کر مملکت کی فضا کو پاک صاف اسلامی رنگ میں رنگنے میں کوشاں و سرگرداں رہتے ہیں۔ ( نظام الحسبۃ فی الاسلام ص؍194، 196، 198)

        2- الرئاسۃ العامۃ لشئوون المسجد الحرام والمسجد النبوی:

        اس کا قیام 4؍ رمضان المبارک 1384ھ میں عمل میں آیا۔ اس کے مؤسس فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں۔ اس ادارہ کی ذمہ داریاں یہ ہیں کہ وہ ائمہ و موذنین کا انتخاب کرتا، مربیین، معلمین اور واعظین حرم کی تعیین کرتا، حرمین شریفین کی دیکھ ریکھ کرتا اور حرمین و شریفین میں سہولیات دستیاب کراتا ہے۔ ان کے علاوہ توسیع حرمین و شریفین جیسی عظیم ذمہ داری بھی اسی ادارہ کے زیر نگرانی انجام پاتی ہے۔ اس نے کئی مرحلوں میں توسیع حرمین شریفین کے معاملے میں یادگار ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ (الأنشطۃ الدعویۃ فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ ص؍159-160)

        3- وزارۃ الحج

        شروع میں اس وزارت کا نام ’’ مجلس ادارۃ الحرم‘‘ تھا۔ بعد میں شاہ

عبدالعزیز رحمہ اللہ کے ایماء پر 20/03/1345میں ادارۃ الحج رکھا گیا اور اب اس کا نام وزارۃ الحج ہے۔ یہ وزارت حج کے تمام امور کی تمام ذمہ داریاں ادا کرتی ہیں، جن میں بری، بحری اور ہوائی راستوں سے آنے والے اللہ کے مہمانوں کا استقبال، ان کی رہائش کا انتظام، ان کی حفاظت و سہولت اور صحت کا خیال رکھنا، نقل و حمل کی سہولیات فراہم کرنا، مناسک حج کی صحیح تربیت اور ٹریننگ کے لئے سنٹرس کا قیام اور دوران حج ان کی دیکھ ریکھ وغیرہ شامل ہیں۔ ہر سال تقریباَ پونے دو لاکھ حاجیوں کو تمام تر سہولیت بہم پہنچانا، اس کی کوئی معمولی خدمت نہیں ہے، جسے آسانی سے نظر انداز کردیا جائے۔ (تاریخ عمارۃ المسجد الحرام: ص؍305-306)

        4- رئاسۃ البحوث العلمیۃ والافتاء

        یہ ادارہ قرآن وسنت اور اجتہاد کی روشنی میں فتاوے دے کر اہالیان اسلام کی صحیح رہنمائی کرتا، سعودیہ میں شائع ہونے والے تمام لٹریچر پر نظر رکھتا، ائمہ مساجد و جامعات کی ترشیح کرتا، سعودی مکتبات کی دیکھ بھال کرتا، اسلامی کتب و رسائل تقسیم کرتا اور ان کی نشر و اشاعت کرتا ہے۔ (شبہ الجزیزۃ فی عہد عبدالملک عبد العزیز2؍344)

        5- مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں کا قیام

        اسلام میں تعلیم و تعلم کی جو اہمیت و فضیلت ہے، اس سے ہر کس و ناکس واقف و آشنا ہے۔ تعلیم و تعلم کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مملکت سعودی عرب نے اپنے سرزمین پر مدارس، کالجز اور یونیورسٹیوں کا جال سا بچھا دیا ہے۔ جہاں سے دنیا بھر کے متلاشیانِ علم و فن اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ مملکت کی سرزمین پر بروقت کم از کم 23دینی و عصری یونیورسٹیاں قائم ہیں جن کا تعلیمی معیار عالمی اور بین اقوامی ہے اور جن میں سے کئی دنیا کی سب سے اچھی اور اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار کی جاتی ہیں، نیز ان میں 165ممالک کے طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے چند اعلیٰ پیمانے کی مشہور و معروف یونیورسٹیاں درج ذیل ہیں:

        أ- الجامعۃ الاسلامیۃ، مدینہ طیبہ

        ب- جامعہ أم القریٰ، مکہ مکرمہ

        ج- جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، ریاض

        د- جامعۃ الملک فیصل

        ھ- جامعۃ الملک عبداللہ

        و- جامعۃ نائف بن الملک عبد العزیز

        ز- کنگ فہد یونیورسٹی فار پٹرولیم اینڈ منرلس

        ح- کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی وغیرہ

        6- تعمیر مساجد:

        تعمیر مساجد کے باب میں اگر صرف شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی مساعی جمیلہ کا جائزہ لیں تو عقل و خرد دنگ رہ جاتی ہے۔ مملکت اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسلامی دعوت کے کاز کے لئے مساجد پاور ہاؤس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لہذا، اس نے تعمیر مساجد پر روز اول ہی سے توجہ مبذول رکھی اور پوری دنیا میں مساجد اور ان کے پہلوبہ پہلو مراکز اسلامیہ کے قیام میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے۔ صرف 2004ء ہی میں شاہ فہد رحمہ اللہ نے دنیا بھر میں 1570مساجد و مراکز اسلامیہ قائم کئے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس مد میں سعودی عرب کتنا سرگرم اور متحرک ہے۔ (العلاقات الیمنیۃ السعودیۃ: ص؍309-313)

        7- اشاعتِ قرآن کریم:

