غالب کے طرفدار تو ہیں!

بہار کے الیکشن کے بعد سے کئی دوستوں نے فون کیے بعض دوستوں نے فیس بک پر اور دوسرے ذ رائع سے کہا بعض دوستوں سے ملاقات ہوئی تو ذکر کیا کہ رشید انصاری صاحب نے آپ کے فلاں مضمون کے بارے میں یہ یہ یہ لکھا ہے۔ میرا معاملہ یہ ہے کہ میں یہ سوچ کر نہیں لکھتا کہ اس سے  کسے اختلاف ہوگا یا کون اس کی دا د دے گا۔ میں صرف ایک بات سامنے رکھتا ہوں کہ نفرت کی وہ دیوار کھڑی نہ ہو جس کا عذاب ہم بہت ہلکے ا نداز میں بھگت رہے ہیں اور حیدرآباد نے ہم سے50 گنا زیادہ بھگتا ہے۔ رشید انصاری صاحب کا ایک مضمون غالب کے مصرع کی سرخی کے ساتھ آج اودھ نامہ میں چھپا ہے۔ اس میں پھر انھوں نے نے نام لے کر اس حقیر کو مخاطب کیا ہے۔

رشید انصاری ایک سنجیدہ صحافی ہیں اور سنجیدہ حلقوں میں پڑھے جاتے ہیں ، نہ جانے وہ اسدالدین اویسی سے کیوں اتنے ڈرتے ہیں یہ وہ جانیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ حیدرآباد میں ہونے کی وجہ سے ان پر زور ڈالتے کہ وہ اپنے اس دائرہ سے جو آصف جاہی دائرہ تھا باہر نہ جائیں ۔ اس لیے کہ وہاں بھی ابھی بہت کام باقی ہے۔ رشید صاحب خود لکھ رہے ہیں کہ اگر اویسی امت شاہ کے بل پر سیاست کررہے ہیں تو انہیں بہار میں سو، اترپردیش میں 150 اور فلاں جگہ اتنے اور اتنے ا میدوار کھڑے کرنا چاہیے تھے۔ بہار میں 6 یا اترپردیش میں 36 یا مہاراشٹر میں 26 پر وہ کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اور اگر ان کے اپنے امیدواروں میں سے آدھے یا تہائی جیت جائیں تو وہ مسلمانوں کا کیا بنادیں گے اور مسلمانوں کے دشمنوں کا کیا بگاڑ لیں گے؟

رشید صاحب جنوبی ہند میں بیٹھے ہیں ۔ جنوبی ہند والوں نے پاکستان نہیں بنایا تھا خود رشید انصاری صا حب اس زمانہ کے اخبار کی فائل لے کر دیکھیں کہ مسلم لیگ میں پاکستان کا مطالبہ کرنے والوں میں جنوبی ہند کے کتنے لیڈر تھے جو پاکستان بننے کے بعد وہاں جا کر حکومت کا حصہ بنے؟ اور جائزہ لیں کہ جنوبی ہند کے کتنے مسلمان پاکستان گئے؟ جنوبی ہند میں مسلمانوں کا سامنا ہندوئوں سے نہیں ہے۔ وہاں دراوڑوں کی اکثریت ہے اور تمل ناڈو کے اندر آج بھی اکثریت لامذہب لوگوں کی ہے۔ اویسی صاحب ابراہیم سلیمان سیٹھ کی طرح یا محمد کھویا یا ای احمد کی طرح صرف انہیں ریاستوں یا تلنگانہ میں جتنی سرگرمی دکھانا چاہیں دکھائیں ، وہ شمالی ہند میں آکر جناح صاحب، لیاقت علی خاں ، عبدالرب نشر اور خلیق الزماں بننے کی کوشش نہ کریں ۔

اویسی صاحب اور انصاری صاحب کو یہ سوچنا چاہیے کہ شمالی ہند خاص طور پر اترپردیش وہ علاقہ ہے جہاں کروڑوں ہندوئوں کو یہ تو نہیں معلوم کہ رام چندر جی اور سیتا جی کا زمانہ کتنے لاکھ برس پہلے تھا۔ 10 لاکھ، 20 لاکھ یا 50 لاکھ؟ لیکن یہ معلوم ہے کہ وہ اجودھیا کی زمین پر کس جگہ پیدا ہوئے تھے اور یہ تو نہیں معلوم کہ  انسان نے اناج یا پھول اور پتے کب پکا کر کھانا شروع کیے تھے اور برتن کے استعمال کو کتنے لاکھ یا ہزار برس ہوئے لیکن یہ معلوم ہے کہ سیتا جی کی رسوئی کہاں تھی؟اور ایک ہنومان تھے جو پوری لنکا کو اٹھا کر لے آئے تھے۔

