عید الفطر اور ہماری کوتاہیاں

عبدالکریم ندوی گنگولی

(استاد جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور)

ظلمت شب کی اندھیروں سے نکالنے اور گناہوں کی بخشش کروانے، ردائے رحمت میں ڈھانپ لینے، پروانہ ٔ مغفرت سے سرفراز کرنے خالق کائنات نے رمضان کامقدس وبابرکت مہینہ عطافرمایا،اسی دریائے رحمت اور انوار وبرکات کے ماہ مبارک کے فوراً بعد امت مسلمہ پر یکم شوال کی صبح ایک چشمہ ٔرحمت اورسیلاب مغفرت امنڈ پڑتا ہے اور خوشیوں کی باد بہاری چلنے لگتی ہے، ہر مسلمان کے ایمان وتمنا کی شاخ تازہ ظلم کی دشت بے اماں میں لہرانے لگتی ہے اور پھر ظلمت شب میں بانگ سحر کا فریضہ انجام دینے والے ابر الٰہی سے خوب سرشار ہوتے ہیں، پھر صبح عید کی کرنیں رحمت خداوندی کا جامہ اوڑھے سیاہ رو قلوب کو منور کرتے ہوئے پروانۂ مغفرت عطاکرتی ہے اور رمضان بھر کی عبادتوں وریاضتوں کا گلدستہ سجاکر بندہ ٔ مؤمن کو مکمل ڈھانپ لیتی ہے، یہی عید ہوتی ہے۔

عیدالفطر کی حقیقی خوشی اسی بندے کو نصیب ہوتی ہے جو ماہ مقدس کی تمام تر انوارات سے سرشار ہوکراپنی نفسانی خواہشات، سفلی جذبات، جسمانی لذات،محدود ذاتی مفادات،گروہی تعصبات اور تمام بدعات وخرافات کو اپنے رب کی بندگی کے سامنے عجز و انکساری کی چادر تان کر خشوع وخضوع کا پیکر بن کرقربان کردیتا ہے، ایسا شخص لال محالہ سرفراز وسربلند ہونے کے ساتھ ساتھ رشک ملائک بن جاتا ہے،پھر اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے، اپنی بندگی میں غرق، سراپا تسلیم واطاعت، پیکر صبر ورضابندے کے لئے انعام واکرام کا دن مقرر فرماتی ہے، چنانچہ ماہ مقدس ختم ہوتے ہی یکم شوال کو وہ دن عید الفطر کی صورت میں طلوع ہوتا ہے اور ابر باراں برسنے لگتی ہے۔

اس عالم رنگ وبو میں مختلف ادیان اپنے اپنے عقائد ونظریات، تصورات وروایات اور ثقافتی اقدار کی روشنی میں جشن یا تہوار مناتے ہیں، مسلمان چونکہ اپنی فطرت، نظریات وتصورات،عقائد وثقافتی اقدار کے لحاظ سے تمام قوموں میں منفرد وممتاز اور جداگانہ مقام رکھتے ہیں، اس لئے ان کے عید منانے کا انداز بھی نرالا اور کامل حکم خداوندی پر مبنی ہے،کیوں کہ دیگر اقوام کی عیدومحافل ناؤ نوش ورقص وسرور بپا کرنے،دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھوجانے اور شکم پروری وعیش پرستی کے سمندر میں غرق ہونے،نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کا نام ہے،لیکن عید الفطر ہو یا عید الاضحی اسلام میں درحقیقت روح کی پاکیزگی،قلب کا تزکیہ،بدن ولباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز وانکساری اور خشوع وخضوع کا پیکر بن کرتمام مسلمانوں کا اتحاد واتفاق، اخوت وبھائی چارہ کے جذبے سے لبریز ہوکر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانۂ تشکر بجالانے کا نام عید ہے۔اور ایسا کیوں نہ ہو کہ عید الفطر سے قبل ماہ مقدس امت محمدیہ کے لئے ایک مکمل پیغام اور ایک مثالی تربیتی نظام ہے،اسی لئے اس کے مکمل ہونے پر حکم ربانی ہے’’ولتکملوا العدۃ ولتکبروا اللہ علیٰ ما ھداکم ولعلکم تشکرون‘‘(سورہ:) اب آج اس بات پر شکر ادا کرو کہ خدانے تم کو اس مدت کو مکمل کرنے کی توفیق بخشی،اس پر تم کو خوب خوب اللہ کی بڑائی بیان کرنی چاہئے اور عید بھی اسی شکرانہ کے طور پر منانی چاہئے۔

