عظیم کو ہجوم نے نہیں، مسلمانو ں کی بے حسی نے مارا ہے!

شہاب مرزا

دہلی میں ۸؍ سالہ معصوم، ہنستے کھیلتے طالب علم محمد عظیم محمد خلیل کا کل کچھ شرپسند عناصر نے بے رحمی سے قتل کردیا۔ قتل کوئی نئی بات نہیں ہے خاص کر مسلمانو ں کے لئے مذہبی منافرت اور گائو ہتیا کے نام پر اتنے قتل ہوگئے ہیں کہ مسلمانوں نے لاشیں اٹھانے کی عادت بنالی ہے۔ محمد عظیم کی ایک لاش اور سہی اور اس پر ملک کے حکمرانوں اور قوم کے رہنمائوں کی خاموشی بھی سمجھتا ہوں ؟ کیونکہ جانور بننے کے بعد بولنا بھی بیار ہے۔ ہر دن کوئی نہ کوئی موت کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اور چڑھتا ہی رہے گا اور قوم بھی بے حسی کی نیند میں ہے۔ رہنما مست مزے میں ہیں عظیم تھوڑی کا قوم کا بیٹا تھا وہ تو اپنے والدین کا بیٹا تھا کسی رہنما کا بیٹا ہوتا تو شائدہنگامہ برپا ہوتا عظیم کی غلطی یہ تھی کہ وہ مسلمان تھا پھر اس سے بڑی غلطی اسلامی تعلیم حاصل کرنے کے لئے میوات سے دہلی آیا تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیا پہلے قتل نہیں ہوئے؟ پہلے بھی بچے شہید ہوئے تھے۔ صبح اخبار اٹھا کر دیکھ لیجئے صفحہ اول پر آپ کو ہجومی تشدد اور گائو ہتیہ کے نام پر بھینٹ چڑھے مسلمانوں کی خبر ضرورہوتی ہے۔

شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم اس معاشرے کا حصہ ہو جہاں انسانو ں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک اور جانوروں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔ ہم اس اسٹیج پر پہنچ چکے ہیں اب دوگز زمین بھی ہمارے لئے میسر نہیں ہے شہید عظیم کے والد محمد خلیل صاحب کی خواہش تھی کہ اس کی نماز جنازہ جامعہ فریدیہ مدرسہ میں ادا کی جائے جہا ں کا وہ طالب علم تھا لیکن افسوس پولس اور انتظامیہ نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی اور اپنے گائو ں میوات بھجوادیا۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہم کمزور ہوگئے ہے یا کوئی قدرتی آفت ہے کب تک ہم مسلم نوجوانوں کو ناحق قتل ہوتے دیکھے گئے کیا قصور ہوگا اس آٹھ سالہ معصوم بچے جس نے ابھی صحیح طریقے سے دنیا بھی دیکھی نہیں تھی۔ شائد یہ خوفزدہ تھے کہ کہیں عظیم قوم کے لئے عظیم نہ بن جائیں۔ او رایک معصوم کو قتل کرکے انہیں بھی چین مل گیا ہوگا اب اس صوت پر کچھ وقت کے لئے ہنگامہ برپا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر DPبدلی ج ائے گی۔ عظیم کے لئے انصاف کے لئے جسٹس فار عظیمJustice for Azeemہیش ٹیگ استعمال ہوگا۔ احتجاجی طور پر ۵ روپئے کا میمورنڈم کلکٹر صاحب کو تھما دیا جائے گا اس کے بعد فوٹوگرافر ایک اچھی سی فوٹو کھینچ کر دے گا جو اخبارات میں پریس نوٹ لگانے کے لئے کام آئے گا۔ تھوڑی وقت کے لئے غمگین ماحول پیدا ہوگا۔ د وچار جذباتی نعرے ہونگے یا اس سے زیادہ جب حکمراں محسوس کرینگے قوم بیدار ہوگئی ہیں اور عظیم کے لئے انصاف کا مطالبہ کررہی ہے تو شہید عظیم کے لئے لاکھوں روپئے کا اسٹیج سجایا جائے گا۔ ہزاروں روپئے کے پھول اڑادئے جائیں گے۔ پھر ہمیشہ کی طرح وقتی طور پر جذباتی نعرتوں اور تقاریر کو گھر پہنچنے سے پہلے تک بھی یاد نہیں رکھا جائے گا۔ کہ قوم نے عظیم نام کا سپوت گنوادیا ہے جس طرح حافظ جنید اخلاق احمد پہلو خان نجیب احمد افراز ول، حارث قادری، کو بھولے تھے یا سیاسی ہمدردی کے لئے مشاعرے کا انعقاد ہوگا چار قطعات سے قوم بھی اشکبار ہوگی اور اس سے زیادہ قوم کو سمجھتا بھی کیا ہے کیونکہ ’’توست‘گوشت‘ اور بے ہوش کے علاوہ ہمیں آتا بھی کیا ہے؟

