عورت کا پولیس محکمہ میں نوکری کرنا

مقبول احمد سلفی

پولیس کا شعبہ سدا سے بدنام ہے۔ مردوں کے لئے بھی اس میں خیر نہیں ہے، عورت تو بھلا عورت ہے۔ حالات نے اس شعبے کو رشوت خوری، بے ایمانی اور دروغ گوئی کا اڈہ بنادیا ہے۔

عورت گھر کی زینت ہے، اپنے بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت اور گھر کی ذمہ داریاں اس کے سرہیں، اس وجہ سے اسلام نے عورت کو معاشی تگ ودو سے نجات دیدی ہے۔ اگر عورت گھر چھوڑ دے اور باہر کی ذمہ داری ادا کرنے لگ جائے تو گھرویران بلکہ بسااوقات برباد ہوجاتاہے۔ کچھ لوگ حرص مال، کچھ لوگ آزدای نسواں اور کچھ لوگ شہرت کی وجہ سے عورتوں کو ایسے منصبوں پر دیکھنا پسند کرتے ہیں جو اس کی شایان شان نہیں۔ ایسے ہی منصوبوں میں سے ایک پولیس کا۔ اس محکمہ میں عورت کا نوکری کرنا شرعا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں نوکری کرتے ہوئے مختلف قسم کی معاصیات کا ارتکاب کرنا پڑے گا۔

پولیس محکمہ کی چند قباحتوں کا ذکر کرتا ہوں جس سے عورت کے لئے اس میں نوکری کرنے کی شرعی حقیقت واضح ہوجائے گی۔

(1) اختلاط مردو وزن:

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں اختلاط مردوزن پایا جاتا ہے جو اسلام میں حرام ہے۔ آج اختلاط نے معاشرے کو بربادی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ جرائم  کانوے فیصد حصہ اختلاط کا نتیجہ ہے۔ اسکولوں، کالجوں، بازاروں، دوکانوں، سڑکوں، پارکوں، پروگراموں اور بھیڑ بھار والی تمام جہگوں میں مردوزن ایک ساتھ نظر آتے ہیں حتی کہ عورتوں کی خودمختاری (Women’s Empowerment ) کے نام پہ عورتوں کو مردوں کی طرح ہرمنصب پہ فائز کیا گیا۔ جسکی وجہ سے دنیا کی حالت کیا سے کیا ہوگئی سب کے سامنے ہے۔ اختلاط نے زنا کو بڑھاوادیا، بے پردگی عام کیا، عورتوں کی عزت نیلام کیا، عشق ومحبت کو پروان چڑھایا، بچے بچوں میں فحاشی کا تصور پیدا کیا، اسقاط حمل کروایا، عورتوں کا قتل کروایا اور ان کے حقوق و واجبات کو پامال کیا۔ کیا کچھ نہیں کیا؟

اسلام نے مردوں کو عورتوں سے پردے کی اوٹ سے بات کرنے کا حکم دیا تاکہ عورتوں کو تحفظ فراہم ہو اور مردوں کے دل میں غلط خیال نہ پیداہو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن.(الأحزاب 53)

ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔

جو اسلام عورتوں سے پردے کی اوٹ سے سوال کرنے کا حکم دیتا وہ عورتوں کو کھلے بال، ننگے چہرہ، چست لباس، دل لبھاانداز اور پرفتن زیبائش کے ساتھ مردوں میں کیسے کام کرنے کی اجازت دے گا؟ ۔

عورت پردے کا نام ہے۔ وہ سراپا عفت و عصمت اور حیائے مجسم کا پرتوہے۔ اسے نظر نیچی رکھنے، حجاب لگانے، اجنبی سے پردے سے بات کرنے، راستے میں کنارے سے چلنے، مردوں کے میلان کا سبب نہ بننے اور اجنبی سے خلوت نہ کرنے کا حکم ملاہے، ان باتوں پہ چلنے سے اختلاط اور اس کے سنگین نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔

(2) بے پردگی :