        پوری دنیا میں اسلامی تعلیمات کے احیاء اور قرآن مجیدکے پیغام ابدی کو عام کرنے کے مقصد سے شاہ فہد علیہ الرحمہ نے شاہ فہد کمپلیکس برائے طباعت قرآن کریم مدینہ منورہ، نامی ایک نہایت عظیم اشاعتی ادارہ قائم کیا تھا، جس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ گزشتہ سترہ سالوں میں اب تک 114ملین قرآن کریم کے نسخے شائع کرکے دنیا بھر میں تقسیم کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم اور اس کے مختلف اجزاء کی تفسیر اور ترجمے دنیا کی تمام زندہ زبانوں شائع کئے ہیں نیز آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں قرآن کریم، سنت نبویہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لاکھوں رکارڈس مختلف زبانوں میں نشر کئے ہیں۔

        سعودی عرب نے جس طرح کتاب و سنت کی بناء پر ملک و انسانیت اور مسلمانوں کی بے مثال خدمات انجام دی ہیں، اگر اس کی پوری دنیا اور خود اس ملک کے تمام باشندے اور دیندار قدر کرتے، اس کے خیر کے کاموں میں دست و بازو بنتے اور جس طرح انہوں نے ظلم و تعدی اور سلب و نہب سے بھرے حجاز مقدس، نجد و نجران  اور شرق و غرب کو پاک کیا تھا اور عدل و انصاف اور توحید و سنت سے بھردینے کا اہتمام اور پاسبانی کی تھی، اسے نگاہِ قدرسے دیکھتے تو اس کا نقشہ کچھ اور ہوتا، لیکن افسوس کہ بہتوں نے صرف ٹانگ کھینچنے، کیچڑ اچھالنے، بدبو پھیلانے اور خیر کو دبانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ خود کو صحابہ کم ازکم تابعین کی طرح بنائے بغیر اپنے علماء و حکام کو معصوم دیکھنے کا فتنہ کھڑا کیا اور نتیجۃََ خوارج کے جراثیم امت کے جسد وحدت و محبت اور تعاون علی البر ونہی عن المنکر میں سرایت کرگئے  اور اس فساد و بگاڑ کا طوفان مچانے کو اصلاح اور نہی عن المنکر کا نام دے دیا گیا۔ اے کاش ہمارے یہ بھائی اس مملکت توحید و سنت جو بڑی مشکلوں اور رکاوٹوں اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے قائم ہوئی تھی اور بادِ سموم کی جھونکوں کی پروا کئے بغیر اپنا وجود ثابت کردیا تھا اور اس کے برگ و بار ظاہری و باطنی طور پر عیاں بھی ہوئے، کا ساتھ دیتے یا کم از کم سکوت اختیار کرتے! اس کے برعکس مسلمانوں نے خود بے شمار اسلام اور مسلمان دشمن ایجنڈوں پر نادانی اور عاقبت نا اندیشی میں عمل کرنا شروع کردیا اور تعجب ہے کہ وہ اس پر خوش بھی ہیں – ویحسبون انھم یحسنون صنعا.

        ملک سلمان حفظہ اللہ اپنی رعایا پروری، ہر دل عزیزی، تواضع، انکساری، علماء کے ادب و احترام، حلم و بردباری، شعائر اسلام کی حفاظت، قانون و شریعت محمدی کی پاسداری، کنبہ و قبیلہ کی دیکھ ریکھ اور تعلیم و تربیت اولاد و خاندان میں مثالی آدمی ہیں۔ وہیں عدل گشتری، انصاف پروری، جہاں بانی، صحیح اسلامی حکمرانی، گندے گلیاروں میں صحیح اسلامی سیاست اور دول خلیجی اور پورے عالم میں خصوصا اور بین الاقوامی سطح پر عموما جس طرح انسانیت اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، نت نئے الزام تراشے جارہے ہیں اور پوری دنیا کو جنگ عظیم کے منہ میں دھکیلنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں اور روز روز جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لئے بیانات اور اقدامات کئے جارہے ہیں اور ان سب میں اس حکیمانہ انداز میں ملک سلمان حفظہ االلہ دانشمندانہ اور قائدانہ کردار ادا رکررہے ہیں، اس پر وہ تمام دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسندوں کے دادو تحسین، تائید و تشجیع کے مستحق ہیں اور دعاؤں کے سزاوار ہیں۔ مشرق و مغرب کی بڑی طاقتوں کی طرف سے ان دنوں ملک سلمان حفظہ اللہ اور مسلمانوں کو جن حالات کا سامناکرنا پڑا ہے اور اندر کے منافقین پارسیوں اور صفویوں سے جس طرح سے مسلمانوں کو لڑانے اور حرمین شریفین کے تقدس کو پامال کرنے اور اسکو کھلا شہر قرار دینے اور حج جیسے مقدس اور روحانی فضاء کو مسموم اور خونی بتانے کی سازشوں اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے ان سب میں ملک سلمان حفظہ اللہ، ولی عہد محمد بن نائف حفظہ اللہ اور نائب ولی عہد محمد بن سلمان حفظہ اللہ نے جس طرح سے ایمانی اور غیرت دینی اور حکمت عملی ست مقابلہ کیا ہے خصوصا امسال کے حج کو مثالی بنادیا ہے اس پر پورا عالم اسلام ان کے لئے دعا گو ہے اور ساری دنیا کے مومنین صادقین کے لئے ایک بڑی خوشخبری اور خوش آئند بات ہے وہیں منافقین اور اعداء اسلام کے لئے موت کا سامان ہے اور ان شاء اللہ مملکت خداداد، مملکت توحید، مملکت کتاب و سنت اور اسلاف کی روایات کے پاسدار اور انسانیت کے سچے رکھوالے اور خدمت گار مملکت سعودی عرب کے لئے فال نیک اور اس کے مستحکم مستقبل کے لئے پیشین گوئی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