قوم ویسے بھی بے حس اور سوئی ہوئی ہے ان پروگرام میں شرکت کرکے ہماری ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے پھر جو سناٹا چھا جاتا ہے پھر یہ سناٹا اس وقت ٹوٹے گا جب کسی اور مسلم نوجوانوں کو نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا یہ کب تک چلتا رہے گا !پتہ نہیں ؟ہم نے بھی لہو لگا کر شہیدوں میں نام شامل کرلیا۔ اب ان قتل کے واقعات سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایک دن فرق ضرور پڑے گا جب یہ مذہبی منافرت ہمارے گھروں میں داخل ہوگی قوم کے نونہالوں کے ساتھ رہنمائوں کی بھی لاشیں ملے گی اور ان رہنمائوں کی لاشوں پر کوئی افسوس کرنے والا باقی نہیں رہے گا۔ شائد سب اسی وقت کا انتظار کررہے ہے عظیم کا قتل ان سب قوموں کے بیٹو ں کا قتل ہے جو مسلمان ہے اور مذہبی تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ اتنے سب جو قتل ہوئے صرف مسلمانوں ہونے کی وجہ سے ہوئے کیونکہ قتل سے پہلے کسی کا فرقہ بھی پوچھا نہیں گیا۔ اس سے بدتر ان جانوروں کو بچوں اور بوڑھوں میں فرق نہیں سمجھتا تو ہم فرقوں کی بات کررہے ہیں شائد ہماری غفلت کو دیکھ کر وہ سمجھ گئے ہیں کہ اب انکو قتل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے ویسے بھی مسلمانو ں کا خون پہلے سے سستا ہے اوروہ جتنے لوگوں کا قتل کرینگے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے جائیں گے۔

محسن شیخ، محمد اخلاق، نفرت کی بناء پر قتل کیا گیا لیکن محمد عظیم کا قتل مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے تھا ابھی ایک مرا ہے آگے آگے دیکھو ہم کیا کرتے ہیں شائد ہندوستان کو خانہ جنگی کی سمت بڑھا رہے ہیں فسادات بھڑکانے کے لئے اب باہر والوں کی ضرورت نہیں ہے یہ خود انسان کے بھیس میں شیطان ہی ہے اور ان واقعات سے بھروسہ نہیں کب یہ انسان سے شیطان بن جائے۔

اب وقت ہے تبدیلی کا جاگنے کا اور اپنے اندر جھانکنے کا دیکھو تم کیا تھے اور اب کیا باقی رہ گئے ہو آخر کیوں حالات سے مقابلہ کرنے سے ڈرتے ہو۔ کس خوف نے تمہارے ہونٹوں کو سی رکھا ہے کیوں ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے تم تو حق کے علمبردارتھے پھر اتنے پست ہمت کیسے ہوگئے۔ کہیں خوف خدا ہمارے دلو ں ے نکل تو نہیں گیا؟جو کھلی آنکھوں سے ہونے والا ظلم بھی ہماری بے حسی کو توڑنہیں پارہا ہے ان معصوموں اور مظلوموں کی مائوں کی آہیں ہمارے ضمیر کو نہیں جھنھوڑ رہی ہیں کہیں ہم ایمان کے آخری درج کے بھی لائق نہیں رہے خدارا احتساب کر وظلم کے خلاف آواز بلند کرو سراپا احتجاج بن جائو اب بھی  نہیں بول پائے تو یقین جان لو تمہاری آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کردی جائے گی یقین جانو لو کہ وقت کا طاغوت ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتا ہے اور ہماری خاموشی اس کے لئے غذا ثابت ہورہی ہے یہ صرف مسلمانوں پر مظالم کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس ملک کی سلامتی کا معاملہ ہے مٹھی بھر ٹولہ اس ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہے۔

اگر غیور مسلمانوں نے حق کا پرچم بلند نہیں کیا تو اللہ کے لئے کوئی عجب نہیں کہ وہ اوروں کو کھڑا کردیگا لیکن بحیثیت قوم پھر ہمارا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگانا دشوار ہے ہمارے اکابرین نے کیا خوب کہا ہے کہ غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور عظیم قوموں کی تاریخ غیر معمولی فیصلوں سے بھری پڑی ہے کیا ہم اب بھی بیداری کا ثبوت نہیں دینگے یا پھر ہمیں کسی بڑی آفت کا انتظار ہے اور یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہم تاریخ کے سنہرے بابوں صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے کیونکہ

’’ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھو گے، اتنی ہی زیادہ قربانی دینی پڑے گی‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