اس میں خواتین کے لئے بے پردگی نمایاں ہے۔ پولیس محمکے کا ایک متعین یونیفارم ہے، مرد ہو عورت اسے ایک جیسا یونیفارم پہننا پڑتا ہے۔ یہ یونیفارم عورتوں کی ساخت اور اعضائے بدن کو نمایاں کرتاہے۔ ساتھ ساتھ چہرے اور سرکا پردہ نہیں ہوتا۔ اسلام میں خاتون کو ایسے لباس کی ممانعت ہے جو چست وتنگ، باریک اور عضوبدن کو نمایاں کرتاہو۔ ایسالباس بھی ممنوع ہے جو مردوں کے مشابہ ہو۔ لباس ہی نہیں عورت ومرد دونوں کو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

لعنَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ؛ المتشبِّهاتِ بالرِّجالِ منَ النِّساءِ والمتشبِّهينَ بالنِّساءِ منَ الرِّجالِ(صحيح الترمذي:2784)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مردوں کی مشابہت اختیارکرنے والی خواتین اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی ہے۔

عورتوں کی عفت وپاکدامنی میں شرعی حجاب کا بڑا دخل ہے۔ مشاہدہ بھی بتاتاہے کہ بے حجاب خاتون ہی فتنے کا سبب ہے اور وہی درندہ صفت انسانوں کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں۔ آیت حجاب کے نزول سے پہلے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں حجاب کا خیال پیدا ہوگیا۔ اور آپ ﷺ سے ذکر کیا کہ اگر آپ امہات المومنین کو پردہ کا حکم دیتے تو اچھا ہوتا۔ اور پھر آیت حجات نازل ہوگئی۔ اس لئے مسلم خاتون کو ہر اس نوکری سے بچنا ہے جس میں بے پردگی ہے۔ ذرا تصور کریں۔

ایک صحابیہ نے ننگے سر حج کرنے کی منت مانی تو نبی ﷺ نے سر ڈھانپنے کا حکم دیا جبکہ اس نے نذر مانی تھی۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں۔

نذرتْ أُختي أن تمشيَ إلى الكعبةِ حافيةً حاسرةً فأتى عليها رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال ما بالُ هذه قالوا نذرتْ أن تمشيَ إلى الكعبةِ حافيةً حاسرةً فقال مُروهَا فلْتركبْ ولْتختمرْ ولْتحجَّ ولْتهدِ هديًا(السلسلة الصحيحة:6/1037)

ترجمہ : (حضرت عقبہ بن عامر رضي الله تعالى عنه سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا) میری بہن نے یہ منت مانی ہے کہ وہ ننگے سر پیدل چل کر حج کریں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا اس کا کیا ماجرا ہے؟ تو لوگوں نے کہا:یہ منت مانی ہے کہ وہ ننگے سر پیدل چل کر حج کریں گی، آپ نے فرمایا: اس کو سوار ہونے اور سر ڈھانپ کر حج کرنے کا حکم دو اور ایک جانور ذبح کرے۔

تو پھر ان عورتوں کا کیا حال ہوگا جو ہمیشہ عریاں رہتی ہیں؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

پولیس محمکہ میں حجاب کے ساتھ نوکری کرنا قدرے مشکل ہے کیونکہ اجنبیوں کے درمیان کرنا ہے، ان سے بات چیت کرنی ہے، ان کے ساتھ ذمہ داری ادا کرنی ہے، اس میں سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کام ایک باپردہ خاتون سے نہیں ہوسکتا۔ اگر بردہ کرنا بھی چاہے تو محکمہ والے اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔

(3)اجنبی کے ساتھ خلوت نشینی:

یہ وہ پیشہ جس میں مردوں کے ساتھ ہی میل جول، کام کاج اور تعلقات استوار کرنے پڑتے ہیں۔ جبکہ  عورت کو اجنبی مرد کے ساتھ رہناسہنا، اٹھنابیٹھنا، کھاناپینا، کام کاج کرنا حرام ہے۔ مردوں کے ساتھ اختلاط کے علاوہ ایک خطرناک پہلو خلوت بھی ہے جو فحاشی کا پیش خیمہ ہے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

لا يخلُوَنَّ رجلٌ بامرأةٍ ؛ فإنَّ الشيطانَ ثالثُهُما(تخريج مشكاة المصابيح:3054 باسناد صحیح)

ترجمہ: کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت نشینی نہ کرے کیونکہ ان دونوں کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

