عہدنبویؐ میں نظام تشریع و عدلیہ 

ترتیب: عبدالعزیز

(ڈاکٹر محمد حمید اللہ ’’ آیۃً من آیات اللہ ‘‘ تھے۔وہ حید رآباد کے ایک شریف اور معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ انہوں نے فرانس کے شہر پیرس میں زندگی کا زیادہ عرصہ گزارا۔ قرآن مجید کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا۔ دس ہزار سے زائد افراد آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آخری عمر میں اپنی بہن کے پاس امریکہ چلے گئے اور وہیں وفات پائے۔ جب آپ کی عمر ۹۰ سال کی تھی تو پاکستان کے بہاول پور یونیورسٹی میں ایک دعوت پر آئے اور مختلف موضوعات پر کئی لیکچرس (خطبات) دیئے ہر لیکچر کے بعد سامعین نے سوالات کئے اور موصوف نے نہایت حکیمانہ جوابات دیئے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمایئے۔ ع۔ع)

۲۹۹۔ سوال۱۔ اگر قانون سازی ایک نجی مسئلہ ہے تو پھر اسلامی مملکت میں قانون سازی کا کیا طریقۂ کار ہو، وضاحت فرمایئے۔ اور قانون سازی کون لوگ کریں گے ؟ اور اجماع کے بعد اس کے نفاذ کا کیا طریقہ ہوگا؟

جواب:۔ ہماری روایت یہ رہی ہے کہ قانون سازی سرکاری مسئلہ نہ ہو حکومت یا پارلیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو، بلکہ ہر فقیہ کو کسی مسئلے کے متعلق اپنی رائے پیش کرنے کی آزادی رہے۔ حکمراں سے یہ حق سلب کرنے کے باوجود کبھی کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ بہت ہی نادر صورتوں میں ہمارے خلفاء نے بعض احکام دیئے۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احکام صادر کئے کہ مفتوحہ ممالک کو صرف فاتح فوج کیلئے معمولی مالی غنیمت نہ سمجھا جائے بلکہ پوری ملت کیلئے اور ہمیشہ کے لئے وقف قرار دیا جائے۔ اس طرح کے شاذو نادر احکام حکومت کی طرف سے بے شک صادرو نافذ ہوتے رہے۔ لیکن عام قانون سازی کا کام ہمارے فقہا انفرادی طور پر کرتے رہے ہیں عرض کرچکا ہوں کہ مساوی رتبے کا کوئی فرد رائے دیتا ہے فقہا انفرادی طور پر کرتے رہے ہیں عرض کرچکا ہوں کہ مساوی رتبے کا کوئی فرد رائے دیتا ہے تو میرے لئے یہ جسارت اور جرأت کرنا ممکن ہے، کہ اس پر تنقید کروں اور اس کے خلاف رائے دوں ۔ اس کے برخلاف اگر حکومت کا فیصلہ ہو تو ظاہر ہے کہ مجھے تذبذب ہوگا اور بعض اوقات یہ مشکل ہوگا کہ کسی جابر حکومت کے زمانے میں اس کے فیصلے کے خلاف زبان کھولوں ۔ طریقہ کیا ہو؟ وہ میں بیان کرچکا ہوں ۔ ہر فقیہ اپنی رائے بتاتا ہے۔ ابتدائی زمانے مین ہمارے قاضیوں کو آزادی ہوتی تھی کہ قرآ ن وحدیث کے مطابق جو چاہیں فیصلہ کریں ۔ اگر قرآن و حدیث میں کوئی چیز نہ ملے تو فقہا کی رائے میں سے کسی رائے کا انتخاب کریں ۔

اگر قرآن و حدیث میں کوئی چیز نہ ہو تو بطور خود اجتہاد کریں او ر فیصلے صادر کریں ۔ اس طرح عملاً کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ قانون کے نفاذ کا کیا طریقہ ہوگا؟ ہمارے حکام عدالت اپنی اپنی صوابدید پر فیصلہ کریں اور پولیس کی مدد سے اس کی تعبیر کرایا کرتے تھے۔ آیا اب بھی یہ مناسب ہے یا نامناسب؟اس کے بارے میں صرف نہ کہوں گا کہ ہمارا قانون اس زمانے کے مقابلے میں جب امام ابو حنیفہ ؒ نے ایک اکیڈمی بناکر اسلامی قانون کو مدون کرنے کی کوشش کی تھی، فقہی مذاہب کے ذریعہ بہت زیادہ مفصل اور معین ہوچکا ہے۔ اور کم ہی ضرورت ہوگی کہ نئی قانون سازی کی جائے (قوائد کو دفعہ وار مدون البتہ کرائیں ) مثلاً حنفی قانون کیا ہے؟ ’’ہدایہ‘‘، ’’قدوری‘‘، ’’مبسوط‘‘، نامی کتابوں کو دیکھتے ہی تو ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ دوسرے مذہبوں میں کہیں کہیں جزئی طور پر اختلاف ہے، یہ بھی ممکن ہے اور اس کی روایتیں بھی ملتی ہیں کہ جس ملک کا حاکم جس مذہب کا ہو، حنفی، شافعی یا مالکی، وہ اس کے مطابق حکم دے سکتا ہے کہ اس ملک کے سارے قاضی مثلاًحنفی قانون کے مطابق عمل کریں گے، چاہے ان کا اپنا مذہب کوئی دوسرا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ابو یوسف کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے عباسی خلافت کے قاضیوں کے پاس یہ احکام بھیجے تھے کہ وہ حنفی مذہب کے مطابق فیصلے کیا کریں ۔ اور یاقوت لکھتا ہے کہ بعض قاضی جو معتزلی یا غیر حنفی تھے، وہ بھی مذہب سلطانی یعنی حنفی فقہ کے مطابق فیصلے کیا کرتے تھے۔