افسوس صد افسوس !ایسے بدبخت وشقاوت اور بے نوا شخص پر جو اس ماہ مبارک میں بھی معاصی سے باز نہ آئے،رحمتوں کی یہ فصل بہار اس کے دامن میں اجالا نہ کرسکے اور ان بابرکت ایام میں بھی وہ اپنے کرتوتوں کی سیاہ روش تیاگنے پر تیار نہ ہو۔۔۔ماہ مبارک گذرجائے لیکن رحمت کے دامن سے چمٹ کر وہ اپنے لئے مغفرت کا پروانہ حاصل نہ کرسکے،حضرت جبرئیل علیہ السلام نے ایسے نامراد کی تباہی اور بربادی کی بددعا فرمائی اور زبان رسالت نے اس پر ’’آمین‘‘کہا۔

ذرا چشم تصور میں عیدالفطر کی مبارک ساعتوں، اس کی پرلطف گھڑیوں، رحمت الٰہی کی بے پایاں نوازشوں اور اپنے سیاہ کار بندوں کی مغفرت اور انعام واکرام سے نوازے جانے کا انداز دیکھئے اور غور کیجئے،رمضان کی آخری رات فرمان رسولﷺ کے مطابق یوم الجزاء قرار پائی،جب بندہ ٔ مؤمن اللہ کے اس انعام واکرام سے فیض یاب ہوکر سراپاعاجز بندہ بن کر شوال کی پہلی صبح کو یوم تشکر منانے کے لئے جاتا ہے تو راستوں، چوراہوں اور گلیوں پر پاکیزہ روح فرشتے بحکم خداوندی دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں اور جب بندہ کی زبان سے بخشش کا نالہ بلند،دل سے آہ اٹھتے ہی اس کا دامن مرادوں سے بھر جاتا ہے اور ’’ارجعوا قد غفرت لکم وبدلت سیآتکم حسنات‘‘ کا پروانہ مل جاتا ہے ’’کہ تم سب واپس جاؤ میں نے تم سب کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا‘‘۔ گویا عید الفطر کے دن بندوں کی ایک ماہ کی تربیتی کورس سے کامیابی سے گذرنے پر ان کے اعزاز میں ’’تقسیم اسناد‘‘کی تقریب سجائی جاتی  ہے، جس میں عرش سے لے کر فرش تک تیاریاں کی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتے ہیں کہ اے میرے فرشتو!اس مزدور کا کیا صلہ ہے کہ اسے مکمل مزدوری دی جائے جس نے اپنے حصے کا کام پورا کیا؟فرشتے کہتے ہیں :اے ہمارے معبود!اے ہمارے آقا!اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھر پور مزدوری دی جائے،اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’فرشتو! تم گواہ رہو کہ میں نے اپنے بندوں کو جنھوں نے رمضان بھر روزے رکھے اور تراویح پڑھتے رہے،اس کے صلے میں میں نے اپنی خوشنودی نوازدیا اور ان کی مغفرت کردی اور اس رات کو آسمان دنیا پر ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘یعنی انعام کی رات کہا جاتاہے۔