ہمارے علاقہ میں ایک محاورہ اکثراستعمال ہوتا ہے کہ ’’کاتا اور لے بھاگی‘‘مقصد یہ ہوتاہے کہ کاتو اور ذخیرہ کرو پھر اس کا سودا کرو۔ اویسی صاحب جو کاتا اور لے بھاگی کررہے ہیں اس سے مسلمانوں کا بنے گا تو کچھ نہیں ماحول میں نفرت کا اضافہ ہوگا۔ رشید انصاری صاحب نے سرسیدؒ کا ذکر کرتے وقت یہ تو سوچا ہوتا کہ وہ کس زمانہ کی بات ہے؟ کیا اس وقت تقسیم یا پاکستان کا مسئلہ تھا؟ ہم صرف اس کے خلاف ہیں کہ اویسی صاحب پائیں گے تو کچھ نہیں فضا بگاڑ کر چلے جائیں گے۔ اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اویسی صاحب ایسی بنا لیں جس میں وہ سو ٹکٹ ہندوئوں کو دیں اور پچاس مسلمانوں کو تو سب سے زیادہ زوردار آواز میں ہم ان کی حمایت کریں گے لیکن صرف ان کا زبان سے یہ کہنا کہ وہ مایاوتی سے مل کر لڑنا چاہتے تھے لیکن وہ تیار نہیں ہوئیں ، مبالغہ ہے۔ ہم لکھنؤ میں رہتے ہیں ہر وقت ممتاز صحافیوں سے رابطہ ہے۔ ایک بار بھی کسی نے نہیں بتایا کہ اویسی اور مایاوتی کے مذاکرات ناکام ہوگئے اور کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اویسی صاحب خود آئے تھے یا مایاوتی نے انہیں بلایا تھا؟

ہم اپنے ملک کے لیے جیسے پروین توگڑیا، ونے کٹیار، ساکشی مہاراج، آدتیہ ناتھ یوگی کو مضر سمجھتے ہیں اسی طرح اویسی صاحب اور ڈاکٹر ایوب کو بھی ملت کا دشمن سمجھتے ہیں ۔اویسی صاحب کو الیکشن فوبیا ہوگیا ہے۔ اگر اسمبلی کا نہیں تو وہ کارپوریشن اور میونسپل بورڈ کے ا لیکشن وہ بھی اورنگ آباد اور ممبئی میں جا کر لڑ رہے ہیں ۔ ممبئی میں 227 کے بورڈ میں تین سیٹوں پر جیت کر ا نھوں نے مسلمانوں کا کیا بھلا کیا اور اپنی پارٹی کا کیا بھلا کیا؟ مہاراشٹر اسمبلی میں بھی دو ممبر اویسی صاحب کے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اسمبلی میں کیا کررہے ہیں ؟

ہم مولانا آزاد کو کوئی امیر المومنین نہیں سمجھتے نہ وہ مولانا عبیداللہ سندھی ، حضرت مدنی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی صف کے بزرگ تھے۔ لیکن بلا شبہ وہ سیاسی بصیرت میں سب سے آگے تھے اور وہی تھے جو گاندھی جی اور نہرو کے بعد اکیلے پاکستان کی اور ملک کی تقسیم کے مخالف رہ گئے تھے اور آخر آخر ان کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ اور یہ تو رشید ا نصاری صاحب نے بھی پڑھا ہوگا کہ برسوں کے بعد مولانا عبدالماجد دریابادی اور دوسرے بزرگوں نے بھی تسلیم کرلیا تھا کہ پاکستان بنا کر غلطی کی۔