اس حدیث سے ذرا اندازہ لگائی جائےکہ جن کے درمیان شیطان ہوگا وہ لوگ شیطانیت میں کم حد تک گر سکتے ہیں؟

ایک عورت کو پولیس کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے خلوت کا سامنا ہونا یقینی امر ہے۔ گویا یہ ایک ایسا پیشہ جس میں خلوت کا گناہ سرزد ہونے کا یقین ہے تو بھلاوہ پیشہ کسی  صورت میں کیسےجائز ہوگا؟ ۔

خلوت نشینی میں گناہ کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے، کوئی دیکھنے والاسوائے اللہ کے، برائی سے روکنے والاسوائے اپنے نفس کے، گناہ کی لذت پہ ملامت کرنے والا سوائے اپنے ضمیر کے کوئی نہیں ہوتا۔ اس مقام پہ تقوی، خشیت الہی اور فکرآخرت ہی بچاسکتی ہے۔

(4) بغیرمحرم کے سفر:

پولیس جاب میں بغیر محرم کے سفرکرنا بھی اسلامی رو سے قابل قدح ہے۔ اس نوکری میں کب کہاں جانا پڑجائے، کہاں ٹرانسفر ہوجائے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ سفر میں عورت کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری ہے ورنہ گنہگار ہوگی۔ یہاں کون محرم؟ مشن میں شریک، ساتھ میں سفر کرنے والا انسان ہے یا انسانی مکھوٹے میں حیوان ہے اس کی بھی کوئی خبر نہیں۔

حضرت ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لا يخلوَنَّ رجلٌ بامرأةٍ، ولا تسافِرَنَّ امرأةٌ وإلا معها محرمٌ . فقام رجلٌ فقال : يا رسولَ اللهِ، اكتُتِبت في غزوةِ كذا وكذا، وخرجت امرأتِي حاجةً، قال : اذهبْ، فحُجَّ مع امرأتِك(صحيح البخاري:3006)

ترجمہ : کوئي بھی عورت محرم کےبغیر سفر نہ کرے، توایک شخص کھڑا ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو فلاں غزوہ میں جارہا ہوں اور میری بیوی حج پر جارہی ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم اپنی بیوی کےساتھ حج پرجاؤ۔

اس حدیث میں مردوعورت کے لئے بہترین سبق ہے۔ جہاد جیسا دین کا اہم فریضہ چھوڑکر نبیﷺ نے صحابی کو بیوی کے ساتھ محرم بن کر حج پر جانے کا حکم دیا، وہ حج جس میں نگاہیں پاک، دل پاک تر اور جذبات وخیال پاکیزہ ہوتے ہیں پھر بھی عورت کے ساتھ سفر حج پہ محرم کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ اکبر

حقیقت میں اللہ نے خاتون کے تئیں جو نظام بنایا ہے وہ نہایت پاکیزہ اور صاف وشفاف ہے، ایک عورت اسلامی حدود میں رہ کر امن کا گہوارہ بن سکتی ہے، اور جب یہی عورت اسلامی حدود سے تجاوز کرجائے تو زمانے بھر مین فتنہ عام ہوجائے گا۔ آج اکثر وبیشتر فتنوں کے پیچھے یا تو عورت  ہےیا دولت۔ یہ دونوں چیزیں قابو میں ہوں تو ساری چیزیں قابو میں رہیں گی۔

(5)عورتوں کی قیادت:

اسلام نے عورت کومردوں کی سربراہی سے بھی نجات دیدی ہے ایسا کوئی پیشہ یا کام جس میں عورت کو مردوں کی حاکمیت اور سربراہی کرنی پڑے وہ کام جائز نہیں ہے۔ پولیس  محکمہ ایک قسم کا قیادتی محکمہ ہے۔ عورت گھر کی زینت ہے نہ کہ آرائش چمن۔ فحاشی کی ہوس رکھنے والوں نے آزادی نسوان کے نام پہ عورتوں کو کرسیوں اور منصبوں پہ بٹھایا اور صنف نازک کی کمزوریوں سے من مرضی کا فائدہ اٹھایا۔

ہم نےقرآن کی اس تعلیم کو بھلایا عورت بھی ذلیل ہوئی اور مرد بھی ذلیل ہوا۔

” وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ (الاحزب:33)