 سوال ۲۔ اسلامی ملک میں غیر مسلم شخص پر اسلامی قانون نافذ ہوتا ہے تو کیا ایک غیر اسلامی مملکت میں غیر اسلامی قانون کی پابندی ایک مسلمان پر لازم ہے؟

جواب : سوال کا پہلا جزو غلط ہے کیونکہ اسلامی مملکت میں غیر مسلموں پر اسلامی قانون نافذ نہیں کیا جاتا۔ عہد نبوی میں قرآن مجید کے احکام کے تحت ہر مذہبی جماعت کو (عیسائیوں ، یہودیوں وغیرہ ) کو داخلی خود مختاری حاصل تھی، عقائد اور عبادات ہی کے متعلق نہیں بلکہ قانون و عدلیہ کے متعلق بھی۔ غیر اسلامی ممالک میں ایک مسلمان پر ایک غیر اسلامی قانون نافذ ہوگا۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن چونکہ غیر اسلامی ممالک اس رواداری اور فرخ دلی کا مظاہرہ اب تک نہیں کرسکے جو اسلام میں ہے کہ ہر قوم کو داخلی خود مختاری دی جائے لہٰذا اگر ہم غیر مسلم علاقے میں رہنا چاہیں تو یہ سوچ اور سمجھ کر، معلومات حاصل کرکے رہیں ، کہ ہم پر وہاں یہ پابندیاں عائد ہوں گی۔ لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مثلاً ایک فرانسیسی، ایک جرمن آج کیا کرے؟ ظاہر ہے کہ اگر اسے آپ ہجرت کراکے اپنے ملک میں بلانا چاہیں تو دنیا کے کتنے ملک ہیں جو آج اس پر آمادہ ہوں کہ غیر ممالک کے لوگ جب چاہیں ، یہاں پر بس جائیں ۔ اس دشواریوں کا سوائے اس کے جواب دیا جائے۔ ’’ لایکلف اللہ نفسا الاوسعہا…..‘‘ (۲:۲۸۶) ( اللہ کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا جو اس کی استطاعت سے باہر ہو) جس حد تک مملکن ہو وہ اسلام پر عمل کرے اور جس حد تک ممکن نہیں ہے اس پر اللہ اسے معاف کرے گا۔ لیکن یہ کوشش کرتا رہے کہ جہاں تک ہوسکے اسلامی قانو ن پر عمل کرے۔ مثلاً ایک فرانسیسی کیلئے، فرانس کے قانونِ وارثت پر عمل کرنا لازم ہے جو حکومت کا معین کردہ ہے۔ جو نہ انجیل کا پابند ہے تو نہ توریت کا قانون ہے، نہ قرآن کا قانون، بلکہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون ہے اور کوئی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ چاہے عیسائی ہو یا بے دین کمیونسٹ، یہودی ہو یا مسلمان، جو شخص بھی فرانسیسی قومیت اختیار کرتا ہے یا پیدائشی طور پر فرانسیسی ہوتا ہے، اس کے لئے قانون کو پابندی لازمی ہے۔ اس کا حل مل سکتا ہے۔ مثلاً فرانس میں وصیت اور ہبہ کی اجازت ہے۔ اگر میں یہ معلوم کرلوں کہ میرے جو قریبی رشتہ دار ہیں ، بیوی، بیٹا، بھائی وغیرہ، قرآن نے ان کے کیا احکام معین کئے ہیں اور اس کے مطابق میں وصیت یاہبہ کردوں تو ان کے ذریعہ میں اسلامی قانون پر عمل کرسکتا ہوں ، اگر عمل کرنا چاہوں ۔