پاکستان شمالی ہند اور سب سے زیادہ اترپردیش والوں نے بنوایا تھا۔ اس لیے شمالی ہند میں بالکل اس کی گنجائش نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں کی کوئی تنظیم کھڑی کی جائے۔ رشید انصاری صاحب کو حیدرآباد کی قیامت صغریٰ ہم سے کہیں زیادہ یاد ہے۔ وہاں مسلمانوں کی صرف ایک غلطی تھی کہ پرجوش مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ ریاست بھی ان کی ہے اور حکومت بھی ان کی ہے اور وہ سب اویسی صاحب جیسے ہی تھے جنھوں نے آصف جاہی حیدرآباد کو لاشوں کا شہربنادیا۔ غلطی صرف یہ تھی کہ ان انگریزوں کا معاہدہ ان کے پاس تھا جو جنگ ہارنے کے بعد ہندوستان سے جلد از جلد بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر وہ دوسری جنگ عظیم جیت گئے ہوتے تو ان کا لکھا ہوا ہر حرف پتھر کی لکیر ہوتا۔ لیکن ہار اہواجواری بے قیمت ہوجاتا ہے۔ اب یہ مسلمانوں کی غلطی تھی کہ انھوں نے نواب صاحب بھوپال کی پالیسی نہیں اپنائی۔رشید صاحب اگر اویسی صاحب کی حمایت پر مجبور ہیں تو بات الگ ہے اور اگر صرف نظریہ ہے تو انہیں سمجھائیں کہ ہندوئوں میں ایک طبقہ انگریزوں کی غلامی کو غلامی مانتا ہے اور ایک طبقہ غلامی ایک ہزار سال کی مانتا ہے اور وہی مسلمان کا د شمن ہے۔

اویسی صاحب جیسی شخصیتیں اس طبقہ کو طاقت کے انجکشن لگوارہی ہیں جو غلامی ایک ہزار سال مانتا ہے۔ انھیں سمجھائیں کہ وہ جتنی زور سے بولیں گے اتنا ہی مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔

رشید صاحب نے اپنے مضمون کی بنیاد اس پر رکھی ہے کہ تمام سیکولر اور فرقہ پرست جماعتیں آج نہیں بلکہ کانگریس کے قیام کے وقت سے یہ ہرگز نہیں چاہتیں کہ ملک پر صدیوں حکومت کرنے والے سیاسی طاقت بن کر ابھریں ۔

یہ بات رشید صاحب ہی بتائیں کہ کیا ہندوئوں کی یہ سوچ غلط تھی؟ آٹھ سو برس ہندو مسلمانوں کی حکومت میں رہے اور اس کے با وجود رہے کہ وہ ہمیشہ اکثریت میں تھے۔ انگریز جب آئے اور انھوں نے ملک اپنے ہاتھ میں مسلمانوں سے لیا اور اپنی سو سالہ حکومت میں جتنا ہوسکا مسلمانوں کو کمزور اور ہندوکو طاقت وربنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود مسلمان کا دشمن تھا۔ اور اسی وجہ سے ہندوستان میں مسلمان دو دشمنوں کے بیچ میں پھنس گئے۔ اس کے بعد بھی اگر جناح صاحب یہ غلطی نہ کرتے اور پا کستان نہ بنواتے تو آج مسلمان 60کروڑ ہوتے اور فوج میں بھی ہوتے غیر فوجی تنظیموں میں بھی اور پولیس میں بھی اور کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ جنوبی ہند کو ساتھ لے کر ملک پر حکومت کرتے یا حکومت کو اپنی مرضی سے چلاتے۔

کانگریس اور سب کے چاہنے کے باوجود مسلمان سیاسی طاقت بن کر ابھرے لیکن غلطی یہ کی کہ کٹا پھٹا پاکستان لے کر اپنا حصہ لے لیا اور ہندوستان کے3 کروڑ مسلمانوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ اب جو کوئی سیاسی طاقت بن کر ابھرنا چاہتا ہے وہ اس لیے بے ایمان سمجھا جاتا ہے کہ اس کے دادا اپنا حصہ لے چکے اور لکھ کر دے چکے کہ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔ بلکہ عبدالرب نشتر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان تین کروڑ مسلمانوں کا دین ایمان بھی ہم نے چھ کروڑ کے ایمان پر قربان کردیا۔ اب ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے اور اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم الگ سیاسی طاقت بنائیں گے تو مسلمان بے ایمان کہا جائے گا۔ اور کم از کم ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ہم اسے بہت بڑا تحفہ مانتے ہیں کہ لاکھوں مسلمان تعلیمی جماعت کے  ذریعہ دین کی حفاظت کررہے ہیں اور پاکستان بنگلہ دیش سے ہندوستان میں زیادہ دین ہے۔ اور پرسنل لا بورڈ جیسی تنظیم ہے جو ہر قدم پر حکومت سے برسرپیکار ہے اور قبرستانوں کے چاروں طرف دیواریں کھڑی ہورہی ہیں جو وزیر اعظم کو بھی ناگوار ہیں اور ہر کام شریعت کے مطابق کرنے کے لیے ہم آزاد ہیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لیے درجنوں سیاسی پارٹیاں ہیں وہاں جائیں اور شوق پورا کریں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