ترجمہ: اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو اور زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ نہ دکھاتی پھرو-

عورت ضرورتا اگر گھر سے نکلے تو  اس میں بھی حیاہو بناؤسنگارنہ ہوجس سے لوگوں کے دل مائل ہوجائیں۔ جو اسلام عورت کو گھر کو لازم پکڑنے کا حکم دیتاہے، بلاضرورت باہرنکلنے سے منع کرتاہے اور چلنے کا بھی طریقہ سکھاتاہے وہ عورت کو بازار کی زینت کیسے بننے دے گا؟ ۔

ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مرد وخواتین کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو فرمایا:

استأخِرْنَ ؛فإنه ليس لكن أن تَحْقُقْنَ الطريقَ عليكن بحافَاتِ الطريقَ, فكانت المرأةُ تلتصقُ بالجدارِ حتى إن ثوبَها ليتعلَّقُ بالجدارِ من لصوقِها به.(صحيح أبي داود:5272)

ترجمہ: پیچھے رہو، تمہارے لئے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم راستے کے کنارے پر چلو، چنانچہ اس کے بعد خواتین دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے لگیں، حتی کہ دیوار کیساتھ چلنے کی وجہ سے انکے کپڑےاٹکنے لگے۔

عورتوں کی سیادت وقیادت جائز نہیں ہے۔ مردوں کو عورت کا حاکم بنایا ہے، حکمرانی کا حق صرف مردوں کو ہے۔ اور اللہ تعالی نے جسمانی اور ہنر کے اعتبارسے قیادت کے اوصاف مردوں میں ہی رکھے ہیں۔ عورتوں کو یہ منصب نہ تو زیب دیتا ہے اور نہ وہ اس فریضے کو صحیح طور پر ادا کرسکتی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ (النساء:34)

ترجمہ: مرد عورتوں پر حاکم ہیں بوجہ اس فضیلت کے جو اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور بوجہ اس کے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔ پس صالح عورتیں اطاعت شعار اور غیب کی حفاظت کرنے والیاں ہوتی ہیں اللہ کی حفاظت کے تحت۔

ابوبکرہ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کو خبر پہنچی کہ ایران والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے تو آپﷺنے فرمایا:
لن يُفلحَ قومٌ ولَّوا أمرَهم امرأةً۔ (صحيح البخاري:4425)

ترجمہ: وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات ایک عورت کے سپرد کیے ہوں۔

عورت کے لئے اسلحے والا، بندوق والااوردفاع والاکام منع ہے اس لئے پولیس محمکہ میں، فوج میں، کسی گینگ میں شریک ہونا اس کے لئے جائز نہیں ہے، نہ ہی ایسا وظیفہ اختیار کرسکتی ہے۔ اسلام نے عورتوں کو قتال سے دور رکھا ہے، یہ کام مردوں کے سپرد کیا ہے۔

يا رسولَ اللَّهِ على النِّساءِ جِهادٌ؟ قالَ: نعَم، عليهنَّ جِهادٌ، لا قتالَ فيهِ: الحجُّ والعُمرَةُ(صحيح ابن ماجه:2362)

ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پوچھتی ہیں اے اللہ کے رسول ﷺ کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:ہاں، ان پر جہاد ہے مگر ایسا جہاد ہے جس میں قتال نہیں ہے، وہ ہے حج وعمرہ۔

لہذا کوئی مسلمان عورت لیڈری میں حصہ نہ لے، نہ ہی کسی قسم کی فوج میں بھرتی ہواور نہ کسب معاش کی خاطر پولیس کے کسی محکمہ میں کام کرے۔ یہ کام عام طور سے جوانوں سے لیا جاتا ہے، اور تصور کریں جب عورت جوان ہو اوربے پردہ  مردوں کے درمیان ہو تو اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟

ہاں پولیس محکمے میں بطورتفتیش  یاجیل کے کسی کام میں عورتوں کی دیکھ بھال وغیرہ کے طور پر اگرمحض عورتوں کے درمیان کام کرنا ہوجس میں مرد کا دخل نہیں، نہ اجنبیوں کی آمد ورفت ہےاور اس میں عزت وآبرو کی حفاظت کے ساتھ برپردہ کام کرنے کی اجازت ہے  توپھر اس وظیفے کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