۳۰۰۔سوال ۳۔ آپ نے مماثلث کے ضمن میں چنگی کا ذکر فرمایا ہے۔ براہِ کرم وضاحت کیجئے کہ کیا اسلامی مملک میں مسلمانوں سے چنگی وصول کرنا درست ہے، جب کہ اکثر علماء اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔؟

جواب: اس بارے میں مجھے زیادہ واقفیت نہیں کہ کس بنا پر اسے ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ میرا موضوع خصوصی انٹر نیشنل لاء رہا ہے چنگی کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ اسلام میں ممنوع ہے۔ اس بارے میں ممکن ہے صدر محترم آپ کی تشفی کرسکیں ۔ البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چنگی عہد نبوی میں بھی تھی، خلافت حضرت عمرؓ میں بھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ اور ذرائع سے مسلمان سے رقم حاصل کرنا، ضرورت کے وقت جائز ہے یا نہیں ؟ مثلاً اگر ضرورت زمانہ سے زکوٰۃ کی آمدنی ہمارے لئے کافی نہ ہو، تو ہمیں اور بھی وسائل اختیار کرنے ہوں گے اور ہماری رعیت کو ان حالات میں اپنی طرف سے کچھ زائد ٹیکس دینے پڑیں گے۔ آج کل ایک ایک ہوائی جہاز کی قیمت کروڑوں کی رقم ناکافی ہے تو ہماری زندگی ہی خطرے میں پڑجائے گی۔ لہٰذا ہم خوش دلی کے ساتھ، اپنی مدد اور حفاظت کے لئے کچھ زائد ٹیکس دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے، ان حالا ت میں میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی عمل دشواری نہیں رہتی۔

۳۰۱۔ سوال :۴۔وکیل کی اسلامی نقطۂ نظر سے وضاحت کیجئے۔

جواب : عہد نبوی میں آج کل کی طرح پیشہ ور وکیل نہیں پائے جاتے تھے لیکن قرآن مجید (۴:۱۰۹) میں اس کی طرف کچھ اشارہ ملتا ہے۔ ایک آیت ہے کہ ’’قیامت کے دن کافروں کی طرف سے اللہ سے کون جھگڑا کرے گا ؟ تو آج کل کے وکیل کو میں اصولاً اور اساساً ممنوع نہین قرار دیتا۔ کیونکہ عام کلیہ و قاعدہ ہے جس کا ذیل کی آیت میں شارہ ہے۔’’ و اُحل لکم ماوراء ڈالکم …..‘‘(۴:۲۴) یعنی پہلے چند چیزیں بتائی گئی ہیں کہ یہ حرام ہیں ۔ پھر اس کے بعد ہے، ’’اس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں ، وہ تمہارے لئے حلا ل ہیں ‘‘ فرض کیجئے کہ وکیل کی ممانعت نہ ہو تو ہمارے لئے جائز ہو جائے گا، چاہے وہ عہد نبوی میں غیر موجود ہو۔

۳۰۲۔ سوال۵۔ زکوٰۃ اور عشرکی موجودگی میں دیگر درجنوں ٹیکسوں کو بالخصوص دیہی علاقو ں پر تھوپ دینا، کہاں تک اور کیوں کر جائز ہے؟ مفصل وضاحت کریں ۔

جواب: اگر ملک کی ضرورتیں زکوٰۃ اور عشر سے پوری نہیں ہوتین تو اپنی مدد آپ کے تحت، دین کی حفاظت کیلئے زائد رقم دینا پڑے گی۔ ورنہ وہ خود کشی ہوگی۔ اور اللہ فرماتا ہے ’’ ولاتلقو بایدیکم الی التھلکہ ‘‘ (۲:۱۹۷) اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو)۔ اس کا شان نزول ہمارے مفسر مالی بخل ہی بیان کرتے ہیں ۔

۳۰۳۔ سوال ۶۔ عدلیہ میں وکیل کاکردار فوجداری اور دیوانی کہاں تک درست اور مفید ہے۔

جواب: اس کا بھی ابھی اشارۃً جواب دے چکا ہوں ۔ وکیل کا منشاء اصل میں یہ نہیں ہوتا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی مدد کرے۔ اس کے فرائض کی اساس یہ ہے کہ جس چیز سے اس کو خصوصی تعلق ہے یعنی ملکی قوانین سے واقفیت، اس واقفیت سے وہ اپنے مؤکل Clientکو مدد پہنچائے اور اسے بتائے کہ وہ قانون کی روشنی میں وہ کس حد تک اور کیا حق رکھتا ہے۔ قانونی نقطۂ نظر، قانون کی ٹیکنیکل باتوں کو عدالت کے سامنے واضح کرنے کیلئے وکیل کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کا کردار یہی ہونا چاہئے کہ حق کی تائید کرے۔ یہ نہیں کہ حق کو چھپائے اور عمد اً ظالموں کی مدد کرے۔

تبصرے بند ہیں۔