معلوم ہوا کہ عید کہ خوشی میں اس شخص کوشریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے جو ماہ مقدس کو بیکار کاموں میں گوا کر نفس کی پیروی کرتے ہوئے اپنی مغفرت نہ کروائے؛کیوں کی عید صرف عمدہ عمدہ کپڑے پہننے اور مختلف الانواع غذائیں نوش کرنے کا نام نہیں، بلکہ عید کا صحیح مفہوم ومقصود حضرت علی بن ابی طالبؓ کی زبانی معلوم ہوتا ہے۔ ایک شخص عید کے روز امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ خشک روٹی اور زیتون کھارہے ہیں، اس نے کہا:امیر المؤمنین اورعید کے روز خشک روٹی؟تو حضرت علیؓ نے فرمایا:’’اے شخص !عید اس کی نہیں جس نے نیا لباس پہنااور ثرید(عمدہ کھانا) کھایا، بلکہ عید تو اس کی ہے جس کے روزے قبول ہوگئے،جس کا قیام لیل قبول ہوگیا،جس کے گناہ معاف کردئے گئے اور جس کی جدوجہد کی قدر کی گئی،اور یہی اصل عید ہے اور ہمارے لئے آج کا دن بھی عید ہے، کل کا دن بھی عید ہے اور ہرایسا دن جس میں ہم اللہ کی نافرمانی نہ کریں وہ ہمارے لئے عید کا دن ہے۔اسی طرح حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کہتے ہیں ’’لیس العید لمن لبس الجدید؛ولکن العید لمن خاف یوم الوعید‘‘ عید اس کی نہیں جو عمدہ لباس پہن لے بلکہ عید تو اس کی ہے جو قیامت کے دن سے ڈرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے عید خوشیاں منانے ہی کے لئے عطافرمایاہے لیکن اس کی ابتداء بھی اپنی عبادت سے کروایااور شریعت کے حدود میں رہنے کا حکم دیا،البتہ ہمارے مسلم معاشرے میں بعض ایسے افراد بھی رہتے ہیں جو اس خوشی کے موقع پر حدود شرع سے تجاوز کرجاتے ہیں اور طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوکر اپنی رمضان بھر کی عبادتوں پر پانی پھیردیتے ہیں ؛جب کہ ہر گناہ سے بچنا ہر مسلمان پر ضروی اور لازمی ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ ٔ کار نہیں، اس لئے عام طور پر وہ گناہ جس میں آج کا مسلمان مبتلاء ہے، درج ذیل ذکر ہے تاکہ حقیقی عید ہم سب کو میسر ہو۔

 (۱)کھیل کود اورسیر وتفریح کرنا:

عید کے دن اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان سیر وتفریح اور کھیل کود کے نام پر مختلف جگہ رخت سفر باندھتے ہیں اور عید کے موقعہ پر شریعت میں کھیل کوداورتفریح جائز ہے بشرطیکہ خود تفریح وکھیل اور دوران تفریح کوئی کام خلاف شرع نہ ہو،لہذا مسلمانوں کو اس موقعہ پر اپنے اہل وعیال،اقرباء اور دوست واحباب کے ساتھ مل کرخوشی کا اظہار کرنا شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔چنانچہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے اورمیرے پاس اس وقت انصار کی نوخیز لڑکیوں میں سے دو لڑکیاں تھیں جو ان اشعار کے ساتھ گارہی تھیں، جو ’’بعاث‘‘کے دن انصار نے پڑھے تھے اور حقیقت میں وہ گانے والی نہ تھیں، یہ عید کا دن تھا، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے کہا:’’أمزامیر الشیطان فی بیت رسول اللہﷺ؟‘‘کیا رسول ﷺ کے گھر میں شیطان کی آواز گونج رہی ہے؟تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یا أبابکر!إن لکل قوم عیداً وھذا عیدنا‘‘اے ابوبکرؓ!ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے اور یہ ہمارا تہوار ہے‘‘(بخاری:۴۵۴؛مسلم:۸۹۲)۔

اسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں :عید کے دن کچھ حبشی لوگ مسجد میں آئے اور بعض حربی آلات کے ساتھ کھیل پیش کرنے لگے،چنانچہ آپﷺ میرے حجرے کے دروازے پر تشریف لائے اور خود بھی ان کے کھیل کا مشاہدہ کیا اور مجھے بھی آپ نے بلالیا،میں آئی توآپ نے مجھے اپنی چادر کی اوٹ میں کردیا تاکہ میں پردے میں کھڑی ہوکر ان کے کھیل کا مشاہدہ کرسکوں، لہذا میں نے آپ کے کندھوں پر اپنا سررکھا اور ان کے کھیل کو دیکھنے لگی،پھر جب میں خود کھیل دیکھتے دیکھتے اکتا گئی تو آپ نے پوچھا:کافی ہے؟میں نے کہا:ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:اب تم چلی جاؤ(بخاری:۹۵۰)ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شریعت میں تفریح اور کھیل کود جائز ہے ؛جب کہ حدود شرع میں ہو۔

 (۲)موسیقی، فلم بینی، گانابجانا:

تفریح کے نام پر قطعاً یہ جائز نہیں کہ موسیقی، گانے سنے جائیں اور ٹی وی پر یا سینما گھر میں جاکر فلمیں اور ڈارمے وغیرہ دیکھے جائیں ؛کیوں کہ بعض کم ظرف مسلمان ایسے بھی ہیں جو رمضان کی آمد پر گھر میں سجی ٹی وی پر کپڑا ڈال دیتے ہیں ؛تاکہ کسی کی نظر بھی اس پر نہ پڑے،پھررمضان ہوتے ہیں شیطان مردود کے رہائی کے ساتھ ٹی وی کوبھی آزاد کردیتے ہیں، جب کہ گانے، آلات موسیقی سب حرام ہیں اور ان میں مشغول رہنابہت بڑا گناہ ہے،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا ً أولئک لھم عذاب مھین‘‘(سورہ لقمان:۶)اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کرنے والی بات خرید لیتا ہے ؛تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے بندوں کو اس کی راہ سے بھٹکائے اور اس راہ کا مذاق اڑائے،ایسے لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔

اس آیت کریمہ میں ’’لھو الحدیث‘‘سے مراد گانا اور موسیقی ہے جیسا کہ متعدد صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے تو قسم کھا کر کہا کہ اس ے مراد گاناہی ہے،اسی طرح امام ابو مالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:’’میری امت کے کچھ لوگ ضروربالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے،ان کے سروں کے پاس آلات موسیقی بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی،اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسادے گا اور انہیں میں سے کئی لوگوں کو بندر اور سور بنادے گا’’(ابن ماجہ:۴۰۲۰)۔اس حدیث میں سخت وعید ہے ان لوگوں کے لئے جو رقص وسرور کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں یا ایسی محفلوں کوٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین پر دیکھتے ہیں۔

 (۳) کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانااور تکبر وغرور کرنا:

مسلم معاشرے میں بہت سارے نوجوان ایسے بھی ہیں جو کپڑا تو پہنتے ہیں لیکن سنت رسول کے خلاف، کہ ان کے پینٹ یا پائجامے ٹخنوں سے نیچے لٹکتے رہتے  ہیں، جب کہ نبی کریمﷺ کا پاک ارشاد ہے’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات چیت کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گااور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا،آپﷺ نے یہ الفاظ تین بار کہے،تو حضرت ابوذرؓ نے کہا:وہ یقینا ذلیل خوار ہونگے اور خسارہ پائیں گے،یا رسول اللہ !وہ کون ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:اپنے تہ بند کو نیچے لٹکانے والا،احسان جتلانے والااور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھاکر بیچنے والا‘‘(مسلم:۱۰۶)۔اسی طرح حضرت ابوھریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے ارشادفرمایا:’’جو تہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے‘‘(بخاری:۵۷۸۷)۔

ان دونوں احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاناحرام اور بہت بڑا گناہ ہے، لہذا جو کپڑا بھی نیچے پہناہوا ہو،شلوار یا چادر،پائجامہ یا پینٹ اسے ٹخنوں سے نیچے نہ رکھنا چاہئے، چاہے تکبر ہو یا نہ ہو،اور اگر اس کے ساتھ ساتھ تکبر بھی شامل ہو تو یہ اور زیادہ سنگین گناہ ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ایک آدمی اپنے تہ بند کو گھسیٹ رہاتھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دھنسادیا،پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں نیچے جاتارہے گا‘‘(بخاری:۵۷۹۰)۔ایک اور روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں ’’ایک آدمی اپنے لمبے لمبے بالوں کو کنگھی کئے ہوئے خوبصورت لباس میں چل رہا تھا اور خود پسندی میں مبتلاتھا، اسی دوران اچانک اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسادیا،پس وہ قیامت تک زمین کی گہرائی میں جاتارہے گا‘‘(بخاری:۵۷۸۹؛مسلم:۲۰۸۸)۔

 (۴) داڑھی منڈوانا یا اسے چھوٹا کرنا:

بہت سارے لوگ عام طورپر عید کی رات اپنے آپ کو سنوارنے اور اسمارٹ بننے کے لئے نعوذ باللہ داڑھی منڈواتے ہیں یا اسے چھوٹا کرتے ہیں ؛حالانکہ ایسا کرنا حرام ہے اور رسولﷺ کا واضح ارشادہے کہ’’تم مشرکین کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو چھوٹا کرو‘‘(بخاری:۵۸۹۲؛مسلم:۲۵۹)۔اسی طرح دوسری روایت میں ہے کہ’’تم موچھیں کاٹواور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو‘‘(مسلم:۲۶۰)۔

 (۵)غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرنا:

بہت سارے مسلمان جب اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاتے ہیں تو غیر محرم عورتوں سے مصافحہ کرتے اور مبارکبادکا تبادلہ کرتے ہیں اور اس میں انہیں ذرہ برابراللہ کی ناراضگی اور اس کے حکم کا خیال تک نہیں آتا؛جب کہ شریعت میں کسی اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا حرام ہے،چنانچہ حضرت معقل بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے کسی ایک کے سر میں لوہے کی سوئی کے ساتھ ماراجائے تویہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ وہ اس عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کے لئے حلال نہیں ‘‘(السلسلۃ الصحیحۃللألبانی:۲۲۶)۔اسی لئے حضورﷺ نے جب عورتوں سے بیعت لی تووہ زبانی بیعت تھی، اس میں آپﷺ نے کسی عورت سے مصافحہ نہیں کیاتھا(مسلم:۱۸۶۶)۔

 (۶)غیر محرم عورتوں سے خلوت میں ملاقات کرنا:

خصوصاً ایام عید میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ عید کا فائدہ اٹھاکر بعض مسلمان مردغیر محرم عورتوں سے خلوت(تنہائی)میں ملاقات کرتے ہیں ؛جب کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا،حضرت عقبہ بن عامر الجہنیؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایاـ’’إیاکم والدخول علی النساء‘‘تم (غیر محرم)عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کرو،تو ایک انصاری نے کہا:اے اللہ کے رسول! آپ ’’الحمو‘‘خاوند کے بھائی (دیور)کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟توآپﷺ نے فرمایا:’’الحمو الموت‘‘دیور موت ہے‘‘(بخاری:۵۲۳۲؛مسلم:۲۰۸۳)۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:’’کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت میں نہ جائے، ہاں اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو تو ٹھیک ہے اور اسی طرح کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے‘‘(بخاری:۲۸۶۲؛مسلم:۱۳۴۱)۔

 (۷) عورتوں کا بے پردہ ہوکر گھومنا:

عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ عید کے ایام میں بہت ساری عورتیں گھروں سے باہر بے پردہ ہوکر نکلتی ہیں، خوب بن سنورکر، سج دھج کر بازاروں، مارکیٹوں اور سیاحت گاہوں میں آتی جاتی ہیں اور بہت سارے مردوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اور رسولﷺ نے اس منع فرمایا ہے اور خواتین اسلام کو بغیر پردہ کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے،ارشاد ربانی ہے’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃالأولیٰ‘‘(سورہ احزاب:۳۳)اور اپنے گھروں میں ٹک کررہواور قدیم زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کا اظہار مت کرو۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایاـ:’’خاتون ستر (چھپانے کی چیز)ہے، اس لئے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سبب زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے‘‘(ابن حبان:ج۱۲ص۴۱۳،۵۵۹۹)۔

بے پردہ ہوکر اور نیم برہنہ لباس پہنے ہوئے گھروں سے نکلنے والی خواتین کو رسولﷺ نے سخت وعید سنائی ہے کہ وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی،حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا، ایک تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ہانکیں گے اور دوسری وہ خواتین ہیں جو ایسا لباس پہنیں گی کہ گویا برہنہ معلوم ہوں گی،لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اورتکبر سے مٹک کر چلنے والی ہوں گی،ان کے سر اونٹوں کی کوہانوں کی مانند ایک طرف جھکے ہوں گے،ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی؛ حالانکہ اس کی خوشبو تو بہت دور سے محسوس کی جائے گی‘‘(مسلم:۲۱۲۸)۔اسی طرح آپﷺ نے فرمایا:’’جو عورت خوشبو لگاکر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے ؛تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کرسکیں تووہ بدکا رعورت ہے‘‘(ابوداؤد:۱۴۶۷۔ترمذی:۲۹۳۷،نسائی:۵۱۲۶)۔

 (۸) اقرباء اور فقراء ومساکین کے حقوق کا خیال نہ رکھنا:

اکثر مسلمان ایام عید میں خوب کھاتے پیتے،زرق برق لبا س پہنتے اور خوشی کا اظہارکرتے ہیں لیکن اپنے پڑوس میں رہنے والے رشتہ داروں اور فقراء ومساکین کو بھول جاتے ہیں، جب کہ اسلام ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کے موقعہ پر فقراء ومساکین اور رشتہ داروں کو ہرگز نہ بھولیں بلکہ ان کو اپنے میں شامل کریں، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان وا لا نہیں ہوسکتا ؛یہاں تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘(بخاری:۱۳؛مسلم:۴۵)۔

رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک یعنی صلہ رحمی کرنے کی احادیث میں بہت ساری فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی اور اس کے اجل (موت)میں تأخیرہو تو وہ صلہ رحمی کرے‘‘(بخاری:۵۹۸۶؛مسلم:۲۵۵۷)۔بعض لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے رشتہ دار ان کے ساتھ صلہ رحمی کریں گے تبھی ہم کریں گے ورنہ نہیں کریں گے، یہ سوچ بالکل غلط ہے،بلکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ اگر کوئی قطع رحمی کرے تو ان سے صلہ رحمی کی جائے،اگر وہ بدسلوکی کرے تو ان سے اچھا سلوک کیا جائے،الغرض رشتہ دار چاہے صلہ رحمی کرے یا قطع رحمی کرے دونوں صورتوں میں اپنی طاقت کے مطابق انسان ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہے،اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص ؓ کابیان ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’صلہ رحمی کرنے والاوہ نہیں جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جس سے قطع رحمی کی جائے تو پھر بھی وہ صلہ رحمی کرے‘‘(بخاری۵۹۹۱)۔

 (۹)نیک اعمال پر استقامت اور قبولیت کی دعاکرتے رہنا:

مذکورہ تمام چیزوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کو یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے روزوں، نمازوں اور رمضان میں کئے گئے دیگر عبادات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انہیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمالے،سلف صالحین ؒ چھ ماہ تک یہ دعا کرتے تھے کہ یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک کا مہینہ نصیب فرما،پھر جب رمضان کا مہینہ گذر جاتاتووہ اس بات کی دعاکرتے کہ اے اللہ! ہم نے اس مہینے میں جوبھی عبادات کیں توانھیں قبول فرما۔

اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یہ ذکر کی کہ وہ عبادت سرانجام دینے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کی عبادت رد نہ کردی جائے،ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’إن الذین ھم من خشیۃ ربھم مشفقون، والذین ھم بآیات ربھم یؤمنون، والذین ھم بربھم لا یشرکون، والذین یؤتون ما آتوا وقلوبھم وجلۃ أنھم إلیٰ ربھم راجعون، أولئک یسارعون فی الخیرات وھم لھا سابقون‘‘(سورہ مؤمنون:۵۷-۶۱)بے شک جو لوگ اپنے رب کے خوف سے لرزنے والے ہیں اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے ہیں اور جو (للہ کے لئے)جو کچھ دیتے ہیں اسے دیتے ہوئے ان کے دل ڈرتے ہوتے ہیں کہ یقینا انھیں اپنے رب کے پاس لوٹ کرجاناہے، ایسے ہی لوگ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور وہ ان کی طرف دوسروں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ انھوں نے رسول اکرمﷺ سے اس آیت ’’والذین یؤتون ما آتوا وقلوبھم وجلۃ‘‘کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب نوشی اور چوری کرتے ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا:صدیق کی بیٹی!نہیں اس سے مراد وہ نہیں ؛بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں، نما ز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں تو ان کے دلوں میں خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ عبادات رد نہ کردی جائیں (ترمذی:۳۱۷۵؛ابن ماجۃ:۴۱۹۸)۔

بعض لوگ رمضان المبارک میں خوب عبادت کرتے ہیں، نمازوں کی پابندی، قرآن مجید کی تلاوت، ذکراللہ سے اپنی زبانوں کو تر، دعائوں کا اہتمام اور صدقات وخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ۔۔لیکن رمضان المبارک جونہی ختم ہوتا ہے تو کئی عبادتیں بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ فرض نمازوں میں بھی غفلت اور سستی برتتے ہیں، یہ عمل بالکل غلط ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مرتے دم تک اپنی بندگی کا حکم دیا’’فسبح بحمدربک وکن من الساجدین واعبد ربک حتی یأتیک الیقین‘‘(سورہ حجر:۹۸-۹۹)پس اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہئے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے ؛یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔

بعض مسلمان معاشرے میں ایسے بھی ہیں جو نیک اعمال کرنا ہی چھوڑدیتے ہیں اور مزید برائیوں میں مبتلاہوجاتے ہیں اور اس طرح کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے؛جب کہ اللہ تعالیٰ نے نیک کاموں میں استقامت (ہمیشہ عمل کرنے کا)حکم دیتے ہوئے برائیوں میں ملوث ہونے سے منع فرمایا ہے اور آپﷺ نے استقامت سے کئے جانے والے عمل کو محبوب قراردیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’فاستقم کما أمرت ومن تاب معک ولا تطغوا إنہ بما تعملون بصیر‘‘(سورہ ھود:۱۱۲)پس آپ راہ حق پر قائم رہئے جیسا کہ حکم دیاگیا ہے اور وہ لوگ بھی جنھوں نے آپ کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا ہے اور تم لوگ سرکشی نہ کرو،بے شک وہ (اللہ)تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہاہے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’کان أحب الدین إلیہ ماداوم علیہ صاحبہ‘‘ (بخاری:۴۳، مسلم:۷۸۵)نبی کریم ﷺ کو وہی عمل سب سے محبوب تھا جس پر عمل کرنے والا ہمیشگی کرے۔ اورحضرت ثوبانؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم استقامت اختیار کرواور تم ہر گز اس کی طاقت نہیں رکھوگے اور اس بات پر یقین کرلو کہ تمہارا بہترین عمل نماز پڑھنا ہے اور ایک سچا مؤمن ہی ہمیشہ وضو کی حالت میں رہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